نوجوان نسل اور پاکستانی مڈل کلاس عمران خان کی اصل طاقت ہیں

نوجوان نسل اور پاکستانی مڈل کلاس عمران خان کی اصل طاقت ہیں
پاکستان میں آج کل سیاست کے موضوع پر لکھنا خاصا دشوار اور پر خطر معاملہ بن چکا ہے۔ آپ کسی سیاسی پارٹی پہ لکھ رہے ہوں یا کسی پارٹی کے سربراہ یا اس کی پالیسی کے بارے میں تو لکھتے ہوئے ان سپورٹرز کا خیال ذہن سے گزرتا ہے جو آپ سے غیر جانبداری کی نہ تو توقع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کو برداشت کرتے ہیں۔ یہ معاملہ سب سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کے ساتھ ہے۔ وہ آپ سے مکمل طرف داری کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر آپ ان کے شر سے بچ نہیں سکتے۔ حالانکہ سیاست جس کو ناممکن کا آرٹ کہتے ہیں اس سے وابستہ افراد میں اتنی وسعت قلبی ضرور ہونی چاہئیے کہ کسی بھی بولنے اور لکھنے والے کو جج کرنے سے پہلے اس کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی تھوڑی زحمت کر لیں مگر ایسا پاکستان میں آج کل ممکن نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں؛ ایک یہ کہ کسی کے زاویے کو سمجھنا ایک تکلیف دہ عمل ہے اس لیے جج کرنا آسان ہوتا ہے اور دوسرا یہ infotainment کا دور ہے، ہر شخص انفارمیشن کے ساتھ کھیل رہا ہے اور اس کے پاس جانکاری کی بہتات ہے۔ اس لئے اس کے پاس بنے بنائے دلائل ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر خود کو کسی تکلیف میں ڈالے بغیر آسانی سے جج کر لیتا ہے۔ یہ حقیقت تھوڑی تلخ ہے مگر سچ ہے کہ اس معاملے میں ایک سیاسی پارٹی کے کارکن کچھ زیادہ جذباتی اور جلد باز پائے گئے ہیں۔ آپ کی وجہ سے ایک پتا بھی ہلتا ہے تو وہ آپ کو زیرِعتاب لے آئیں گے۔

آج کے کالم میں ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جنون اور جذبات کے نکتہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایسے کون سے محرکات ہیں جن کی وجہ سے وہ اس سیاسی کیفیت سے دو چار ہیں جہاں پر وہ اپنے لیڈر اور ان کی پالیسی کے بارے میں کچھ بھی سننا برداشت نہیں کرتے ہیں۔ جیسے ہی آپ نے یہ خطرہ مول لینے کی کوشش کی تو آپ کے نقصان کی صورت میں کوئی کپمنی بھی ذمہ دار نہیں ہو گی۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے حامیوں کی زیادہ تر تعداد دو طبقات پر مشتمل ہے؛ ایک نوجوان طبقہ اور دوسرا مڈل کلاس طبقہ۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ دوسرے طبقوں کے لوگ اس جنون میں شامل نہیں ہیں۔ بلاشبہ تحریک انصاف کسی دور کی پیپلزپارٹی کی طرح ہر طبقے اور ہر علاقے میں بلا تفریق پائی جاتی ہے مگر یہاں پر ہمارا فوکس صرف دو طبقے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل گلوبلائزیشن کے دور میں پروان چڑھ رہی ہے جس دور میں معلومات اور ایکسپوژر کی بہتات ہے۔ عالمگریت کا یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کی ترقی اور اقوام عالم کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ اس صورت میں جب نوجوان نسل گلوبل ورلڈ کے ساتھ اپنے ملک کے معاشرتی اور اقتصادی حالات کا موازنہ کرتے ہیں تو وہ اس شدید فرق پر بے ساختہ چیخ اٹھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کہیں کوئی بڑا ظلم ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کے محبوب ملک کی آج یہ حالت ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ان کو سیاست دانوں، تاجروں، جاگیر داروں، ملاؤں اور جرنیلوں کا ایک گٹھ جوڑ نظر آتا ہے جس کو اس ملک کے بجائے اپنے اپنے مفادات کی فکر ہے اور یہ سٹیٹس کو ایک خاص میکنزم کے تحت ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ ان حالات میں ردعمل کے طور پر وہ اپنے قریبی اور بھروسے مند شخص سے امیدیں باندھنے کی کوشش کرتے ہیں بالکل اس امر بیل کی طرح جو اپنی بقا اور نشوونما کے لئے سب سے قریبی درخت پر چڑھ جاتی ہے۔

