اعزاز سید نے کہا ہے کہ ہماری اطلاعات ہیں کہ بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کے توسط سے سیاسی پیغام رسانی ہو رہی ہے۔ تمام پلیئرز کو بتا دیا گیا ہے کہ اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا۔ شاید لوگوں نے اس بات کو کافی حد تک قبول بھی کرلیا ہوگا۔
انہوں نے یہ انکشاف نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں فیصلہ کیا تھا کہ شریف خاندان اور بھٹو خاندان کبھی پاکستانی سیاست میں حصہ نہیں لے گا، لیکن بعد ازاں مشرف صاحب اس قدر کمزور ہوگئے کہ انھیں مجبوراً بینظیر بھٹو صاحبہ سے ہاتھ ملانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مرکز میں پیپلز پارٹی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو حصہ دیا گیا۔ میری اطلاعات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا اسی پرانے طریقے پر واپس چلے گئے ہیں کہ ہمیں سب کچھ قبول ہے کہ لیکن شریف اور بھٹو خاندان قبول نہیں ہے۔
اعزاز سید نے بتایا کہ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) کے اندر سے کوئی بھی آ جائے لیکن ان دونوں خاندانوں کے کسی فرد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ سرگوشیاں ان دنوں سنائی دینا شروع ہو چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بات ہم مکمل طور پر نظر انداز کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کے جانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ آئندہ چند ماہ تو بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی میں گزر جائیں گے، اس کے بعد آخری الیکشن کا سال ہی باقی رہ جائے گا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھی جو شخصیت سیاست پر اثر انداز ہو سکتی ہے تو وہ صرف آصف علی زرداری ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ پاور پلیئرز کیساتھ بھی رابطے میں ہیں جبکہ ان کے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض سے بھی روابط بڑھتے جا رہے ہیں۔
اعزاز سید نے کہا کہ ملک ریاض وہ کردار ہیں جو بیک وقت ناصرف اسٹیبلشمنٹ جبکہ عمران خان کی آنکھوں کا بھی تارا ہیں۔ وزیراعظم کے گھر میں صرف دو ایسی شخصیات ہیں جنھیں آنے کی اجازت ہے، ان میں ایک پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور دوسرے ملک ریاض ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاعات ہیں کہ بحریہ ٹائون کے مالک کے توسط سے ہی سیاسی پیغام رسانی ہو رہی ہے۔ تمام پلیئرز کو بتا دیا گیا ہے کہ اسی تنخواہ پر کام کرنا ہوگا، شاید لوگوں نے اس کو کافی حد تک قبول بھی کر لیا ہوگا۔
پروگرام میں شریک گفتگو عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صرف شہباز شریف یا شاہد خاقان عباسی ہی نہیں بلکہ مریم نواز بھی وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہیں۔ اگرچہ وہ اس وقت تک نااہل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف کی پارٹی کے اندر بہت اہمیت ہے لیکن شاہد خاقان عباسی کا بطور ایک لیگی رہنما قد بڑھا ہے۔
مریم نواز کی اپنے صاحبزادے کی شادی پر زرق برق لباس پہننے پر ہونے والی تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ اگر نفرتیں نہ ہوتیں تو ایسا نہ ہوتا۔ اس کی بنیاد ہماری نفرت انگیز سیاست ہے۔ مرد سیاستدان مہنگی گھڑیاں یا کپڑے پہن لیں، ان پر کوئی کمنٹ نہیں کرتا۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اس تنقید سے اس کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستانی سیاست کے اندر لُچر پن آچکا ہے۔ مریم نواز تو آج سیاست میں آئی ہیں ان سے قبل فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو تک کے بارے میں ایسی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ اس میں مجھے عورت مخالف کلچر جھلکتا ہے۔ ہم اس لیول پر پہنچ چکے ہیں جس کا اظہار سوشل میڈیا پر کیا جاتا ہے۔