1973 کے آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی غیر معمولی خواتین

1973 کے آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی غیر معمولی خواتین
1973 کے پائیدار آئین پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر میں نے آئین تشکیل دینے والی قومی اسمبلی میں شامل 6 خواتین آئین سازوں کے کردار پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی اہم خدمات کی یاد تازہ کی ہے۔

جنرل یحییٰ خان کی مارشل لاء حکومت نے سال کے آخر میں ملک میں پہلے عام انتخابات منعقد کروانے کے لئے 1970 کا لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) متعارف کروایا جس میں خواتین کے لئے قومی اسمبلی میں 13 مخصوص نشستیں مختص کی گئیں۔ ان میں سے 7 نشستیں مشرقی پاکستان، 3 پنجاب اور ایک ایک سندھ، سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کے لیے رکھی گئی۔

پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد 1972 میں ان مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی کا حصہ بننے والی 6 آئین ساز خواتین معمولی خواتین نہیں تھیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان خواتین کو قومی سیاسی یادداشت کے حاشیے پر پہنچا دیا گیا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کے جس دور سے تعلق رکھتی تھیں وہ سارا دور سازشی بیانیوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ تاہم اس کی بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان آئین ساز خواتین کی یاد سیاسی تاریخ سے اس لیے محو ہو گئی کیونکہ اسمبلی میں آنے کے لئے ان کا تمام تر انحصار ساتھی مردوں پر تھا۔ ان خواتین میں سے ایک یا دو ہی کے بارے میں لوگ عام طور پر واقف ہیں اور وہ بھی ان خواتین کے سیاسی پس منظر کی وجہ سے، بطور آئین ساز ان کے کردار کو بہت کم سراہا جاتا ہے۔

جیسا کہ میں دستیاب قصوں، سوانح عمریوں، آرکائیوز میں محفوظ مواد اور زبانی بیان کیے جانے والے تاریخی واقعات کو جوڑ کر ان خواتین کی کہانیوں کو پھر سے تخلیق کرنے کے ایک متاثر کن سفر کا آغاز کر رہی ہوں تو میں نے آغاز آئین کی تشکیل میں ان خواتین کی شان دار خدمات سے کیا ہے اور ان خدمات کے لئے مستند ترین تاریخی ذرائع کو بروئے کار لایا گیا ہے یعنی آئین سازی کے دوران ہونے والے بحث مباحثے۔

1973 کے آئین کی تشکیل میں جن 6 خواتین آئین سازوں نے حصہ لیا ان میں سے 4 کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی حکمران اکثریت سے تھا۔ ان میں لاہور سے بیگم نسیم جہاں، لائل پور سے بیگم نرگس نعیم سندھو، رحیم یار خان سے بیگم زاہدہ سلطانہ اور لاڑکانہ سے ڈاکٹر اشرف عباسی شامل ہیں۔ ایک رکن جینیفر جہانزیب قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) سے تھیں جبکہ چھٹی رکن شیریں وہاب کا تعلق صوبہ سرحد کی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم (PMLQ) سے تھا جو مرکز میں حکمران اتحاد کا حصہ تھی۔

بیگم نسیم جہاں نامور مسلم لیگی کارکن بیگم جہاں آرا شاہنواز کی صاحبزادی تھیں


بیگم نسیم جہاں اور ڈاکٹر اشرف عباسی کو نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے قائم کی گئی 25 رکنی آئینی کمیٹی کا حصہ بننے کا اضافی اعزاز بھی حاصل ہوا۔ دونوں خواتین پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی تھیں مگر دونوں کے نظریات زندگی ایک دوسرے سے خاصے مختلف تھے۔ تجربہ کار مسلم لیگی رہنما بیگم جہاں آرا شاہنواز جو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں شامل محض دو خواتین میں سے ایک تھیں، ان کی صاحبزادی ہونے کے ناطے بیگم نسیم جہاں وسیع سیاسی تجربے کی حامل تھیں اور ان کے ذہن میں 'پرولتاریہ' کلاس اور 'اسلامی بین الاقوامیت' کے ذریعے مضبوط 'سوشلسٹ فیڈریشن' قائم کرنے کا واضح نظریاتی ڈھانچہ موجود تھا۔ دوسری جانب ڈاکٹر اشرف عباسی جو لاڑکانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں اور کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی، وہ 1960 کی دہائی کے اوائل میں ذوالفقار علی بھٹو کی ترغیب پر سیاسی میدان میں اتریں اور ایوب خان دور حکومت کے عشرے میں مخصوص نشست پر مغربی پاکستان اسمبلی کا حصہ بنیں۔

