Get Alerts

وہاڑی میں صحافیوں کی جانب سے آر ٹی آئی کا استعمال اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات

سابق چیف انفارمیشن کمشنر  پنجاب انفارمیشن کمیشن  زاہد عبداللہ بتاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کا قانون ایک صحافی کو شفافیت اور کرپشن کے حوالے سے تصدیق شدہ معلومات فراہم کرتا ہے اور اسے اپنے 'ذرائع ' کی مدد سے ملنے والی معلومات کنفرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ صحافیوں کو آر ٹی آئی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے اپنی رپورٹنگ کو مزید مستند کرنا چاہیے اور اگر ادارے کوئی رکاوٹ پیدا کریں تو انفارمیشن کمیشن ان کی ہر ممکن مدد کے لیے موجود ہے۔

وہاڑی میں صحافیوں کی جانب سے آر ٹی آئی کا استعمال اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس پی ایف یو جے کے ضلعی صدر محمد عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ انہیں شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے 7 سال ہو چکے ہیں اس دوران انہوں نے معلومات تک رسائی کا آئینی حق 54 بار استعمال کیاہے۔ اس دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ادارے کے ذمہ دار افسران اس قانون کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے معلومات تک رسائی میں مشکلات پیش آتی ہیں اکثر افسران یہ سمجھتے ہیں کہ آر ٹی آئی کے تحت مصدقہ معلومات فراہم کرنے سے شاید ان کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خبر کے متعلق معلومات جو آر ٹی آئی کے تحت لی جاتی ہیں وہ متعلقہ افسران کی جانب سے تاخیر برتنے کی وجہ سے بے وقت بے سود رہتی ہے۔ وہاڑی میں کسی بھی محکمہ کے سربراہان کی جانب سے پبلک انفارمیشن آفیسرز تعینات نہیں کیے گئے اور خود افسران اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے آر ٹی آئی کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ ماضی میں متعدد بار انفارمیشن کمیشن کے ذریعے ان کی سرزنش بھی ہوئی ہے۔ 

عرفان کے مطابق سرکاری اداروں میں ذمہ دار افسران اس لیے بھی آر ٹی آئی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ ضلع بھر کے سینکڑوں صحافیوں میں سے گنتی کے چند ایک صحافی معلومات تک رسائی کے لیے آر ٹی آئی کا استعمال کرتے ہیں ان میں سے بھی متعدد مقامی صحافی آر ٹی آئی کے مکمل طریقہ کار سے لا علم ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے معاشرہ کے لیے انتہائی مفید آئینی حق کے موثر استعمال کے حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ضلع وہاڑی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ممبران کی تعداد 327 ہے جن میں سے صرف 14 صحافیوں نے اب تک اس قانون کو استعمال کیا ہے جبکہ صرف 5 صحافی آر ٹی آئی کے بارے خاطر خواہ آگاہی رکھتے ہیں کہ درخواست دینے کے بعد کمیشن میں اپیل کیسے کی جاتی ہے۔

وہاڑی سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد سلیم (فرضی نام) کو شعبہ صحافت میں 9 1سال ہو چکے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ آر ٹی آئی کے بارے میں وہ کیا جانتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ آر ٹی  آئی کیا ہوتی ہے مزید بات چیت پر انہوں نے بتایا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے حوالے سے وہ آج کے دن تک لاعلم تھے اسی وجہ سے کبھی اس کا استعمال بھی نہیں کیا لیکن آئندہ انہوں نے آر ٹی آئی کے استعمال کا عزم کیا۔

کسی بھی سرکاری نیم سرکاری ادارے سے مختلف قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 19اے کے تحت، آر ٹی آئی  پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی کا حق استعمال کر سکے جو کہ قانون کے ذریعہ عائد کردہ ضابطے اور معقول پابندی کے تابع ہے۔ ایک شہری سرکاری محکمے کے علاوہ کسی نجی ادارے کی معلومات تک بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے جسے حکومت کی طرف سے کافی حد تک مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ آر ٹی آئی اس اصول پر مبنی ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے شہری عوامی معلومات کے مالک ہوتے ہیں۔ آر ٹی آئی شفافیت، جوابدہی، بدعنوانی کے خاتمے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری کو فروغ دیتا ہے۔اس کا اطلاق حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام ڈپارٹمنٹس، وزارتوں، ڈویژنز، اتھارٹیزاور باڈیز پر ہوتا ہے۔

