میرے پیارے بیٹے بلاول!
امید ہے آپ خیریت و عافیت سے ہوں گے۔ لیکن میں اور سندھ اس وقت نہ ہی کسی خیر کی توقع میں ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی عافیت کی امید ہے۔
بیٹے میں یہ خط آپ کو ناصرف رنج و الم کی کربناک کیفیت کے مابین لکھ رہی ہوں، بلکہ میرا یہ خط میری ان سسکیوں اور اشکوں کا پروانہ ہے، جو میں نہ کسی کو کہہ سکی اور نہ کوئی سن سکا۔ یہ خط اس جماعت کے جنازے کے بہت دیر بعد لکھے گئے میرے تاثرات ہیں، جس کے نظریے کے لئے نہ صرف مجھے بلکہ ہمارے خاندان کے کئی ارکان کو اپنی جانوں کا نذرانہ دان کرنا پڑا۔
میرے پیارے بیٹے، کل میری یہاں بلاول سے ملاقات ہوئی۔ وہ بلاول نہیں جس کی حکمرانی تلے جمہوریت کو سر بازار رسوا کیا گیا، اس جمہوریت کو جس کے لئے میں جان قربان کرنے سے پیچھے نہ ہٹی۔ بلکہ اس بلاول سے ملاقات ہوئی جس کے نام کی میراث میں تجھے سونپ آئی تھی۔ باغبان کے مخدوم بلاول انتہائی رنجیدہ ہیں، اس کی آنکھیں اشکبار ہیں۔ کہتے ہیں وہ جس حق کی صدا بلند کرتے چکی میں پستا رہا، اس حق کے پیروکار آج بھی تیرے نام پہ حاصل کردہ اقتدار کی چکی میں پس ہی رہے ہیں۔ میں اس سے پوری ملاقات کے دوران آنکھیں چراتی رہی، نظریں ملانے کی ہمت نہیں باندھ پائی۔ شاہ بیگ کا رقص، ضیاء الحق کے قہقہے اور مخدوم بلاول کے اشک اور دکھ میں گھری آواز ہر لمحے میرے سینے کو زخموں سے چیر کرتی رہتی ہے۔
بیٹے میں سمجھ سکتی ہوں، اقتدار کی مصلحتیں آئندہ کی دانائی کو دھندلا دیتی ہیں۔ لیکن، یہ ڈگر دماغ کے ساتھ ساتھ دل کے دریچے بھی کھول کر رکھنے کی متقاضی ہے۔
بلاول بیٹے، وقت کی فطرت میں ٹھہراؤ ہرگز نہیں۔ وقت کی اچھی بات یہ ہے کہ کٹھن اور مشکل وقت ٹھہرتا نہیں گزر جاتا ہے۔ لیکن بری بات یہ ہے کہ صدا اچھا وقت بھی نہیں رہتا۔ اقتدار کا سورج جلد یا دیر ڈھل ہی جانا ہے۔ لیکن جو یاد رکھا جائے گا وہ دوران حکومت رواں رکھا گیا تمہارا طرز عمل ہوگا۔
بلاول بیٹے، میں نے تمہاری یہ تو تربیت ہرگز نہ کی تھی کہ تمہارے اقتدار کے تمکنت تلے نہتے اور پرامن مرد، عورتیں اور بزرگ یوں سڑکوں پر گھسیٹے جائیں، عزتیں پامال کی جائیں، لوگوں سے ان کے جمہوری حقوق چھینے جائیں اور تم اُف تک نہ کہو۔
کراچی میں جس طرح امن کے متلاشی لوگوں کے ساتھ تمہاری حکومت نے برتاؤ کیا وہ صرف نہایت افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی تھا۔ اب میں یہاں عالم بالا میں سر اونچا کر کے کس حق سے چلوں؟
بیٹے آج ہی میرا ضیاء الحق سے سامنے ہوا، وہ اپنے نظریے کی فتح کی خوشی سے سرشار ہے۔ لیکن میرے بیٹے، مارٹن لوتھر نے تاریخ میں بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ فرصت کے لمحوں میں اس کے بارے میں ضرور معلومات لینا۔ اس نے اپنے کسی ایک خطاب میں کہا تھا، کسی بھی شخص کی اصل پہچان اس سے نہیں ہوتی کہ وہ آسان اور سہل وقت میں کہاں کھڑا تھا، بلکہ اس سے ہوتی ہے کہ اس نے مشکل اور کٹھن وقت میں کیا کیا۔ تاریخ میں تمہاری میراث تمہارے ان اقدام کی بنا پر جانی جائے گی۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ تاریخ میں اپنی کیا میراث چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
میں یہ مختصر سا خط اسی التجا کے ساتھ اختتام کر رہی ہوں کہ میری جانب سے بصد احترام اور انتہائی ندامت سے ان ادیبوں، شاعروں اور عورتوں سے معافی کی درخواست کرنا۔
تمہاری امی، بینظیر بھٹو