Get Alerts

پاکستان میں ایچ آئی وی کے بڑھتے کیسز کا ایک خطرناک وبا کی صورت اختیار کرنا سگین مسئلہ بن گیا

2024 کے پہلے 9 ماہ میں 9,713 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں خطرناک اضافہ ظاہر کرتے ہیں،2024 میں ہر ماہ 1,079 افراد ایچ آئی وی کا شکار ہوئے

پاکستان میں ایچ آئی وی کے بڑھتے کیسز کا ایک خطرناک وبا کی صورت اختیار کرنا سگین مسئلہ بن گیا

 پاکستان میں ایچ آئی وی کے کیسز میں حالیہ اضافہ نہ صرف صحت کے ماہرین بلکہ سماجی کارکنوں اور حکومتی اداروں کے لیے بھی گہری تشویش کا باعث بن رہا ہے۔ رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے پہلے 9 ماہ میں 9,713 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں خطرناک اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

2024 کے اعداد و شمار

ماہانہ اوسط کے حساب سے 2024 میں ہر ماہ 1,079 افراد ایچ آئی وی کا شکار ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی رجحان جاری رہا تو سال کے اختتام تک یہ تعداد 12,950 تک پہنچ سکتی ہے۔ پچھلے سال 2023 میں 12,731 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جو کہ اس سال کے تخمینے سے قدرے کم ہیں۔

متاثرہ افراد کی تقسیم

وفاقی وزارت صحت کے رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز میں مرد 69.4 فیصد، خواتین 20.5 فیصد، خواجہ سرا 4.1 فیصد اور بچے 6 فیصد شامل ہیں۔

صوبائی سطح پر ایچ آئی وی کیسز

پاکستان کے مختلف صوبوں میں ایچ آئی وی کیسز کی تعداد درج ذیل ہے:۔

پنجاب میں 5,691 کیسز، سندھ میں 2,383 کیسز، خیبرپختونخوا میں 926 کیسز، بلوچستان میں 329 کیسز، اسلام آباد میں 378 کیسز اور آزاد کشمیر میں 10 کیسز رپورٹ ہوئے۔

یہ ڈیٹا رائیٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت جمع کیا گیا ہے، جو کہ صحت کے شعبے میں شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔

وجوہات: ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے عوامل

ماہرین اور حکومتی ادارے اس وبا کے پھیلاؤ کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں شامل ہیں کم آگہی، دیہی اور شہری علاقوں میں عوام کو ایچ آئی وی سے بچاؤ کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں۔ غیرمحفوظ جنسی تعلقات، صحت کے مراکز میں حفاظتی اقدامات اور مناسب ٹیسٹنگ کی کمی بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔ منشیات کے استعمال سے سرنج کے ذریعے ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی موازنہ

پاکستان میں ایچ آئی وی کے کیسز کا اضافہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تشویشناک ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں 2023 کے دوران 62,000 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن وہاں کی آبادی کے لحاظ سے یہ تناسب پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔

متاثرین کی کہانیاں

کراچی کے رہائشی 30 سالہ حارث خان نے بتایا مجھے ایچ آئی وی کا پتہ چلا تو میرے خاندان نے میرا ساتھ چھوڑ دیا علاج کے لیے مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے میری حالت مزید خراب ہو رہی ہے۔ اسی طرح لاہور سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ زہرہ بی بی کہتی ہیں کہ مجھے شادی کے بعد پتہ چلا کہ میرے شوہر ایچ آئی وی کا شکار ہیں اور اب میں بھی اس بیماری میں مبتلا ہوں۔

ماہرین کی آراء

ڈاکٹر فواد احمد ایک سینئر انفیکشن اسپیشلسٹ کا کہنا ہے پاکستان میں ایچ آئی وی کے بڑھتے کیسز کا سب سے بڑا مسئلہ عوامی آگہی کی کمی اور غیرمحفوظ رویے ہیں۔ سماجی کارکن عائشہ بانو نے کہا ایچ آئی وی کے مریضوں کو نہ صرف طبی امداد کی ضرورت ہے بلکہ سماجی قبولیت بھی اہم ہے تاکہ وہ علاج کے لیے آگے آئیں۔

حکومتی اقدامات اور بیانات

حکومت نے ایچ آئی وی کے کیسز کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں ہائی رسک گروپس کے لیے خصوصی آگہی مہمات، صحت کے مراکز میں مفت ٹیسٹنگ اور علاج کی سہولیات، عالمی ادارہ صحت (WHO) کے تعاون سے ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے ادویات کی فراہمی شامل ہے ۔

وفاقی وزارت صحت کے ایک ترجمان نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا ہے کہ ہم صحت کے شعبے میں اصلاحات لا رہے ہیں تاکہ ایچ آئی وی کے کیسز کو کم کیا جا سکے اور عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

ماہرین کی تجاویز

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں عوامی آگہی میں اضافہ، اسکولوں کالجوں اور دیہی علاقوں میں آگہی مہمات چلائی جائیں۔ مفت ٹیسٹنگ کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ہر ضلع میں مفت ایچ آئی وی ٹیسٹنگ سینٹرز قائم کیے جائیں۔ ہائی رسک گروپس پر توجہ دی جائے اور منشیات کے عادی افراد اور غیرمحفوظ جنسی تعلقات رکھنے والے افراد کے لیے خصوصی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ سماجی رویے کی تبدیلی کے لیے ایچ آئی وی کے مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

پاکستان میں ایچ آئی وی کے کیسز میں اضافہ ایک خطرناک وبا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ ماہرین اور حکومتی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بیماری عام آبادی میں تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ عوامی آگہی، صحت کی سہولیات میں بہتری، اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