غیر قانونی شکار، ممنوعہ جال کا استعمال؛ بلیو وہیل کو معدومی کا خطرہ لاحق

ماہرین آبی حیات سمندری حیات کی موت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ورلڈ وائیڈ فنڈ کے مطابق مقامی ماہی گیروں کے جالوں میں پھنس کر وہیل موت کے شکنجے میں چلی جاتی ہیں، غیر قانونی فشنگ اس کی ایک اور اہم وجہ ہے۔

غیر قانونی شکار، ممنوعہ جال کا استعمال؛ بلیو وہیل کو معدومی کا خطرہ لاحق

نومبر کے دوسرے ہفتے میں پسنی کے ساحلی علاقہ شمال بندن کے ساحل پر ایک بلیو وہیل ملی تھی اور جب یہ ساحل کے قریب برآمد ہوئی تھی تو مقامی لوگوں نے وہیل کے پیٹ کو اس لئے چاک کیا کیونکہ ان کو امید تھی اس میں عنبر گریس ہو گا۔ ماہرین آبی حیات کے مطابق مقامی لوگ وہیل کو اس لئے کاٹتے ہیں کہ اس میں مخصوص مادہ ہوتا ہے جو کروڑوں روپے میں بکتا ہے اور مقامی لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ یہ مخصوص مادہ صرف اسپرم وہیل میں ہوتا ہے۔

شمال بندن میں ملنے والی وہیل برائیڈز وہیل کی نسل سے تھی۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر آبی حیات سدھیر بلوچ کے مطابق عنبر گریس اسپرم وہیل میں پایا جاتا ہے اور بدقسمتی سے مقامی لوگ ساحل پر ملنے والی ہر قسم کی وہیل کے پیٹ کو چیر پھاڑ دیتے ہیں۔ اسی لاعلمی کی وجہ سے وہیل کے ڈھانچے کو ناکارہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ وہیل کے ڈھانچے کو تحقیق کے لئے استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ صحیح سلامت ہو۔

ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے اس طرح کے عمل سے بہت نقصان ہوتا ہے اور رواں سال میں یہ دوسرا واقعہ تھا کہ کوئی وہیل مردہ حالت میں ساحل کنارے ملی تھی۔

اسی سال 28 نومبر کو اورماڑہ میں ایک مقامی ماہی گیر کے جال میں اسپرم وہیل پھنس گئی اور مقامی ماہی گیر نے اپنے جال کو کاٹ کر اسپرم وہیل کو آزاد کر دیا، جسے آبی حیات کے ماہرین نیک شگون کہتے ہیں۔

ماہرین آبی حیات سمندری حیات کی موت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ماحولیات پر کام کرنے والے عالمی ادارے ورلڈ وائیڈ فنڈ کے مطابق مقامی ماہی گیروں کے جالوں میں پھنس کر وہیل موت کے شکنجے میں چلی جاتی ہیں، غیر قانونی فشنگ اس کی ایک اور اہم وجہ ہے۔

اس کی اموات کی ایک اور وجہ بڑی بحری جہازوں سے ٹکرانا بنتی ہے اور بلوچستان کی سمندری حدود چونکہ ایک اہم بحری روٹ ہے جو بحر ہند اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی ہے اس لیے یہاں سے بحری جہاز گزرتے رہتے ہیں۔

اس حوالے سے ماہر ماحولیات گوادر عبدالرحیم بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر سال تقریباً 20 سے 30 کی تعداد میں ڈولفن ملتی ہیں اور اسی طرح بلوچستان کے ساحل پر وہیل کی سال میں اموات 6 سے 7 ہوتی ہیں اور جو سی ٹائیٹل ہیں وہ بے تحاشا آتے ہیں جو کہ سالانہ 200 سے 300 کے قریب سی ٹائیٹل کی اموات ہو جاتی ہے۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ سمندری حیات کے حوالے سے زرخیز ہے جس میں مختلف اقسام کی آبی حیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں وہیل، ڈولفن، سی ٹائیٹل فشنگ شاک شامل ہیں۔

وہیل اور ڈولفن کی تقریباً 20 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور 8 اقسام کی بڑی وہیل پائی جاتی ہیں۔

عبدالرحیم بلوچ تجویز دیتے ہیں کہ سمندری حیات کے تحفظ کے لئے یہاں جامع پائیدار فشریز پالیسی ہونی چاہئیے۔ فشریز کے قانون میں جو خامیاں موجود ہیں ان کو دور ہونا چاہئیے۔ ہمارے یہاں فشریز صرف اور صرف 12 ناٹیکل میل تک محدود ہے۔

ان کے بقول متعلقہ اداروں کو چاہئیے کہ غیر قانونی جال کا استعمال روکا جائے جو کہ وہیل، ڈولفن اور شارک جیسی سمندری مخلوقات کی اموات کا باعث بن رہے ہیں۔

بقول ان کے اگر اسی طرح وہیل، ڈولفن اور شارک کی اموات ہوتی رہیں تو یہ مچھلیاں ناپید ہو جائیں گی اور سمندر کا پورا بیلنس بگڑ جائے گا۔

ظریف بلوچ ماہر حیاتیات شعیب کیانی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اکثر وہیلز سمندر کے درمیانی لیول میں رہتی ہیں اور چھوٹی مچھلیوں کو خوراک بناتی ہیں۔ جبکہ کچھ ٹاپ لیول کی شکاری وہیلز نہ صرف مچھلیوں کا شکار کرتی ہیں بلکہ اپنی طرح کی دوسری وہیلز کا بھی شکار کرتی ہیں۔ کلر وہیل اکثر دوسری طرح کی وہیلز کو کھا جاتی ہیں۔ شعیب کیانی کے مطابق وہیلز اکثر ان سمندروں کا رخ کرتی ہیں جہاں مچھلیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے کیونکہ انہیں بڑی تعداد میں خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلوچستان کے سمندر کی یہ خاصیت ہے کہ یہاں ساحل سے چند کلومیڑ دور گہرا پانی شروع ہو جاتا ہے اور یہ پانی سمندر کے اندر موجود پہاڑیوں میں ٹکرانے کے بعد نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرتا ہے اور نیوٹرینٹس بھی اوپر آتے ہیں جو کہ سمندر کی زرخیزی کے لئے اہم ہیں۔

ماہرین آبی حیات تجویز دیتے ہیں کہ ماہی گیروں کو آگاہی دی جائے، ممنوعہ جالوں کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور سمندر کے کنارے پر پلاسٹک سے بنے جتنے جال پڑے ہوتے ہیں ان کو ہنگامی بنیادوں پر ہٹا کر سمندر کے کنارے کو صاف کیا جائے۔

شریف ابراہیم گوادر کے رہائشی ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