ڈاکٹر اشرف عباسی کو ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی


پاکستان پیپلز پارٹی کی دیگر دو نمائندگان نرگس نعیم سندھو اور زاہدہ سلطانہ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ مجھے نہایت خوشی ہوئی جب میں نرگس نعیم سندھو کے قریبی عزیزوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والی مسز سندھو نے 1970 کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک سیاسی جلسے میں اتفاقی طور پر شرکت کی تھی اور اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئی تھیں۔ آگے چل کر وہ ذوالفقار علی بھٹو کی قریبی ساتھی بنیں اور لائل پور کے صنعتی مرکز کی مزدور سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

بیگم نرگس نعیم سندھو اتفاقی طور پر سیاست میں آئی تھیں مگر بہت جلد ذوالفقار بھٹو کی قریبی ساتھی بن گئی تھیں


بیگم زاہدہ سلطانہ کا تعلق رحیم یار خان کے ایک سیاسی خاندان سے تھا اور انہوں نے معاشیات کے مضمون میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تحقیق اور صحافت کے میدانوں میں تجربہ رکھتی تھیں۔

بیگم زاہدہ سلطانہ


نرگس نعیم سندھو اور زاہدہ سلطانہ؛ دونوں خواتین انتہائی صاف گو اور سیاسی طور پر خود اعتماد تھیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین میں سے ایک جینیفر موسیٰ تھیں جو نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ تھیں۔ جینیفر موسیٰ آئرلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں اور قاضی محمد موسیٰ کی بیوہ تھیں۔ قاضی محمد موسیٰ آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن اور آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی بلوچستان شاخ کے بانی ممبر قاضی محمد عیسیٰ کے بھائی تھے۔ یہ خاصی نقصان دہ بات ہے کہ ان آئینی بحثوں میں وہ خاموش کردار کے طور پر شامل رہیں۔ اگرچہ ان کا نام آئینی کمیٹی کے ممبران میں شامل ہے تاہم انہیں میر غوث بخش بزنجو کے مستعفی ہو جانے کے بعد آئین سازی کے عین آخری مراحل میں آئینی کمیٹی کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ اسی باعث انہوں نے مسودہ آئین میں اختلاف رائے کا تکنیکی نوٹ اس بنیاد پر جمع کروایا کہ آئینی کمیٹی کی کارروائی میں حصہ لینے کا انہیں کوئی موقع نہیں مل سکا۔ سوائے اس اختلافی نوٹ کے، مسز موسیٰ نے آئین سازی کے عمل کے دوران اور کوئی گفتگو نہیں کی۔

جینیفر جہانزیب موسیٰ قاضی محمد عیسیٰ کی بھابھی تھیں


چھٹی خاتون رکن شیریں وہاب کا تعلق پاکستان مسلم لیگ قیوم سے تھا جنہوں نے برصغیر کی تقسیم سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے صوبہ سرحد میں خواتین کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے لئے بنائی جانے والی تنظیم دی فرنٹیئر ویمنز مسلم لیگ کی اولین سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری بھی ادا کی تھی۔ اسلامک ماڈرنزم یعنی اسلامی جدیدیت کی جانب ان کا جھکاؤ ان کے مباحثوں میں تواتر کے ساتھ نظر آتا تھا۔

