بدلتا پنجاب اور پاکستان میں جاری طبقاتی جنگ

بدلتا پنجاب اور پاکستان میں جاری طبقاتی جنگ
11/9 کے سانحے کے بعد، صدر بش کو مکمل اور غیر مشروط حمایت کا یقین دلوا کر، جنرل پرویز مشرّف نے نہ صرف اپنے لڑکھڑاتے ہوئے اقتدار کو مضبوط کیا، بلکہ اپنے ادارے اور اس سے منسلک اشرافیہ کے لئے من و سلویٰ کے در بھی کھول دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، کولیشن سپورٹ فنڈ کے امریکی ڈالر معاشرے میں سرایت کرنے لگے۔ ڈالروں کی اس ریل پیل کو جذب کرنے کے لئے نت نئے بینکس نمودار ہونے لگے، معلومات اور تفریح کے خلا کو پر کرنے کے لئے نیوز چینلز، اور بڑھتے ہوئے کاروبار کو سہارا دینے کے لئے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں وجود میں آنے لگیں۔

اس بدلتی صورتحال سے دو طبقوں نے بھر پور اور بالواسطہ فائدہ اٹھایا۔ پہلا طبقہ تو شہری مڈل کلاس کے نوجوان ہیں، جن کو انگریزی میں ینگ اربن پروفیشنل کلاس کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ چالیس سال سے کم عمر کے ان افراد پر مشتمل ہے جو کہ شہروں میں رہتے ہیں اور یونیورسٹیوں  سے انجینئرنگ، میڈیسن، ایم بی اے  وغیرہ کی ڈگریاں مکمل کر کے، دفتری ملازمتیں اختیار کرتے ہیں۔ 2000 کے عشرے میں پھلتے پھولتے ہوئے بنکنگ، میڈیا، اور ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹرز نے ان نوجوانوں کو خوب اچھی ملازمتوں سے نوازا، اور جو رہی سہی کثر تھی، وہ امریکہ، یورپ، اور ان کی مدد سے وجود میں آنے والی فارن سکالرشپ نے پوری کر دی۔

پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں شہری-ملازمتی طبقہ سیاستدانوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس طبقے کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کی تنخواہوں سے کٹے  ٹیکس کو ان پر خرچ کرنے کے بجائے، ووٹ کی بھوکی سیاسی اشرافیہ میٹرو منصوبوں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، اور سرکاری نوکریوں کی شکل میں غریب-مزدور اکثریت پر 'ضائع' کر دیتی ہے۔ اس وجہ سے  یہ طبقہ فوجی قیادت، بیوروکریسی، میڈیا، اورعدلیہ کی مدد سے اپنے معاشی اور سیاسی اہداف کو پورا کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ ایسے میں، معاشی طور پر مستحکم ہوتے شہری-ملازمتی طبقے کو عمران خان کی شکل میں اپنی طرح روایتی سیاستدانوں سے نفرت کرنے والا اور فوج کا مکمل حمایتی نصیب ہوا، اور انہوں نے پی ٹی آئی کو اپنی بھر پور حمایت سے نوازا۔

پرویز مشرّف کے اقتدار سے بالواسطہ فائدہ اٹھانے والے دوسرے طبقے کو ہم پراپرٹی اشرافیہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ طبقہ ان دو سے پانچ ہزار کاروباری افراد پر مشتمل ہے جو فوج میں اپنے تعلقات استعمال کر کے راتوں رات ارب پتی بن گئے۔ ان میں بہت سے نام آج کل زبان زد عام ہیں، مثلاً ملک ریاض، فیصل واؤڈا، علیم خان، جہانگیر ترین وغیرہ۔ اس طبقے میں آپ گورنر محمد سرور اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو کہ باہر سے ڈھیروں دولت جمع کر کے وطن واپس لوٹے ہیں۔  بے بہا نئے دھن سے مالا مال اس طبقے نے جب سیاست میں قدم رکھا، تو ن لیگ یا پیپلز پارٹی جیسی پرانی پارٹیوں کے بجائے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا، جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ، کہ فوج کی شکل میں اس طبقے کو اقتدار حاصل کرنے کا آسان راستہ نظر آیا۔ جرنیلوں کو بھی یہ آسانی رہی کہ پرانی اشرافیہ کے بر عکس، نئی اشرافیہ کی سیاست مکمل طور پر فوج کی مرہون منت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اقتدار میں آنے کے باوجود یہ جرنیلوں کی بات کو مقدم مان کر چلتے ہیں۔