نجی چینل کے رپورٹر رانا نعیم خالد کا کہنا ہے کہ چھوٹے شہروں کے صحافیوں میں اس قدر پروفیشنلزم نہیں ہوتا جتنا کسی بڑے شہر کے سٹاف رپورٹر میں ہوتا ہے۔ وہاڑی جیسے شہر میں بڑے چینل اپنا سورس رپورٹر 2 مقاصد کے تحت اعزازی طور پر تعینات کرتے ہیں ایک تو وہ شخص جو مالی طور پر مستحکم ہو کیونکہ ان کی سکیورٹی فیس لاکھوں میں ہوتی ہے جو رپورٹر ادا کرتا ہے دوسرا وہ تھوڑا بہت رپورٹنگ کی مہارت رکھتا ہو۔ باقاعدہ پروفیشنل کی نہ تو ادارے کو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی مقامی سطح پر صحافیوں کو  تنخواہ دی جاتی ہے اس لیے باقاعدہ پروفیشنل صحافی چند ایک ہی ہوتے ہیں جو اپنی تعلیم کے لحاظ سے کیرئیر کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں اس لیے آر ٹی آئی فائل کرنے کا اس قدر رجحان نہیں پایا جاتا۔ 

ضلعی پولیس کے ترجمان عدنان طارق کی رائے بھی ایسی ہی ہے وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ 2 سال میں کل 8 آر ٹی آئی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو راقم الحروف نے ہی فیلو شپ کے دوران بھیجی ہیں اس کے علاوہ ضلعی پولیس سے کسی نے معلومات تک رسائی کی درخواست نہیں دی۔

سنٹر فار لا اینڈ ڈیموکریسی کے مطابق بین الاقوامی رینکنگ میں پاکستان 29 ویں نمبر پر ہے جبکہ ہمسایہ ملک کا آٹھواں نمبر ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس رینکنگ میں پہلے نمبر پر افغانستان ہے اور سب سے آخر میں پالاو نامی ملک ہے۔

ستمبر 28 ، 2021 میں پارلیمنٹیرینز کمیشن فار ہیومن رائٹس، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس اور نیشنل پریس کلب کے اشتراک سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف اینکر حامد میر کا کہنا تھا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت معلومات تک رسائی کا حق ہر شہری اور صحافی کو ملک پاکستان کا آئین دیتا ہے لیکن ادارے تاحال اس بات کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کا بیان تھا کہ سینیٹ میں آر ٹی آئی بھیجی گئی کہ جینٹوریل سٹاف اور ان کی تنخواہوں کی تفصیل فراہم کی جائے لیکن انکار کر دیا گیا۔اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو فائل کی گئی آر ٹی آئی میں پوچھا گیا کہ رواں سال آنے والے کیسز کی تعداد فراہم کی جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ کتنے کیسز نمٹائے گئے لیکن ادھر سے بھی انکار ہی ہوا۔ سول ایسوسی ایشن اتھارٹی کو فائل کی گئی آر ٹی آئی میں پوچھا گیا تھا کہ سینٹری ورکرز کی تفصیل فراہم کر دیں لیکن یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ یہ سکیورٹی ایجنسی ہے۔

جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان سے تعلق رکھنے والی تحقیقاتی صحافی انیلہ اشرف گزشتہ 19 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں وہ بتاتی ہیں کہ 2010 سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو پریکٹس کر رہی ہیں سب سے پہلے سماجی تنظیم سوسائٹی فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو نے اس حوالے سے ٹریننگ کا اہتمام کیا جس کا وہ حصہ تھیں اور خاص طور پر 2015 میں اس کا استعمال زیادہ ہو گیا تھا کیونکہ سرکاری اداروں میں کچھ افسران کو بھی اس بارے آگاہی ہو گئی تھی لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ خطے میں رہتے  ہیں اور یہاں کے بیوروکریٹ شاہی طبیعت رکھتے ہیں اور خود کو اداروں کا مالک سمجھتے ہیں اس لیے ان کا خیال ہے کہ کسی کو اس قانون کے تحت معلومات دیں نہ دیں یہ ان کی صوابدید ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ 2017 میں ملتان کے مختلف محکموں کو 4 آر ٹی آئی فائل کی گئیں۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ملتان نادر چٹھہ نے درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا ۔ اتفاق سے چند دن بعد معلومات تک رسائی کے موضوع پر ایک سماجی تنظیم کی جانب سے آر ٹی آئی کے بارے میں  آگاہی سیشن رکھا گیا جس میں نادر چٹھہ بھی مدعو تھے وہاں ان سے سوالات کیے گئے کہ آر ٹی آئی کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ بات چیت کے دوران اس قانون کی ایک کاپی ان کے  ہاتھ میں موجود تھی جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس قانون کو نہیں مانتے اور نہ ہی کوئی معلومات دیں گے۔ جس پر ان کو قانون کی شقوں کے بارے میں بتایا کہ اگر آپ نے معلومات فراہم نہ کیں تو آپ کی تنخواہ میں کٹوتی ہو سکتی ہے یا پھر ملازمت سے فارغ بھی ہو سکتے ہیں۔ جس پر ان کا جواب تھا کہ تنخواہ میں کٹوتی ہو یا ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں، وہ معلومات فراہم نہیں کریں گے۔ یہ حال ہے ہمارے افسر ان شاہی کا ۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ جنوبی پنجاب کی مختلف یونیورسٹیوں کو حال ہی میں انہوں نے ہراسمنٹ کمیٹیوں اور ڈیٹا کے حوالے سے درخواستیں دی ہیں لیکن مقررہ وقت کے بعد اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔

انیلہ نے ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کیا کہ بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ادارے ڈیٹا فراہم کر دیتے ہیں لیکن قومی و مقامی صحافیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے انہوں نے کچھ معلومات کی غرض سے آر ٹی آئی فائل کی لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملا اور وہی معلومات ان کی ایک دوست کو فراہم کر دی گئیں جو بین الاقوامی ویب سائیٹ سے منسلک ہیں۔ 

وہ بتاتی ہیں کہ سرکاری اداروں میں موجود افسران کی مناسب ٹریننگ کی ضرورت ہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس قانون پر عمل درآمد میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری ادارہ کوئی بھی ہو آر ٹی آئی کے تحت معلومات فراہم کرنے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ کے لیے دیگر غیر مصدقہ ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان لٹکتی تلوار کے مانند ہے۔

سول سوسائٹی کے رہنما میاں جہانزیب یوسف کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن کرپشن اور ذمہ داریوں سے تجازور بیوروکریسی میں عام ہے جس کی وجہ سے معلومات فراہمی میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ریاست سنجیدہ ہے تو اس قانون کے حوالے سے اپیلوں پر فوری فیصلے اور افسران کے ساتھ ساتھ عوام اور میڈیا میں بھی آگاہی کے لیے بروقت اور جامع اقدامات کرنے چاہیئیں تاکہ عام آدمی اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ وہاڑی سید ماجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ انہیں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے پبلک انفارمیشن آفیسر تعینات کیا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں میں آر ٹی آئی کے استعمال کا کچھ خاص رجحان نہیں ہے اس کی بڑی وجہ چھوٹے اضلاع میں میڈیا نمائندگان کو آگاہی نہ ہونا یا کم آگاہی ہے یہی وجہ ہے کہ   آر ٹی آئی کے تحت معلومات تک رسائی کے لیے آنے والی درخواستیں نا ہونے کے برابر ہیں اور جو چند درخواستیں آتی ہیں اس حوالے سے وہ تعاون کرتے ہیں لیکن معلومات کی فراہمی مکمل طور پر ان کے اختیار میں نہیں بلکہ متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران ہی معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