بیگم شیریں وہاب کا تعلق پاکستان مسلم لیگ قیوم سے تھا


اس قدر محدود نمائندگی کے باعث اسمبلی میں خواتین کے کاکس جیسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر اشرف عباسی کے الفاظ میں ظاہر ہے کہ یہ محدود نمائندگی تمام آئینی اداروں بشمول قومی اسمبلی، سینیٹ، اسلامی نظریاتی کونسل (CII) اور مقامی حکومتوں میں خواتین کو لازمی نمائندگی دینے کے مطالبے، جس کی آئین ضمانت دیتا ہے کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں۔ آئین کے مسودے میں خواتین کے لیے اسمبلی میں مختص کی گئی 5 فیصد مخصوص نشستوں کی تجویز کو اس بنیاد پر چیلنج کر دیا گیا کہ ملکی آبادی میں خواتین کے تقریباً مساوی تناسب کے لحاظ سے اسمبلی میں خواتین کی یہ نمائندگی بہت کم ہے۔ شیریں وہاب نے اپنے بے باک انداز میں اسمبلی میں خواتین کے لئے 'کم از کم 30 فیصد' نمائندگی کے لئے آواز اٹھائی اور اپنے مطالبے کی حمایت میں سورۃ النساء کی تلاوت کی۔

اسی دوران بیگم نسیم جہاں نے 'خواتین کے براہ راست حق رائے دہی' کا مطالبہ کیا تا کہ مخصوص نشستوں پر خواتین کو براہ راست طریقہ انتخاب اور محض خواتین کے ووٹوں کے ذریعے سے منتخب ہونے کی اجازت مل سکے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے اس تنازعے اور دوغلے پن کا خاتمہ ہو جائے گا جس کے تحت خواتین کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے مردوں کا محتاج ہونا پڑتا ہے جو انہیں نامزد کر کے اسمبلی میں لاتے ہیں۔ بیگم نسیم جہاں نے بتایا کہ خواتین کی مختلف تنظیمیں جو خطوط اور ٹیلی گرام کے ذریعے سے آئینی کمیٹی کے ساتھ رابطے میں رہیں، انہوں نے بھی اس تجویز کی متفقہ طور پر توثیق کی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے سختی سے اس مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل دیے کہ دیہی حلقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اس طریقہ انتخاب سے نقصان پہنچے گا۔ احتجاج کرتے ہوئے انہوں نے بیگم نسیم جہاں سے اپنی مجوزہ ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

اس کے علاوہ تمام خواتین اراکین آئین کے مسودے میں شامل ان 6 مخصوص نشستوں کو برقرار رکھنے پر سختی سے ڈٹی رہیں تاکہ آئندہ 10 سالوں کے لیے قومی اسمبلی میں خواتین کی کم از کم نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس معاملے پر خاصے بھڑکیلے مباحثے کے دوران مسز سندھو نے ان لوگوں کو سختی سے نصیحت کی جو عام نشستوں کو مردوں کے لیے مختص کرنے کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ اسمبلی کو یاد دلاتے ہوئے کہ جب بھی خواتین کے حقوق داؤ پر لگے ہوتے ہیں تو فتویٰ علمائے کرام کی آخری جائے پناہ بن جاتا ہے، وہ محمد حنیف خان اور غلام غوث ہزاروی جیسے ارکان کی صنف پرستی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں۔

اسی طرح خواتین آئین سازوں کا سینیٹ میں نمائندگی کا مطالبہ بھی آفاقی نوعیت کا اور نہایت واضح تھا جو انہی خیالات کی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ خواتین کو جان بوجھ کر آئینی اداروں سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی اور بیگم سلطانہ سینیٹ میں ہر صوبے سے خواتین کے لیے دو مخصوص نشستیں مختص کیے جانے کے حق میں سب سے بلند آواز اٹھا رہی تھیں جبکہ باقی خواتین یہ امید کر رہی تھیں کہ کم از کم ہر صوبے سے سینیٹ کے لئے ایک سیٹ مختص کروائی جا سکے۔

بیگم سلطانہ کا سینیٹ میں خواتین کی نمائندگی سے متعلق معاملے پر آئین کے مسودے میں ’واضح غلطی‘ کا حوالہ غالباً سب سے زیادہ شدید تھا حالانکہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تجویز کردہ مضبوط وفاق کے قیام اور صوبائی خودمختاری کے ڈھانچے کا کھلم کھلا دفاع کرتی تھیں۔ جہاں تک اسلامی نظریاتی کونسل کا معاملہ ہے اس پر تمام خواتین اراکین متفق تھیں کہ علمائے کرام کو کونسل میں کم از کم ایک خاتون کو شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کرنی ہو گی۔