پراپرٹی اشرافیہ کے پی ٹی آئی کی جانب راغب ہونے کی دوسری وجہ پرانی سیاسی جماعتوں کا کلچر بھی ہے۔ پرانی جماعتوں پر پرانی اشرافیہ قابض ہے، جو کہ نو دلتیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔ پیپلز پارٹی میں نسلوں پر محیط خاندانی وابستگیوں کے درمیان جگہ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جب کہ مسلم لیگ ن اپنے خمیر میں اس صنعتکاری اشرافیہ کی جماعت ہے کہ جس نے ایوب خان کے زمانے میں عروج پایا، اور پھر ضیاالحق کے ساتھ مل کر انگریزوں کی بنائی جاگیردار اشرافیہ کو شکست دی۔ 60، 70 اور 80 کی دہائی میں وجود میں آنے والی صنعتکار اشرافیہ نے ریاست سے ساتھ مل کر ممدوٹوں، ٹوانوں، اور نوابوں وغیرہ کا پنجاب کی سیاست سے مکمل صفایا کر دیا۔ اب اس پرانی جاگیردار اشرافیہ کے علم بردار شاید شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی جیسے اکا دکا سیاستدان ہی بچے ہیں۔

ہونا تو ایسے ہی تھا۔ جس طرح  صنعتکار اشرافیہ نے فوج کے ساتھ مل کر جاگیردار اشرافیہ کو شکست دی تھی، اسی طرح، پراپرٹی اشرافیہ کا ریاست کے گٹھ جور سے صنعتکار اشرافیہ کو فارغ کرنا نوشتہ دیوار تھا۔ لیکن بات کچھ یوں ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ضرور ہے، مگر حیران کر دینے والے طریقوں سے۔

جہاں 2001 کے بعد پراپرٹی اشرافیہ نے جنم لیا اور شہری-ملازمتی طبقہ مضبوط ہوا، وہیں ایک اور طبقے، یعنی تاجر-کسان طبقے نے بھی بہت ترقی کی۔ تاجر-کسان طبقہ چھوٹے بڑے دکاندار، کاشتکار، ہول سیلر، ٹرانسپورٹر، گھریلو صنعتکار، امپورٹر ایکسپورٹر، ریسٹورنٹ مالکان، آرھٹی، اور ٹھیکیداروں وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ معاشی اور سماجی مماثلت کی وجہ سے اس طبقے میں ہم مشرق وسطیٰ میں مزدوری کرنے والے حضرات کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔

پراپرٹی اشرافیہ اور ملازمتی طبقے کے برعکس، تاجر-کسان طبقہ ریاست کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کے باوجود ترقی کرتا ہے۔ یہ طبقہ قدرے ریاست کے اثر و رسوخ سے باہر کام کرتا ہے، اور اپنی ترقی میں بعد از  نوآبادیاتی ریاستی نظام کو حائل سمجھتا ہے۔ تاریخی طور پر، اس طبقے کی سیاست میں دلچسپی واجبی اور مقامی تھانہ، کچہری کی حد تک ہوتی ہے۔

2001 کے بعد جہاں ریاستی پالیسیوں سے شہری-ملازمتی طبقے اور پراپرٹی اشرافیہ نے بالواسطہ فائدہ اٹھایا، وہاں تاجر-کسان طبقے کو یہ فائدہ بلا واسطہ طریقوں سے پہنچا۔ افغانستان میں ری کنسٹرکشن  سے پیدا ہونے والی معاشی ترقی پاکستانی مارکیٹوں میں بیٹھے آرھٹیوں، ہول سیلرز، اور امپورٹرز تک خود چل کر پہنچی۔ بہت سے چھوٹے ٹرانسپورٹرز نے قبائلی علاقوں میں چھڑری جنگ میں برستے گولہ بارود کے درمیان میں سے ٹرک گزار کر روزی روٹی کمائی۔ اسی طرح، افغانستان میں زرعی اجناس کی مانگ بڑھنے کا فائدہ چھوٹے کاشتکاروں اور مندی فروشوں کو ہوا، اور نئی مارکیٹ کو سریا، کپڑا، آٹو پارٹس، وغیرہ سپلائی کرنے کے لئے ڈھیروں گھریلو صنعتیں لگیں۔

