سوات موٹروے فیز ٹو؛ ترقی کا نیا سفر یا ماحول دشمن منصوبہ؟

سوات موٹروے فیز ٹو؛ ترقی کا نیا سفر یا ماحول دشمن منصوبہ؟
کوئی بھی باشعور فرد کسی ترقیاتی منصوبے کی مخالفت نہیں کر سکتا لیکن جو منصوبہ عوام کے مشورے اور بہتر طریقے سے عوام کے کم سے کم نقصان کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے تو یہ تمام منفی عوامل کے اثرات کو زائل کر سکتا ہے اور یوں دیرپا ترقی کا سبب بنتا ہے۔

سوات موٹروے فیز ٹو

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں پاپولیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ منصوبہ 18 لاکھ کنال اراضی پر مشتمل ہے جس میں آدھا حصہ پہاڑ یا بنجر زمین پر مشتمل ہے۔ باقی 9 لاکھ کنال رقبہ بیش تر آبادیوں پر مشتمل ہے۔

سوات میں ایک اور بڑے منصوبے سوات ایکسپریس وے (موٹروے) کے لئے بھی مختلف مقامات پر مارکنگ کردی گئی ہے۔ یہ 80 کلومیٹر شاہراہ چکدرہ سے شروع ہو کر فتح پور کے مقام پر ختم ہو گی۔

سوات موٹروے کا سنگ بنیاد

موٹروے فیز ٹو کے لئے چکدرہ سے فتح پور تک کا نقشہ تیار کر لیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے 20 مئی 2022 کو فلیگ شپ منصوبے سوات مٹر وے فیز ٹو کا باضابطہ سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ 80 کلومیٹر طویل یہ موٹروے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مجموعی طور پر 58 ارب روپے کے تخمینہ لاگت سے چکدرہ انٹرچینج سے فتخ پور تک تعمیر کی جائے گی جس پر اب باقاعدہ 28 نومبر سے کام کا اغاز ہو گیا ہے۔

سوات موٹروے منصوبے کا دوسرا فیز


موٹروے فیز ٹو تعمیر ہونے کے بعد مینگورہ سے اسلام آباد کا سفر دو گھنٹے اور مینگورہ سے پشاور کا سفر پونے دو گھٹنے کا ہو جائے گا جبکہ اب مینگورہ سے اسلام اباد تک پونے تین گھنٹے اور مینگورہ سے پشاور تک 4 گھنٹے لگتے ہیں۔ موٹروے کے اس فیز میں شموزئی، بریکوٹ، مینگورہ، کانجو، مالم جبہ، سوات یونیورسٹی، شیرپلم اور مٹہ میں انٹرچینج دیے جائیں گے اور فتح پور کے مقام پر موٹروے کا خاتمہ ہوگا۔

منصوبے پر عوام کا ردعمل

اس منصوبے میں زرعی زمینوں اور لوگوں کے مکانات کو مارکنگ میں شامل کیا گیا ہے جس پر مقامی عمائدین شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور اس منصوبے کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں۔

' سوات موٹروے فیز ٹو سے متاثرہ عمر علی شاہ نے بتایا کہ حکومت موٹروے فیز ٹو کو دریائے سوات کے کنارے بنائے کیونکہ موجودہ نقشہ اراضی مالکان کا معاشی قتل ہے لہٰذا اسے واپس لیا جائے۔ سوات میں زرعی زمین نہیں ہے اور یہ منصوبہ زرعی قوانین کے خلاف ہے۔ ہم زرعی قوانین کو مدنظر رکھ کر متبادل راستہ اختیار کریں گے۔'

عوام کا مطالبہ ہے کہ موٹروے کی تعمیر دریائے سوات کے کنارے کنارے کی جائے


عمر علی شاہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ حکومت خود انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997، لینڈ ایکوزیشن رولز، ایگریکلچرل روٹیکشن ایکٹ، ریور پروٹیکشن ایکٹ اور دیگر بنائے گئے قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ہم بار بار احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

موٹروے فیز ٹو کے متاثرین کا کہنا ہے کہ موٹروے زرعی ارضی پر سے نہیں، ہماری لاشوں پر سے گزرے گا۔ ہم کسی کو مار نہیں سکتے لیکن خود کو تو مروا سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ سوات کے عوام کا معاشی قتل ہے۔