پاکستانی نوجوان نسل ہمیشہ ایسی سیاسی لیڈرشپ کی تلاش میں تھی جو اس استحصالی، ظالمانہ، غربت زدہ سماج اور نظام کی مادی بنیادیں گرا کر اس کی تعمیر نو کی بات کرے۔ نوجوان نسل کو ایسی کرشماتی شخصیت عمران خان میں نظر آئی جو فرسودہ نظام کو تازہ بنیادوں پر استوار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا نوجوان Now or Never کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کو یہ لگتا ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہو گیا تو پھر سے وہی پرانا سٹیٹس کو عوام پر مسلط ہو جائے گا جس نے ملک اور قوم کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔ اس لئے نوجوان نسل نے ایک لکیر کھینچ دی ہے جو عمران خان کے ساتھ ہے وہ پاکستان کے ساتھ ہے اور جو ان کے خلاف ہے وہ پاکستان کا دوست اور وفادار نہیں ہو سکتا۔

عمران خان کا حامی دوسرا بڑا طبقہ مڈل کلاس کا ہے۔ پاکستان کا معاشرتی نظام ذات، برادری، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر طبقے کا ایک اپنا پریشر گروپ ہے۔ اس نظام میں ہر طبقے کا ایجنٹ دوسرے ایجنٹ کو فائدہ پہنچاتا ہے اور یہ سب اجتماعی طور پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر وہ شخص محفوظ سمجھا جاتا ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی ایسے طبقے یا پریشر گروپ کے ساتھ ہے، نہیں تو آپ بہت کمزور اور غیر محفوظ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ریاست اور اس کے ادارے قانون کو یکساں طور پر لاگو کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ پریشر گروپس اور مضبوط طبقوں سے منسلک افراد کو قانون اور ریاست کی پالیسیوں سے کوئی زیادہ فرق بھی نہیں پڑتا۔ اس نظام میں ایک سوشل کلاس ایسی بھی ہے جس کے اقتصادی، افرادی اور سکیورٹی کے معاملات ریاست کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اگر ریاست اور قانون ان کی حفاظت کا ذمہ نہ لے تو پھر یہ انہی استحصالی پریشر گروپس کے ہاتھوں زخم کھاتے رہتے ہیں۔ افسوس اور حیرانگی کا امر تو یہ ہے کہ ریاست اور سیاست کے معاملات بھی اسی اجارہ دار طبقے کے پاس ہیں جو ان کی طاقت میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے مڈل کلاس کا طبقہ خود کو اور زیادہ محروم اور پہلے سے زیادہ غیر محفوظ سمجھتا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس کا کوئی آدمی جب اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر کوئی معاشرتی اور مادی حیثیت حاصل کر لیتا ہے تو اس کو اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد میں سے زیادہ تر لوگ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں میں عمران خان سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر عمران خان کو ناکام ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے عمران خان جب بھی کبھی چندے یا سیاسی فنڈ کی اپیل کرتے ہیں تو یہ پاکستانی اپنی امداد سے سب کو حیران کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مغربی ملک میں بسنے والے شخص سے بات ہو رہی تھی اس کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کہے تو وہ اپنے کروڑوں روپے پاکستان لانے کو تیار ہیں۔ مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کو ڈر ہے کہ کہیں عمران خان استحصالی طبقے کے ساتھ سودے بازی کر کے مڈل کلاس کی امیدوں پہ پانی نہ پھیر دے۔