ہاتھ میں پیسہ دیکھ کر اپنے والدین کے برعکس، اس نوجوان نے سیاست میں اپنی ساکھ بنانا چاہی۔ یہ نوجوان اب  اپنے مقامی تھانہ کچہری کے مسائل اپنے بل بوتے پر حل کرنے کی معاشی سکت رکھتا ہے۔ کسی ڈیرے یا مقامی با اثر شخصیت کی محتا جی سے آزاد، اس جوشیلے اور باغی نوجوان نے ملکی سیاست میں حصہ حاصل کرنے کے لئے پی ٹی  آئی کا رخ کیا۔ عمران خان کی تقاریر اس زمانے میں بہت انقلابی ہوا کرتی تھیں۔ نئے، نوجوان، اور انصاف پر مبنی پاکستان کا خواب بہت سوں کی طرح تاجر-کسان نوجوان کے دل کو بہت اچھا لگا۔

لیکن افسوس کہ یہ رغبت زیادہ دن قائم نہ رہ سکی، اور یہ نوجوان تھوڑے ہی عرصے میں عمران خان سے مایوس ہو گیا۔ تاجر-کسان طبقے کے نوجوان کے پی ٹی  آئی سے بد دل ہونے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: شہری-ملازمتی طبقے سے ثقافتی اختلافات، فوجی مقتدرہ سے معاشی تناؤ، اور مریم نواز کا بیانیہ اور جرات۔

ثقافت کے اعتبار سے تاجر-کسان اور شہری-ملازم نوجوان میں پہلا فرق زبان کا ہے۔ شہری-ملازم نوجوان دفتری خط و کتابت انگریزی میں اور گفتگو اردو میں کرتا ہے۔ جب کہ تاجر-کسان نوجوان کاروباری خط و کتابت اردو میں اور گفتگو پنجابی میں کرتا ہے۔ شہری-ملازم طبقے کے نوجوان کو پنجابی بولنے میں شرم محسوس ہوتی ہے، وہیں  تاجر-کسان نوجوان بے جھجک اپنی ماں بولی کا استعمال کرتا ہے۔ تاجر-کسان نوجوان کی بڑھتی ہوی قوت خرید کی بدولت ہی آج مین سٹریم ٹیلی وژن پر پنجابی ہنسی مزاق کے پروگرام سب سے زیادہ ریٹنگز لیتے ہیں، ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر روز ڈھیروں پنجابی مواد تیّار  ہوتا ہے، اور آج  پنجابی شاعری اپنے تاریخی سنہری دور سے گزر رہی ہے۔ مثلاً گلناز کا کھلی بھر کا یہ بند ملاحظہ کیجئے:

ادھی راتی، میرے سفنے
آپس دے وچ لڑدیاں لڑدیاں
اس تراں گتھم گتھا ھوئے،
کہ اک سفنا تے تھاں ای مر گیا
تے دوجا میں فر ویکھیا ای نئیں

تاجر-کسان نوجوان ٹھنڈے کمروں میں 9 سے 5 تک کی نوکری کے بجائے، اپنا کاروبار خود چلاتا ہے اور خود محنت مزدوری کرتا ہے۔ اس نوجوان کی شخصی اور سماجی شناخت بھی اس کا کاروبار ہی ہوتا ہے۔ یہ نوجوان شہری ملازم نوجوان سے کہیں زیادہ پیسے کمانے کے باوجود، ریاست اور شہری-ملازم طبقے کی نظر میں معتبر نہیں ہوتا۔

معیشت کے اعتبار سے تاجر-کسان طبقے کے اہداف ریاستی مقتدرہ سے قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ افغان تجارت سے مستفید ہوئے تاجر-کسان طبقے کو بخوبی ادراک ہے کہ ہندوستان-افغانستان تجارت کے کھلنے سے اس کا کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس طبقے کے دباؤ کے پیش نظر ہی نواز شریف اور آصف زرداری جیسے عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہماری مقتدرہ اپنے سٹریٹیجک اہداف کے پیش نظر ان دونوں ہمسایہ ممالک سے سرد جنگ کی کیفیت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

