قومی اسمبلی سے مسترد ہونے کے بعد کسی بھی صورت انتخابی اخراجات کے لئے رقم کی ادائیگی ممکن نہیں

قومی اسمبلی سے مسترد ہونے کے بعد کسی بھی صورت انتخابی اخراجات کے لئے رقم کی ادائیگی ممکن نہیں
آئین کا آرٹیکل 5 بہت واضح ہے، وہ کہتا ہے کہ ریاست سے وفاداری ہر اس شخص پر لازم ہے جو پاکستان میں رہائش پذیر ہے، اسی آرٹیکل کی اگلی شق میں کہا گیا ہے کہ آئین اور قانون سے وفاداری ہر پاکستانی شہری بلکہ ہر اس شخص کے لئے لازم ہے جو چاہے مختصر وقت کے لئے ہی سہی، پاکستان میں مقیم ہے۔
یہ تمہید اور آئین کا حوالہ موجود حالات میں جب سپریم کورٹ نے براہ راست سٹیٹ بینک کو پنجاب الیکشن کے لئے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم صادر فرما دیا، بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک کیا ہے اور اس کی آئین کے تحت ذمہ داریاں کیا ہیں۔
آئین کے مالیاتی، مالی اور تجارتی معاملات سے متعلق آرٹیکل بہت واضح ہیں اور ان انہیں عمران خان حکومت نے جاتے جاتے سٹیٹ بینک اصلاحات بل کے ذریعے مزید واضح کیا۔
سٹیٹ بینک مالی اور مالیاتی پالیسی کا ذمہ دار ادارہ ہے، اور اس کی دیگر ذمہ داریاں ان ہی نکات کے گرد گھومتی ہیں، جب کہ حکومت یعنی وزیر اعظم کابینہ اور وزیر خزانہ مالی اور مالیاتی انتظام کی ذمہ دار ہیں۔ بجٹ بنانا، اور اس پر عمل کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
ان دونوں سے ہٹ کر آئین میں ایک آرٹیکل 160 بھی ہے جو قومی مالیاتی کمیشن کے حوالے سے بتاتا ہے کہ وسائل کس طرح جمع ہوں گے۔ یہی وسائل کی تقسیم کا ذمہ دار ہے۔ ذیلی قواعد اور ضوابط کے ذریعے، جن کے تحت تمام ٹیکس وفاقی قابل تقسیم پول میں جمع ہوں گے۔
ان کا 57 فیصد صوبوں میں ان کے طے شدہ حصہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔ 43 فیصد مرکز کو ملے گا جس میں سے دفاع، تنخواہوں، منشن، اور الیکشن سمیت دیگر ذمہ داریوں کے رقوم مختص کی جائیں گی، اور یہ رقم بجٹ کے تحت تقسیم کے بعد بعض اہم اور ضروری فیڈرل کنسالیڈیٹڈ اکاؤنٹ اخراجات کے ذریعے فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈ میں رکھی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے اخراجات، ایوان صدر، سمیت بہت سے اخراجات اسی فنڈ سے کیے جاتے ہیں، اور الیکشن کے لئے درکار رقم بھی اسی فنڈ سے جاری ہوگی۔
لیکن آرٹیکل 160 کے ساتھ ایک آرٹیکل 164 بھی اسی آئین میں موجود ہے جو کہتا ہے کہ فیڈرل کنسالیڈیٹڈ اکاؤنٹ سے کوئی بھی رقم صرف قومی اسمبلی سے منی بل منظور کروا کے ہی خرچ یا جاری کی جا سکتی ہے اور یہ کام بھی حکومت کا ہے، یعنی اس حوالے سے سٹیٹ بینک کو بھی کوئی ہدایت کوئی بھی ادارہ جاری نہیں کر سکتا۔
اب حقائق یہ ہیں کہ قومی اسمبلی پنجاب میں انتخابی اخراجات سے متعلق منی بل مستعد کر چکی، اور یہاں یہ آرٹیکل 5 کا کام شروع ہوتا ہے جس کا ابتدا میں حوالہ دیا، یعنی قومی اسمبلی سے مسترد ہونے کے بعد کسی بھی صورت انتخابی اخراجات کے لئے رقم کی ادائیگی ممکن نہیں، اور اگر سٹیٹ بینک اس کا کوئی بھی بڑے سے بڑا افسر بھی اب رقم جاری کرے گا تو آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔
اطلاعات یہ گردش کر رہی ہیں کہ حکومت اس صورت میں کارروائی کرنے کا بھی سوچ رہی ہے، اور اگر کسی وجہ سے حکومت براہ راست نہ بھی کر سکی تو جو آڈٹ بنے گا اسے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اٹھا کر ناصرف اس آرٹیکل کے تحت کارروائی کی شکایت کر سکتی ہے بلکہ بعض اور اقدامات کی سفارش بھی کر سکتی ہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ اداروں میں لڑائی میں ایک آئینی ادارہ آئین شکنی کے احکامات دے گا تو دوسرا اس کے خلاف کارروائی کو تیار ہوگا۔

اعجاز احمد صحافت سے وابستہ ہیں اور کئی دہائیوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