جمال خاشقجی کا قتل اور دنیا کا بدلتا منظر نامہ

جمال خاشقجی کا قتل اور دنیا کا بدلتا منظر نامہ
کہتے ہیں کہ سیاست میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور پھر واقعات کی ٹائمنگ اس سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جو ملک یا سیاست دان یا پھر کسی ملک کی سیاسی پارٹی اگر کسی بھی واقعہ کا فائدہ نہیں اٹھا سکتی تو اس پارٹی کے فیصلے دیر پا نہیں ہوتے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ واقعات ایسے ہی نہیں ہو جاتے بلکہ ان کی کوئی نہ کوئی وجہ اور اہمیت ہوتی ہے۔ جو ملک یا شخص کسی بھی واقعہ کو اپنے فائدے کے لئے استعمال نہیں کرتا شاید قسمت پھر اس طرح کا موقعہ فراہم نہیں کرتی۔ کچھ واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جاتے ہیں مگر دکھائی ایسے دیتا ہے کہ جیسے بس ایک حادثے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

پاکستان کی غلطی جس کو بھارت نے 1971 میں بہترین انداز میں استعمال کیا

واقعات کی اہمیت کا اندازہ 1971 کی جنگ سے پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ بھی ہے جس کا بھارت نے بہت مہارت کے ساتھ استعمال کیا۔ 1971 میں بھارت کے ایک طیارے کو ہائی جیک کر کے لاہور لا کر آگ لگا دی گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کہا تھا کہ یہ کشمیری مجاہدین نے کیا اوریہ بھی کہا کہ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر کچھ عرصے بعد اعلان کیا گیا کہ یہ بھارت کی طرف سے طے شدہ پلان تھا اور پاکستان اس پلان میں بری طرح پھنس گیا جب بھارت نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کا مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوائی رابطہ منقطع کر دیا اور اپنی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بنگلہ دیش بننے کی وجوہات میں عبدالستار نے اپنی کتاب فارن پالیسی میں بیان کیا ہے۔



ترکی کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی حکومت نے قتل کروایا

کچھ دن قبل ترکی میں ایک سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کا قتل ترکی میں سعودی سفارتخانہ کے اندر کیا گیا۔ سعودی عرب نے پہلے تو ماننے سے انکار کر دیا مگر بعد میں اس بات کو تسلیم کر لیا کہ جمال کو قتل کیا گیا ہے۔ اس قتل کے بعد ترکی کی حکومت نے سعودی حکومت پر الزام لگایا کہ انہوں نے سفارتخانے میں جمال کو بلا کر قتل کروایا حالانکہ محمد بن سلمان کہہ چکے تھے کہ سعودی حکومت کا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر ترکی مسلسل سعودی حکومت کے ملوث ہونے کے ثبوت کی بات کر رہا ہے۔ چند دن پہلے ترکی حکومت نے کچھ انٹرویوز پانچ ممالک کے ساتھ شیئر بھی کیے ہیں۔

کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا سعودی حکومت نے پہلے کسی شخص کو قتل نہیں کیا یا کروایا؟ کیا دنیا میں اور کسی بھی جگہ صحافی اس طرح قتل نہیں کیے جاتے؟ پھر اس قتل کو بنیاد بنا کر ترکی کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے؟

ترکی اس قتل سے دو فائدے اٹھانا چاہ رہا ہے۔ ایک یہ کہ وہ سعودی حکومت کو دباؤ میں لا سکے تاکہ وہ شام مین جاری جنگ مین اپنی امداد ختم کروائے اور شام کو مزید قتل و غارت سے بچایا جا سکے۔ اس جنگ سے ترکی خود بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ترکی اب اس جنگ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس لئے ترکی سعودی حکومت کو جمال خاشقجی کے قتل کو بنیاد بنا کر سعودی حکومت سے بدلے میں شام کی جنگ روکنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=8vqLh9MP4_g&t=3s

ترکی جمال خاشقجی کے قتل سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟

دوسرا فائدہ جو کہ جمال کے قتل سے اٹھانا چاہ رہا ہے وہ ہے مسلم ممالک میں اور پوری دنیا میں اس بات کا یقین دلانا کہ ترکی انسانی حقوق کا بہت خیال رکھتا ہے اور ترکی اپنے آپ کو مسلم دنیا میں ایک لیڈر کے طور پر دنیا کو ثابت کرنے کی کو شش میں ہے کہ ترکی کا کچھ عرصہ سے جس طرح کا کردار رہا ہے چاہے مشرقِ وسطیٰ ہو یا دنیا بھر میں وہ اپنے آپ کو یورپ کے سامنے ایک طاقت کے طور پر کھڑا ہونا چاہتا ہے تاکہ جو فائدہ سعودی عرب اٹھانا چاہ رہا ہے وہ اب ترکی اٹھائے اور مسلم دنیا تمام معماملات کے لئے ترکی کی طرف دیکھے۔ جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی شاید کسی اور ملک نے کی ہوگی مگر ابھی تک اس قتل کو بھر پور طریقے سے ترکی نے استعمال کیا ہے۔ پانچ ممالک کے ساتھ ثبوت کو شیئر کرنا بھی اسی کھیل کا حصہ ہے جس میں سعودی عرب کو دنیا کے سامنے ایک ولن بنا کر پیش کرنا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور سفارتکاری کے معاملات کی بالکل پرواہ نہیں کرتا۔ یہ ایک نئے کھیل کا آغاز دکھائی دیتا ہے جس میں سعودی عرب اور امریکہ کے بجائے ترکی اور روس پوری دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعوے دار ہوں گے۔

روس اور چین بظاہر اتنے بڑے معاملے میں چپ دکھائی دیتے ہیں مگر ان کی طرف سے ترکی بہت اچھے انداز میں اس قتل کی وجہ سے محمد بن سلمان، جو کہ مسلم دنیا میں ایک لیڈر کے طور پر ابھر رہے تھے، کو دھچکا پہنچا رہا ہے، اور یہی کچھ شاید طیب اردوان بھی چاہتے ہیں۔

مصنف کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کر چکے ہیں۔ زیادہ تر سماجی معاملات اور قومی و بین الاقوامی سیاست پر قلم اٹھاتے ہیں۔