Get Alerts

بینچز اختیار کیس کا 26 ویں ترمیم سے تعلق نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے، جسٹس منصور

کیس ریگولر بنچ سن رہا تھا کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے، یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے، رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب دو ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا ،بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ بینچز کے اختیار سے متعلق کیس میں عدالت کے ریمارکس

بینچز اختیار کیس کا 26 ویں ترمیم سے تعلق نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے، جسٹس منصور

سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیار سے متعلق توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کے اعتراض پر عدالتی معاونین تبدیل ہوگئے، عدالت نے خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کردیا، عدالت عظمیٰ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے کیس منتقل کرنے پر کل تک تحریری جواب مانگ لیا جبکہ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے۔

سپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کے اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں۔

اٹارنی جنرل کے اعتراض پر عدالت نے مزید 2 عدالتی معاون مقرر کر دیے، خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ اور کوئی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر عدالت کی معاونت آرٹیکل 27 اے کے تحت کر سکتا ہوں، توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میری پوزیشن مختلف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیس ریگولر بنچ سن رہا تھا کیا کمیٹی اسے شفٹ کر سکتی ہے، یہ کیس آرٹیکل 191 اے کا ہے کچھ کیسز ٹیکس سے متعلق بھی تھے، رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب دو ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں آج آئے ہوئے ہیں؟

ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے روبرو پیش ہوئے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا تھا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں، اس کیس کا تعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اختیارات سے ہے نا کہ 26 ویں ترمیم سے، آپ چاہ رہے ہیں کہ پلڑا بھاری نہ ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ مقرر نہ کرنے سے معلوم نہیں نذر عباس کا کتنا تعلق ہے، نذر عباس صاحب آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوگیا ہے، سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا مؤقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایڈووکیٹ شاہد جمال نے روسٹرم پر آکر کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بنچ تبدیل ہوا تھا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا، سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بنچ کرتا ہے درمیان میں بنچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بنچ سے ایک معزز جج کو ہی نکال دیا جاتا ہے، ایک کیس چل رہا ہو اس کو بنچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ مطلب جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اسکی واپسی نہیں ہے جس پر وکیل شاہد جمیل نے جواب دیا کہ جہاں سوال اٹھے گا وہ کیس لیا بھی جا سکتا ہے اس پر جسٹس منصور علی نے نے ریمارکس دیئے کہ سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بنچ کے سامنے نہ ہو۔

وکیل شاہد جمیل نے جواب دیا کہ پہلے سارے کیسز سیکشن 2 کی کمیٹی کے پاس جائیں گے جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ ابھی تک 2 اے کی کمیٹی کی ایکسر سائز رہی ہے کہ کمیٹی ریگولر بنچز ہی بنائے گی، 2 اے میں کمیٹی بنچ تبدیل کر سکتی تھی اس صورت میں جب کیس کسی کورٹ میں نہ ہو۔

ایڈووکیٹ شاہد جمیل نے کہا کہ آئینی بنچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے جس پر وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بنچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں، مطلب یہ اوور لیپنگ ہمیشہ رہے گی، یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لئے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

اس پر عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم توہین کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟ منیر اے ملک نے کہا کہ کمیٹی کا فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے، کمیٹی کے اختیار پربالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ آئینی بنچ سپریم کورٹ کی صرف ایک سیکشن ہے، سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے، تین رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بنچ کو بھیجنے ہیں، میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی، کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے۔

عدالتی معاون نے مزید کہا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بنچ میں لگ گیا تھا، اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا، اب جوڈیشل آرڈرکو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے، معاملہ ہمیشہ کے لیے حل فل کورٹ سے ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہو گئے جبکہ دوسرے عدالتی معاون حامد خان نے دلائل شروع کیے تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے۔

عدالتی معاون حامد خان نے کہاکہ آئین میں لکھا ہے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دیگر ججز ہوں گے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ہمارا شمار دیگرججز میں ہوتا ہے؟جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ اب تو شاید ہم دیگر ججز ہی رہ گئے ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل ویسے پوچھ رہا تھا کہ ہم ججز کا حصہ ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل آپ حصہ ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ویسے پوچھ رہا تھا کہ آج کل پتہ نہیں چلتا۔

بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو جمعرات تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے بینچز کے اختیار سے متعلق کیس مقرر نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کردی۔