جس طرح سینیٹ تشکیل دینے کا خیال سب سے پہلے 1973 کے آئین میں شامل کیا گیا تھا اسی طرح مقامی حکومت کے نظام کی تجویز بھی پہلی بار اسی آئین میں سامنے آئی تھی۔ مقامی حکومتوں کے قیام والی تجویز بیگم نسیم جہاں نے دی تھی جو بہت منفرد تھی۔ یہ تجویز نچلی سطح تک جمہوریت کے قیام کی بنیاد پر پیش کی گئی تھی جس میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین سمیت تمام طبقات کے مفادات کی نمائندگی شامل ہو گی۔ انہوں نے دلیل دی کہ اگر یہ نظام قائم ہو گیا تو یہ نوآبادیاتی دور کے بیوروکریسی کے نظام کی جگہ لے لے گا اور اس کے نتیجے میں مقامی سطح پر عوام کو منظم کرنے کے نئے ادارے تشکیل پائیں گے اور طاقت تمام سماجی حلقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ عوام کو با اختیار بنانے کے اصول پر چلتے ہوئے یہ نظام طاقت کی سماجی، معاشی اور سیاسی اکائی کے طور پر خودمختار حیثیت میں کام کرے گا۔ اس تجویز کو بہت سراہا گیا اور معمولی تبدیلیوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

1973 کے آئین میں مقامی حکومتوں سے متعلق شامل شق میں درج ہے؛

32۔ ریاست متعلقہ علاقوں سے منتخب ہو کر آنے والے عوامی نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومتوں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ان مقامی اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی طور پر نمائندگی دی جائے گی۔

بیگم جہاں کی جانب سے تجویز کردہ بیش تر ترامیم کا خمیر ان کے سوشلسٹ عوامی جمہوریت کے نظریاتی پس منظر سے اٹھا تھا۔ ان ترامیم میں مساوی کام کے لیے مساوی تنخواہ اور کام کرنے کے حق کی شقیں شامل تھیں۔ 'بیوروکریسی، استبداد اور دکھاوے' کے خاتمے کے لیے اور قرارداد مقاصد میں 'طبقاتی معاشرے' کو 'مساوات پر مبنی غیر طبقاتی معاشرے' سے تبدیل کرنے سے متعلق ترامیم اس کے علاوہ تھیں۔ بیگم جہاں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیر صحت شیخ ایم رشید کی جانب سے تجویز کردہ ترمیم کی بھی حمایت کی جس میں تجویز تھی کہ 'اسلامی سوشلزم' کو پاکستانی معیشت کی بنیاد بنایا جائے۔ تاہم ان میں سے کسی بھی تجویز کو آئین کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

پارلیمنٹ میں کسانوں، مزدوروں، طلبہ اور خواتین جیسے فعال اور پیشہ ور گروہوں کو نمائندگی دینے سے متعلق ان کی غیر روایتی تجویز کو اسمبلی میں تھوڑی سی بھی حمایت نہ مل سکی بلکہ وزیر قانون حفیظ پیرزادہ اس تجویز پر خاصے جز بز ہوئے۔ اس موقع پر بیگم جہاں باوقار انداز میں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئیں تاہم وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے منشور پر کاربند رکھنے سے ہرگز پیچھے نہ ہٹیں اور پارٹی کے اندر رہ کر پارٹی کی سخت ناقد بنی رہیں۔

