فوجی عدالتوں میں ٹرائل: جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا

فوجی عدالتوں میں ٹرائل: جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا
جسٹس منصور علی شاہ  نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر تیسری سماعت کے موقع پر خود کو بینچ سے الگ کر لیا جس کے بعد 7 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں7 رکنی بینچ نے آج درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور  جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ تھے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایت ہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ بینچ کا حصہ نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ آپ کی مرضی سے بینچ نہیں بنایا جائے گا۔ کس بنیاد پرآپ جسٹس منصورعلی شاہ پراعتراض اٹھا رہے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے اعتراض اٹھایا گیا ہے۔

ٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز اس مقدمہ میں درخواست گزار ہے۔وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ یہ مقدمہ نہ سنے۔

دوران سماعت، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ کوڈ آف کنڈیکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضع ہے۔کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کبھی بینچ میں نہیں بیٹھتا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ ہو۔ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں۔ کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔

حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔

اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی۔انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو۔ وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