Get Alerts

عوامی مفاد اور رائے عامہ کو 26 ویں آئینی ترمیم میں یکسر نظرانداز کیا گیا

عوام کے پاس رائے دینے کا موقع ہی کہاں تھا کیونکہ نہ ہی ملک کے طول و عرض میں رائے سازی کی گئی، نہ عوامی سیمینارز، نہ اکیڈمک گفتگو، نہ بار کونسلز میں ڈسٹرکٹ کی سطح تک گفتگو۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہی تھا جہاں پر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

عوامی مفاد اور رائے عامہ کو 26 ویں آئینی ترمیم میں یکسر نظرانداز کیا گیا

26 ویں آئینی ترمیم کا ارتقائی عمل اور اس کے محرکات کے مقاصد آگے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کا اولین مقصد تو پورا ہوا کہ ایک چیف جسٹس کا راستہ روکا جائے اور اپنی مرضی کا چیف لایا جائے۔ سردست راستہ تو رک گیا مگرمستقبل کے فیصلے طے کریں گے کہ اپنی مرضی کے جج سے مقاصد بھی حاصل ہوتے ہیں یا پھر سے وہی الزامات دہرائے جاتے ہیں کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ کی بے توقیری کر دی، آئین دوبارہ لکھ دیا، اپنی حدود سے تجاوز کر دیا وغیرہ۔ ویسے اتنی آئینی ترامیم پر بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ہمارے آئین سازوں میں حال اور مستقبل کو جانچنے کی قابلیت نہیں ہے یا ترامیم محض وقتی حالات کی حد تک کی جاتی ہیں؟

جمہوری تصورات میں گنجائش ہو گی کہ عوام کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں عوام کی رائے جاننے کا تردد کیا جاتا مگر ہماری جمہوریت میں اتنی گنجائش کہاں کہ اتنی اہم ترمیم میں عوام سے پوچھا جائے، حالانکہ انہی فیصلہ سازوں نے ایک وقت پر 18 ویں ترمیم میں خاصا وقت لے کر عوامی رائے کی بنا پر تاریخی ترمیم کی تھی، مگر خدا جانے اب کیا عجلت تھی کہ عوام کو رائے دینے کا موقع دینا تو دور، آخیر تک ترمیمی مسودے کو بھی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ مسودہ پر راضی کرنے کے لئے اپوزیشن جماعت کو بندوق اور تلوار کا تحفہ تو دے دیا مگر مسودہ نہیں دیا۔ اور ایسی ایسی دلیلیں پیش کی گئیں کہ عوام کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا، ملک ترقی کرنا شروع کر دے گا، یہ ترمیم مجبوری ہے، نمبرز پورے ہیں مگر پھر بھی مشاورت کر رہے ہیں اور ہمیں اس راستے پر جانا پڑے گا جسے میں پسند نہیں کرتا۔

عوام کو رائے دینے کا موقع ہی کہاں تھا کیونکہ نہ ہی ملک کے طول و عرض میں رائے سازی، نہ عوامی سیمینارز، نہ اکیڈمک گفتگو، نہ بار کونسلز میں ڈسٹرکٹ کی سطح تک گفتگو۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہی تھا جہاں پر لوگ سوال کر رہے تھے، تبصرے کر رہے تھے، اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ بہت سارے سوالوں اور خیالات میں ایک بات مشترک چلتی رہی کہ کوئی ایسی ترمیم ہو جس سے بھوک ختم ہو، عوامی خوشحالی آئے، یعنی ساری ترمیم میں عوام کے لیے کیا ہے؟ مگر وہ سرکار ہی کیا جو عوام کو بغیر ترسائے کچھ دے دے۔ جیسے کہ اب 27 ویں ترمیم کا خواب جس کا ابتدائی طور پر محور تو عوام ہیں مگر واردات کی رات آخری پہر پتہ چلے گا کہ مسودے میں عوام کے لیے کیا ہے؟

26 ویں ترمیم کے پراسس میں ہم شاید اسی وہم میں رہتے کہ کسی نے عوامی مفاد کی کوئی بات نہیں کی اور ڈھونڈتے رہے کہ وزیر قانون کی سارے عمل میں 10، 12 گھنٹے کی تقاریر میں عوام کہیں آتے ہی نہیں۔ کہ کہیں کاش موصوف 30 سیکنڈ کی خاموشی بنا لیتے اور ایم کیو ایم کی تجویز کو اپنی تقریر میں ویسے ہی نظرانداز کر دیتے جیسے مسودے میں کیا ہے۔

وزیر قانون نے جیسے ہی بتایا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے مقامی حکومتوں کو تقویت دینے کیلئے آرٹیکل 140 میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی۔ مگر جو کہا اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ چونکہ عوامی مفاد ہمارا اولین ایجنڈا نہیں ہے اور یہ ترمیم عوام کو فائدہ نہیں دے سکتی لہٰذا اس کے لیے پھر کبھی ترمیم کر لیں گے۔ اور اب موجودہ روایت میں ترمیم کرنا کون سا مشکل کام ہے؟ بس جتنے ممبرز کے ووٹ کم ہوں گے، اتنے ممبرز ہی تو اغوا کرنے ہیں۔ لہٰذا اس فضول ترمیم کو پھر کبھی دیکھ لیں گے۔

مبارک بادوں کے اس موسم میں 26 ویں ترمیم کے پہلے دو نتائج ملاحظہ کرتے ہیں جس کے مطابق ممکنہ چیف کا راستہ رک گیا، اپنی مرضی کے نئے چیف آ گئے ہیں مگر عین اسی وقت سپریم کورٹ میں 7 ملازمین کی برطرفی کی اپیل اس بینچ کو بھیج دی گئی جو ابھی بنا ہی نہیں۔ اب دیکھ لیں جن کو انصاف کی فراہمی کے نام پر فیصلے کیے گئے انہیں کیا مل رہا ہے اور جنہوں نے فیصلے کیے انہیں کیا ملا۔ اب اندازہ لگا لیں کہ آغاز ایسا ہے تو انجام کیسے اچھا ہو گا۔ اور اب بھی کوئی انہیں بتا دے کہ 'اجالے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں مگر اندھیرے سے کبھی دوستی نہ کریں'۔