اگرچہ بیگم جہاں کی آواز خواتین اور محنت کش طبقے کے ایما پر ہونے والے مباحثوں میں یقیناً غالب تھی، باقی آئین ساز خواتین ہمیشہ ان کے ساتھ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے قابل ذکر حد تک ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ مثال کے طور پر پالیسی کے مجوزہ ہدایتی اصول کو عملی جامہ پہنانے کے طریقہ کار پر یہ اختلاف سامنے آیا جس میں کہا گیا ہے کہ 'قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے'۔ بیگم جہاں نے اس سے قبل آئینی کمیٹی کے سامنے خواتین کی حیثیت سے متعلق ایک کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جسے وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر رد کر دیا گیا تھا۔ مباحثوں کے دوران انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی۔ کمیشن کے بجائے انہوں نے 'خواتین کی حیثیت کو بلند کرنے کے لیے خواتین کی خصوصی رضاکارانہ تنظیموں کی تشکیل' کے لیے ایک شق شامل کرنے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ دوسری سوشلسٹ ریاستوں سے ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر عباسی نے اس بنیاد پر مذکورہ تجویز کی مخالفت کی کہ یہ مطالبہ بنیادی اصول کے دائرہ کار کو محدود کر دے گا اور اس سے حکومت کو راستہ مل جائے گا جس کے تحت وہ خواتین کو انہی تنظیموں تک محدود کر کے رکھے گی۔ یہ تجویز پیش کرنے میں بیگم جہاں نے جس طرح روس اور چین جیسی کمیونسٹ ریاستوں پر انحصار کیا تھا، مسز سندھو ان حوالوں سے بالکل قائل نہ ہوئیں اور انہوں نے مؤقف دیا کہ خواتین کی شرکت کے طریقوں پر غور کرتے ہوئے ہمیں پاکستان کے مقامی سیاق و سباق کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ شیریں صاحبہ نے اسلامی جدیدیت کے نکتہ نظر سے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلام نے کسی بھی دوسرے فریم ورک کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں۔

تاہم مباحثوں کے دوران اس قسم کے اختلاف کے واقعات شاذ و نادر ہی سامنے آئے تھے اور باہمی اتفاق رائے کی مثالیں بہت زیادہ تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود جو کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے تعلق رکھنے والے دو علمائے کرام تھے جن کی جماعت صوبہ سرحد میں مخلوط حکومت کی سربراہی کر رہی تھی، ان دونوں کی جانب سے خواتین کو سربراہ مملکت بننے کا حق نہ دیے جانے کی تجویز کی ڈاکٹر عباسی اور بیگم جہاں نے یکجا ہو کر مخالفت کی تھی۔ علما کی جانب سے 1961 کے مسلم فیملی لاز آرڈیننس کو منسوخ کرنے کی مسلسل کوششوں کی مجموعی مخالفت بھی قابل ذکر بات ہے۔ یہ قانون ایوب خان کے دور حکومت میں نافذ کیا گیا جس میں ذاتی اور خاندانی معاملات میں مسلم خواتین کے حقوق کو تحفظ دیا گیا تھا۔

بالآخر 1973 کے حتمی آئین میں قومی اسمبلی میں بالواسطہ انتخاب کے ذریعے خواتین کی 10 مخصوص نشستیں رکھی گئیں جن کی مدت 10 سال ہو گی یا اسمبلی کے اگلے انتخابات کے انعقاد تک جن کی مدت برقرار رہے گی۔

اسلامی نظریاتی کونسل کو پابند کیا گیا کہ اس میں کم از کم ایک خاتون لازمی شامل ہو گی جسے صدر پاکستان نامزد کریں گے۔

اگرچہ سینیٹ میں خواتین کو کوئی نمائندگی نہ مل سکی تاہم خواتین کے معاملے میں کئی ایسے اقدامات شامل ہوئے جو پہلی مرتبہ اٹھائے گئے تھے۔

قانون کی نظر میں برابری اور مکمل قانونی تحفظ جیسے بنیادی حقوق کے ضمن میں دو نئی شقیں متعارف کروائی گئیں: پہلی یہ کہ 'محض جنس کی بنیاد پر' امتیازی سلوک کی ممانعت ہو گی اور دوسری یہ کہ ریاست کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے خصوصی اقدامات کرے۔

پالیسی کے ہدایتی اصولوں میں نئی شق شامل کی گئی جس میں ریاست کو 'قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنانے کے لیے' اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ان اقدامات میں سماجی اور معاشی بہبود کے فروغ سے متعلق اصولوں میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت بھی شامل تھی۔

اسی طرح مقامی حکومتوں کے نئے نظام میں کسانوں اور مزدوروں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی 'خصوصی نمائندگی' دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

مجموعی طور پر یہی ساری دفعات مل کر آئین میں خواتین کے حقوق کی بنیاد ثابت ہوئیں۔

مریم خان معروف قانون دان ہیں اور آئینی تاریخ پر گہری نظر رکھتی ہیں۔