قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق پر غداری کا الزام کیوں لگا

قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق پر غداری کا الزام کیوں لگا
ابوالقاسم فضل الحق، شیرِ بنگلہ، نے 26 اکتوبر 1873 کو بکرگنج، بنگال میں ایک کامیاب وکیل محمد وازد (محمد واجد) کے یہاں آنکھ کھولی۔ کلکتہ کے یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے سرکاری ملازمت کرنے کے بعد 1912 میں وکالت کو بطور پیشہ اپنایا۔

فضل الحق اس All India Muhammadan Educational Conference میں موجود تھے جو سر خواجہ سلیم اللہ نے ڈھاکہ میں بلائی تھی اور جہاں آل انڈیا مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ بنگال کی صوبائی مسلم لیگ بنی تو فضل الحق اس کے سیکرٹری بنے اور 1913 میں پہلی بار بنگال قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ 1916 میں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا اور اس عہدے پر وہ 1921 تک موجود رہے۔ فضل الحق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد سیاستدان تھے جو بیک وقت مسلم لیگ کے صدر اور انڈین نیشنل کانگریس کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ان کے سیاسی قد کاٹھ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1919 سے 1920 تک کانگریس کے صدر رہنے والے موتی لعل نہرو کے بیٹے اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو 1918 سے 1919 تک فضل الحق کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح فضل الحق بھی تحریکِ خلافت کے پرجوش مخالف تھے اور بنگال کی صوبائی مسلم لیگ میں اس دھڑے کی قیادت کرتے رہے جو اس تحریک سے فکری اختلاف رکھتی تھی۔ 1923 میں وہ بنگال کے وزیرِ تعلیم بھی بنے۔ 1935 میں انہوں نے All Bengal Tenants Association کو کرشک پرجا پارٹی میں ڈھال دیا اور اسی محاذ سے 1937 کا الیکشن لڑا۔ انتخابات میں کانگریس نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں، لیکن دوسرے نمبر پر مسلم لیگ اور تیسرے نمبر پر کرشک پرجا پارٹی رہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے آزاد ممبران کو ساتھ ملا کر بنگال میں حکومت بنائی۔ انہیں قائدِ ایوان منتخب کیا گیا اور یوں فضل الحق بنگال کے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ 1940 میں قائد اعظم محمد علی جناح نے قراردادِ لاہور، جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کا نام دیا گیا، بھی فضل الحق سے ہی پیش کروائی۔

https://www.youtube.com/watch?v=CSvUvzmGu8c&t=1s

پاکستان بننے کے بعد فضل الحق نے ڈھاکہ میں سکونت اختیار کی اور مشرقی پاکستان کے پہلے ایڈووکیٹ جنرل بنے۔ 1954 کے انتخابات ہوئے تو مولوی فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مل کر جگتو فرنٹ کے تحت یہ الیکشن لڑا اور بنگال کی 310 میں سے 301 نشستیں جیت لیں۔ بنگال مسلم لیگ کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ مشرقی پاکستان کے چھ برس تک وزیر اعلیٰ رہنے والے نورالامین ایک طالبِ علم سے الیکشن ہارے۔ یہی وہ الیکشن تھا جس میں شیخ مجیب الرحمان پہلی مرتبہ منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔ خود فضل الحق نے سابق گورنر جنرل اور وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین کو ان کے حلقے میں شکست دی۔

فضل الحق بنگال کے وزیر اعلیٰ بنے۔ مگر یہ شکست پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہ ہوئی اور صرف دو ماہ کے بعد ایک ایسے الزام میں اس حکومت کو برطرف کر دیا گیا جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ وزیر اعلیٰ فضل الحق ایک دورے پر مغربی بنگال گئے جہاں انہوں نے ایک تقریر کی۔ ایسے خیر سگالی دوروں پر خیر سگالی کے جذبات سے پر تقاریر ہی کی جاتی ہیں۔ لیکن مغربی پاکستان کے اخبارات نے اس تقریر کا بتنگڑ بنایا، جھوٹ سے بھرپور رپورٹیں لکھی گئیں اور الزام لگایا گیا کہ فضل الحق نے بنگال کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے خلاف تقاریر کی تھیں۔

غداری کے اس الزام کو بنیاد بنا کر بنگال حکومت برطرف کر دی گئی اور اسکندر مرزا کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ لیکن وہی ’غدار‘ فضل الحق حکومت برطرف ہوتے ہی قابلِ قبول بھی ہو گیا اور صرف دس ماہ بعد اگست 1955 میں پاکستان کا وزیر داخلہ بنا اور 1956 میں مشرقی پاکستان کا گورنر بھی بنا۔

تاہم، 1958 کے مارشل لا نے جہاں اس ملک سے بہت کچھ چھین لیا وہیں فضل الحق کے سیاسی کریئر میں بھی آخری کیل اسی مارشل لا نے ٹھوکی۔ ان کو برطرف کر کے نظربند کر دیا گیا۔ چار سال بعد 27 اپریل 1962 کو ڈھاکہ میں شیرِ بنگلہ اے کے فضل الحق انتقال کر گئے۔ اپنے دیگر کئی محسنوں کی طرح قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق کو بھی پاکستان نے غدار قرار دیا۔ ان کا قصور محض اتنا تھا کہ بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ پاکستان کی دوسری سرکاری زبان بنانے کے پرجوش حامی تھے اور کرشک سرامک پارٹی یعنی مزدور کسان پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایک بائیں بازو کے لیڈر مانے جاتے تھے۔

آج فضل الحق اپنے دو سیاسی مخالفین حسین شہید سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کے ساتھ ڈھاکہ میں موجود تین رہنماؤں کے مزار میں دفن ہیں۔ سہروردی اور فضل الحق دونوں ایسے بنگالی لیڈر تھے جو مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کو غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا۔ 1962 میں فضل الحق اور 1963 میں سہروردی جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اور چند ہی برس بعد پاکستان دولخت ہو گیا۔

لیکن کیا ہم نے سبق سیکھا؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ 1964 میں قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا گیا تھا۔

نفاذ شریعت کے لیے پرامن جدوجہد کے قائل مولانا مودودی بھی غدار کہے گئے اور ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے داعی شاعر فیض احمد فیض بھی۔ 71 کے سانحے کے بعد باقی پاکستان کو اکٹھا رکھ کر 73 کا متفقہ آئین بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی غدار ٹھہرائے گئے اور اس آئین میں اسلامی شقیں ڈلوانے والے مولانا مفتی محمود بھی۔ بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد پر دستخط کرنے والے بلوچ رہنما اکبر بگٹی کو بھی غدار کہا گیا اور پختونوں کی جمہوری جدوجہد کے سرخیل خان عبدالولی خان کو بھی۔ غداروں کی اس فہرست میں کبھی حبیب جالب کا نام آیا، کبھی احمد فراز کا، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر بھی غداری کی تہمت دھری گئی۔

یہ انڈسٹری آج بھی قائم ہے۔ ہم آج بھی ملک کے مقبول رہنماؤں کو غدار قرار دیتے ہیں۔ ’مودی کا یار‘ نعرہ نیا ہے، مگر سوچ وہی پرانی ہے۔ خدا ملکِ پاکستان کو ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رکھے۔