جہاں کسانوں کو فوجی فرٹیلائزر کی قائم شدہ مونوپولی کی وجہ سے کھاد مہنگی خریدنا پڑتی ہے، وہاں چھوٹے ٹرانسپورٹرز اور ٹھیکیداروں کو این ایل سی اور یف ڈبلیو او جیسے فوجی کاروبار اپنی ترقی میں رکاوٹیں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار اہداف کی یہ جنگ انتہائی واضح بھی ہو جاتی ہے۔ مثلاً راوی ریور فرنٹ پروجیکٹ کی تکمیل کے لئے ریاست لاہور کے گرد و نواح کے کسانوں سے زبردستی زمینیں خالی کروا کر پراپرٹی اشرافیہ کے حوالے کرے گی، جو کہ اس میں شہری-ملازمتی افراد کے لئے قسطوں پر اپارٹمنٹس اور گھر مہیا کریں گے۔ مطلب ہماری ریاست کسان کا نقصان کر کے فائدہ پراپرٹی اشرافیہ اور شہری-ملازمتی طبقے کو پہنچائے گی۔ ایسی مختلف مثالیں ڈی ایچ اے ملتان اور اوکاڑہ مزارعین والے مسئلوں میں یا چینی اور آٹے کے بحرانوں مل سکتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر 2013 کے بعد جیسے جیسے عمران خان جرنیلوں کے قریب جاتے گئے، ویسے ویسے شہری-ملازمتی طبقہ نوجوان پی ٹی  آئی کے اور قریب، جب کہ تاجر-کسان طبقہ دور ہوتا چلا گیا۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر جب مقتدرہ مخالف جذبات کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا، تب اس خلا کو محسوس کرتے ہوئے مریم نواز نے تاجر-کسان طبقے کے نوجوان کے لئے سیاست کے دروازے کھولے۔ سوشل میڈیا کا استعمال کر کے مریم نے اپنی پارٹی کی ہئیت ہی بدل دی۔ مسلم لیگ کی روایتی، سست، اور مصلحت پسند سیاست میں مریم نے جوش، ولولہ، اور ٹکراؤ متعارف کروایا۔ مریم کا 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ تاجر-کسان نوجوان کے دل میں گھر کر گیا، اور اس نوجوان نے اس نعرے کا مطلب "میرے ووٹ کو عزت، اور میری آواز کو اہمیت دو" جانا۔ اس نعرے کی کسک صرف انتخابات تک ہی نہیں، بلکہ ریاستی فیصلہ سازی تک جاتی ہے۔

جب 2017 میں نواز شریف نے باغیانہ سیاست اپناتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور تک کا جی ٹی روڈ کا سفر شروع کیا، تو تاجر-کسان نوجوانوں کو میاں صاحب میں اپنے اندر کا باغی نظر آیا۔ دیوانہ وار اس نوجوان نے گاؤں، قصبوں، اور گلیوں سے نکل کر میاں صاحب کا ایسا پر جوش استقبال کیا کہ خود میاں صاحب بھی دنگ رہ گئے۔ نواز شریف کی اس یاترا اور عوامی جذبے نے پنجاب کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا ہے، اور پاکستان میں طبقاتی جنگ کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف فوجی مقتدرہ کی قیادت میں شہری-ملازم طبقہ اور پراپرٹی اشرافیہ ہے، تو دوسری طرف مریم نواز کی قیادت میں تاجر-کسان طبقہ اور پرانی صنعتی اشرافیہ ہے۔

عمومی طور پر طبقاتی جنگوں کا انجام سیاہ، سفید یا مکمل ہار، جیت پر نہیں نکلا کرتا۔ دہائیوں پر محیط داخلی کشمکش کے بعد، متحرک طبقات تھک ہار کر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ سمجھوتہ طاقت کے بل بوتے پر کم، اور باہمی اتفاق کے ذریعے زیادہ قائم ہوتا ہے۔ ہر طبقے کو اس کی عددی، معاشی، اور ثقافتی حیثیت کے مطابق اقتدار اور فیصلہ سازی میں حصّہ مل جاتا ہے، اور ہر طبقے کو یہ محسوس ہوتا ہے کے توازن کے بگڑنے کی صورت میں باقی طبقات کی نسبت اسی کا نقصان زیادہ ہوگا۔ اس توازن کو دوسرے الفاظ میں معاشی اور سماجی انصاف بھی کہا جاتا ہے۔