ڈائریکٹر تعلقات عامہ ملتان سجاد جہانیاں کا کہنا ہے کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے بارے انہیں صحافیوں کو معلومات فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ہیں بلکہ صحافی براہ راست ادارے سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔

سابق چیف انفارمیشن کمشنر  پنجاب انفارمیشن کمیشن  زاہد عبداللہ بتاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کا قانون ایک صحافی کو شفافیت اور کرپشن کے حوالے سے تصدیق شدہ معلومات فراہم کرتا ہے اور اسے اپنے 'ذرائع ' کی مدد سے ملنے والی معلومات کنفرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ صحافیوں کو آر ٹی آئی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے اپنی رپورٹنگ کو مزید مستند کرنا چاہیے اور اگر ادارے کوئی رکاوٹ پیدا کریں تو انفارمیشن کمیشن ان کی ہر ممکن مدد کے لیے موجود ہے۔

سنٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ سی پی ڈی آئی پنجاب کے منیجر محمد فیصل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جہاں تک آگاہی کی بات ہے تو کافی حد تک صحافیوں میں آگئی ہے کیونکہ سماجی تنظیموں اور انفارمیشن کمیشن کی طرف سے مختلف اضلاع میں ٹریننگز اور آگاہی سیشنز کروائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک شہروں ملتان، فیصل آباد اور لاہور میں آر ٹی آئی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ جو صحافیوں کو درپیش ہے وہ اداروں کی طرف سے رسپانس نہ ہونا ہے ۔

وہ بتاتے ہیں کہ 2 سال قبل تک صحافیوں کی شکایات پر اداروں کے افسران کو نوٹسز بھجوائے جاتے تھے جن پر ان کی جواب طلبی بھی ہوتی تھی اور شکایات کا ازالہ معلومات کی فراہمی کی صورت میں کیا جاتا تھا لیکن پھر کمیشن کی جانب سے نوٹسز جانا کم ہو گئے اور پھر میسجز کا سلسلہ شروع ہو گیا اور صورت حال اس قدر ابتر ہوگئی کہ شکایت دہندہ کو بتائے بغیر درخواست داخل دفتر کردی جاتی ہے اور اس پر باقاعدہ لکھا ہوتا ہے کہ مطلوبہ معلومات فراہم کر دی گئیں ہیں حالانکہ حقیقت میں شکایت دہندہ لاعلم ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ افسران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں اداروں کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہرکسی کے علم میں ہے اس لیے افسران معلومات دینے سے کتراتے ہیں اور کمیشن بھی خاموشی اختیار کرتا ہے اس کے علاوہ پبلک انفارمیشن آفیسر اس ذمہ داری کو اضافی بوجھ سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں ۔یہ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے صحافیوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور وہ مایوس ہو کر درخواست دینا چھوڑ کر دیگر ذرائع کی تلاش میں مصروف ہو گئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کمیشن کو دوبارہ موثر بنائے اور چند ایک افسران کو میرٹ پر سزائیں دے کر مثال بنایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دیگر متعدد قوانین کی طرح یہ بھی محض نام کا قانون رہ جائے گا۔ 

پروگرام منیجر سدھار سوسائٹی لاہور محسن ریاض رندھاوا کا کہنا ہے کہ 2013 سے اب اس قانون کے حوالے سے افسران نے ہمیشہ بیوروکریٹک سٹائل اپنایا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ لوگ درخواستیں دیتے ہیں لیکن ادارے کوئی رسپانس نہیں دیتے اور انفارمیشن کمیشن کو شکایت کا ازالہ نہیں ہوتا۔یہ قانون اچھا ہے لیکن اداروں کی روایتی سوچ اور جزا و سزا کا عمل نہ ہونے سے اپنی افادیت کھو رہا ہے اور صحافی دوبارہ روایتی طریقہ سے معلومات کے حصول پر مجبور ہیں۔