پاکستان میں کم و بیش پچھلے پچاس سال میں دو ہی بڑی پارٹیاں حکومت کر رہی ہیں جس میں ایک پارٹی تاجروں کی تو دوسری جاگیرداروں کی آماج گاہ بن چکی ہے۔ جس طرح پریشر گروپس اور سماجی طبقات ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح یہ دونوں پارٹیاں بھی ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتی نظر آتی ہیں۔ ان حالات میں مڈل کلاس کے پاس اس جمود کو توڑنے کے لئے عمران خان کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ عمران خان کو اپنی تمام محرومیوں، دکھوں اور زخموں کا مسیحا سمجھتے ہیں۔ نوجوان نسل کی طرح ان کو بھی ایسا لگتا ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہو گیا تو وہ پھر سے اسی سفاک نظام کے ایجنٹوں کے ہاتھوں پستے رہیں گے۔ پاکستان میں مڈل کلاس جو کسی پریشر گروپ کا حصہ نہیں ہے وہ طاقت اور حکومت میں حصہ دار نہیں ہے۔ اس محرومی کے ازالے کے لئے ان کے پاس صرف ووٹ کی طاقت ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی پسند کے لیڈر کو اقتدار میں دیکھ کر خود کو تسلی دے سکتے ہیں۔

جنون اور جوش سے بھرپور عمران خان کے یہ حمایتی کوئی دلیل یا منطق سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے عمران خان کو سوچا نہیں ہے بلکہ مانا ہے۔ وہ عمران خان کی ہر غلطی اور جرم کو معاف کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان پہ کوئی بھی الزام لگتا ہے تو وہ 'کم برائی' والے ںظریے کو بنیاد بنا کر اپنے مؤقف سے نہیں ہٹتے۔ کل رات کو ایک ایسے ہی جنونی سے عمران خان کے توشہ خانہ سے 28 کروڑ کی گھڑی بیچنے کے حوالے سے بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ اتنے پیسے تو پاکستان کے بیوروکریٹس اور سرکاری افسروں کے لیے عام سی بات ہے۔ اور سیاسی لوگوں کا معاملہ تو ویسے ہی الگ ہے ان کی تو بات ہی اربوں سے شروع ہوتی ہے۔ اس بات پہ تو پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر عبدالقیوم جتوئی یاد آ رہے ہیں جنہوں نے 2010 میں ایک بیان دیا تھا کہ کرپشن پر سب کا برابر کا حق ہے۔

ذاتی طور پر عمران خان کے طرز سیاست پر اور ان کے طرز حکمرانی پر کافی اعتراضات ہیں۔ اس پر ان کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ مگر اس حقیقت کو چھپانے سے پر جلتے نظر آتے ہیں کہ نوجوان نسل اور مڈل کلاس پر عمران خان اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ چکے ہیں۔ یہ ملک اور قوم کے مفاد کے لئے کتنا بہتر ہے اور اس جنون میں کس طرح تخفیف کر کے اس کو پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے یہ ایک الگ بات ہے۔ مگر یہ مکتبہ فکر اپنی پوری طاقت، اجتماعیت اور عالمگیریت کے ساتھ عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہے۔ محسن نقوی نے کہا تھا:

؎ رکے گی شرم سے کہاں یہ خال و خد کی روشنی
چھپے گا آفتاب کیا ہتھیلیوں کی اوٹ میں

عمران خان کے ان حامیوں سے جان کی امان پا کر ایک استدعا ہے کہ اپنے لیڈر کو کچھ احتساب کا بھی قائل بنائیں تا کہ وہ ملکی سلامتی اور آپ عوام کی بہتری کے لئے پہلے سوچیں اور پھر کوئی اقدام اٹھائیں۔ اس سے عمران خان بھی مضبوط ہوں گے، ملک بھی بہتری کی طرف جائے گا اور وہ افراد بھی خوشحال ہوں گے جن کی ان سے بے پناہ امیدیں وابستہ ہیں۔ اگر لیڈر نوشیرواں عادل بھی ہو تو اس کے بولتے وقت اور فیصلہ لیتے وقت عوام کو جواب دینے کا خیال رہنا چاہئیے ورنہ جمہوریت پاپولزم اور فاشزم میں اور ترقی استحصال میں بدل جاتی ہے۔ عمران خان اور ان کے حامیوں کو ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ سٹیٹس کو اور چلتے نظام کو ختم کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے مگر نظام کو نئی بنیادوں پر استوار کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ وہ اپنے دور حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