امریکہ میں طبقوں کے بیچ کا توازن ایک بار 1860 کی دہائی میں سول وار کے اختتام پر، اور دوسری بار 1930 کی دہائی میں دی گریٹ ڈپریشن کے اختتام پر دی گریٹ نیو ڈیل کی صورت میں قائم ہوا۔ ان دونوں سمجھوتوں سے پہلے کی دہائیوں میں امریکی معاشرے میں خوب انتشار پھیلا، اور ان کے قائم ہونے کے بعد معاشرے نے خوب ترقی کی۔ 2010 کے بعد پھر سے امریکی معاشرے کے مختلف طبقوں نے ڈانلڈ ٹرمپ اور برنی سینڈرز کے ذریعے اپنے غصّے کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے، اور انتشار کی یہ موجودہ صورت بھی کسی نہ کسی سمجھوتے پر آ کر ہی ترقی کی راہیں ہموار کرے گی۔

پاکستان میں تاجر-کسان اور شہری-ملازمتی طبقے میں جاری جنگ کو میزان تک پہنچنے کے لئے شاید ہمارے پاس دہائیوں کا وقت نہ ہو۔ روز کی بڑھتی مہنگائی اور غربت پسے ہوئے عوام کو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ صبر کی حدود پر دھکیل رہی ہیں۔ غریب-مزدور اور دھاڑی دار طبقہ واضح اکثریت تو رکھتا ہے، لیکن اقتدار کا کھیل اس کی پہنچ سے کہیں دور ہوتا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بد حالی اس طبقے کو ایسا جکڑے رکھتی ہیں کے اس میں شامل افراد کی تمام تر زندگی زندہ رہنے اور روٹی کے حصول میں وقف ہو جاتی ہے۔ یہ طبقہ آج بھی خود کو استحصالی بعد از نو آبا دیاتی ریاست سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈیروں اور مقامی بااثر شخصیت کا محتاج ہے۔ اس تحفظ کے بدلے، غریب-مزدور طبقہ اپنے ڈیرے دار کے حق میں نعرے لگاتا ہے اور انتخابات میں ووٹ ڈالتا ہے۔

دیہاتوں کی نسبت، شہروں اور قصبوں میں یہ طبقہ مقامی اثر کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اپنی مجموعی سیاسی ساکھ بھی رکھتا ہے۔ غریب-مزدور طبقے کو سیاست میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے آواز مہیا کی، جس کی وجہ سے یہ کئی دہائیوں تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہا۔ 2007 میں محترمہ بینیظر بھٹو کی شہادت اور پھر زرداری حکومت کی ناکامی سے مایوس ہو کر، اس طبقے نے مختلف قوتوں کی طرف رجوع کیا۔ 2013 کے انتخابات میں اس طبقے نے شہروں کی حد تک مسلم لیگ نون کو ووٹ ڈالا، اور 2018 میں اس کے ووٹ مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی، اور تحریک لبیک کے درمیان بٹ گئے۔

پچھلے دو سے تین سالوں میں بڑھتی مہنگائی سے پریشان یہ طبقہ پی ٹی آئی حکومت سے شدید متنفر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے 2023 کے انتخابات میں اس طبقے کا ووٹ حکومت مخالف ہی پڑے گا۔ یہ صورتحال یقیناً ہماری مقتدرہ کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے۔ مزدور طبقے کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے تاجر-کسان طبقے کی حکومت مقتدرہ کے لئے شدید درد سر کا باعث بن سکتی ہے۔ پولیسی کی سطح پر، ایسی حکومت کو تاجر-کسان طبقے کے دباؤ میں آ کر ہندوستان اور افغانستان سے تعلّقات بہتر کرنا پڑیں گے، جس کی وجہ سے مقتدرہ کے دیرینہ اثاثوں اور سٹریٹیجک اہداف کی قربانی دینا لازم ہے۔ دوسری طرف، ایسی حکومت کو مزدور طبقے کو سہولیات دینے کے لئے ہمارے دیو ہیکل دفاعی اخراجات میں کمی بھی کرنا پڑے گی۔

یہ راستہ یقیناً ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ اس پر چلنے سے ملک میں تجارت کو فروغ ملے گا، ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے، اور ہمارے محدود وسائل تعلیم اور صحت پر خرچ ہوں گے۔ فوج قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرے گی، جس کی وجہ سے ملک میں آزاد سوچ اور بے خوفی کی فضا قائم ہوگی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہونے کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے خطے میں خوشحالی آئے گی۔ یہ سب باتیں تصوّر کرنے میں تو اچھی لگتی ہیں، لیکن ان کا حقیقت پذیر ہونا قدرے ناممکن ہے۔ ہمارے فوجی جرنیل اور ان کا ساتھ دیتا شہری-ملازمتی طبقہ کسی بھی صورت اقتدار پر اپنی گرفت کمزور کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دوسری طرف ہماری کمزور اور غیر منظم سیاسی جماتیں فوج جیسے مضبوط اور منظم ادارے کا سامنا کرنے کی سکت ہر گز نہیں رکھتیں۔ حالات سے یوں لگتا ہے کہ 2023 کے انتخابات میں فوج 2018 والی دھاندلی دہرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اور اگر مکمّل دھاندلی کرنے میں نہ بھی کامیاب ہی تو 2013 کے انتخابات کے بعد والا فارمولا اپنا کر عوامی ووٹوں سے اقتدار میں آئی حکومت کو مفلوج اور ڈانواں ڈول رکھے گی۔

غرضیکہ 2023 کے انتخابات کے بعد بھی آج نظر آنے والا طاقت کا نظام ہی قائم رہے گا۔ فوج اور اس سے ملحقہ اشرافیہ کی ریاستی فیصلہ سازی اور وسائل پر گرفت مزید مستحکم ہوتی جائے گی، جب کہ عوام کی غربت اور مفلوک الحالی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہے گا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے مزدور طبقہ ایسے ہی مہنگائی کے دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔ دوسری طرف معاشی جمود کے چلتے تاجر-کسان طبقہ اور صنعتی اشرافیہ میں بے چینی بڑھتی جائے گی۔ ووٹ کی طاقت سے ریاستی فیصلہ سازی میں شراکت سے محروم عوام کب تشدّد کا راستہ اپنا لیں، یہ کہنا مشکل ہے۔ ریاستی اداروں میں بیٹھے جغادری تحریک لبّیک کو اپنے ساتھ ملا کر کچھ عرصے کے لئے شاید عوامی غصّے کو ٹھنڈا رکھ پائیں، لیکن ایسا کوئی بھی حل دیر پا ثابت نہیں ہو گا۔ بنیادی حقوق کی عدم دستیابی اور معاشی بحران میں ڈوبے معاشرے میں چنگاری کبھی بھی، کہیں سے بھی بھڑک سکتی ہے۔

جن معاشروں میں مقتدرہ بدلتے زمانوں کے ساتھ طاقت کے توازن میں ترمیم کرنے لئے راضی ہو جاتی ہے اور مختلف طبقوں کے بڑھتے ہوئے غصے کو اقتدار میں ساجھے داری کا راستہ دکھاتی ہے، وہ معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ اور جن معاشروں میں مقتدرہ اپنی طاقت کی جکڑ کو ڈھیلا کرنے پر راضی نہیں ہوتی، وہاں انتشار اور باہمی کشمکش بڑھتے بڑھتے نوبت شام اور برما جیسے حالات تک پہنچ جاتی ہے۔ اگلے پانچ سے سات سالوں میں ہمارے جرنیلوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا یہ اپنی قانونی حدود میں رہ کر ریاستی فیصلہ سازی میں عوام کے منتخب نمائندوں کی شراکت کو قبول کریں گے، یا پھر اقتدار کی ہوس میں کھو کر اپنے ساتھ ساتھ پورے ملک کا ناقابل تلافی نقصان کروا بیٹھیں گے۔

منفی سوچ کے لئے معذرت ، لیکن حالات سے لگتا یوں ہے کہ چند سالوں بعد اپنی ہی لگائی آگ سے وجود میں آنے والی راکھ کے ڈھیر پر قابض جرنیل اور ان کے ہم نوا شہری-ملازم یہی صدا لگا رہے ہوں گے کہ 'یہ سب سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے، سب سیاستدان چور ہیں، لوٹ گئے، کھا گئے۔'