موٹروے ماحول دشمن منصوبہ؟

ممبر سوات قومی جرگہ اور صدر آل ہوٹل ایسوسی ایشن الحاج زاہد خان نے بتایا کہ زرعی زمینوں کا ایک بڑا حصہ سوات موٹروے منصوبے کی نذر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح تقریباً 5 لاکھ تک درخت کاٹے جائیں گے۔ 1 لاکھ تک مزدور جو ان ارضیات میں کاشت کار ہیں جو ٹریکٹر چلاتے ہیں، کاشت کار ہیں، باغوں میں پھل اتارتے ہیں، کریٹوں میں پھلوں کو بھیجتے ہیں، ان سمیت دیگر مزدور متاثر ہوں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا کیونکہ یہ سڑک آبادیوں کے درمیان بن رہی ہے تو گاڑیوں سے گیسوں کا اخراج اور نائز پولوشن سے مقامی آبادیوں کو صحت کے خطرناک مسائل کا سامنا ہوگا۔

سیلاب کا پیشگی خطرہ

موٹروے فیز ٹو کے نقشے کو مدنظر رکھتے ہوئے 2010 اور 2022 میں آنے والے سیلاب کی حدود سے دور بنا رہے ہیں۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ یہ سڑک دریائے سوات سے 20 فٹ اونچی ہو گی اور اس کے ذریعے سے جو بلاکیج آئے گی تو سیلاب آنے کی صورت میں پانی کا بہاؤ اپنا راستہ تبدیل کرکے سڑک کے پیچھے زمینوں اور آبادیوں کی طرف نہیں مڑے گا؟

سوات میں موٹروے فیز ٹو کے خلاف احتجاج کرنے والے اعجاز الحق نے بتایا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ نے جو نقشہ بنایا تھا اس پر عمل کیا جائے اور موٹروے فیز ٹو کو زرعی زمینون کے بجائے دریائے سوات کے کنارے بنایا جائے۔ اگر حکومت نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو ہم احتجاجی تحریک پشاور اور اسلام آباد تک وسیع کریں گے اور تحصیلوں کی سطح پر احتجاجی کیمپ لگائیں گے اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔

مظاہرین کے مطابق یہ منصوبہ 57 ارب کا ہے اور اس کے نقصانات 600 ارب سے زیادہ ہیں۔ یہ نقصانات بے روزگاری، زرعی ملکیت کی تباہی اور اقتصادی طورپر لوگوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔

زرعی زمینیں اور سیکشن فور

ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کے دفتر سے آر ٹٰی آئی کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار اور معلومات کے مطابق یہ منصوبہ مختلف محکموں کے ذریعے تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے جبکہ متعلقہ محکمے اپنے منصوبے کے لئے سیکشن فور لگاتے ہیں۔

جنید خان نے بتایا کہ جن منصوبوں میں زرعی اراضی کو شامل کیا گیا ہے ان کے لئے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن میں مقامی عمائدین کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اب ان کمیٹیوں کے ذریعے مقامی لوگوں کے تحفظات دور کیے جا رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ زرعی اراضی کو بچایا جائے۔

ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان کے مطابق اراضی متاثرین کو سالانہ انتقالات کے حساب سے رقم مل جائے گی۔ یہ رقم مارکیٹ ریٹ سے کم ہوتی ہے۔

مارکیٹ ریٹ کے مطابق فی فٹ 80 سے 120 روپے جبکہ زیرکاشت زمینوں کی قیمت 200 روپے فی فٹ تک مقرر کئی گئی ہے۔

موٹروے فیز ٹو کے لئے مختص زمینوں کی قیمتوں کے حوالے سے مقامی پراپرٹی ڈیلر فاروق خان نے بتایا کہ ان علاقوں میں زمینوں کی قمیت کافی کم مقرر کی گئی ہے۔ سیکشن فور لگی ان زمینوں کی فی فٹ قیمت 700 سے 800 روپے تک ہے جبکہ زیرکاشت زمینوں کی قیمت 1000 سے 1200 روپے کے درمیان ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کی رائے

ماحولیاتی ماہر نصیر اللہ خان نے بتایا کہ اب تک اس منصوبے کی انوائرنمنٹل سٹڈی تک نہیں بنی جو کہ انوائرنمنٹل ایکٹ 2012 اور بین الاقوامی کلائمیٹ چینج قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح یہ بورڈ آف ریونیو کے نوٹیفیکشن 2020 اور حکومت کے اپنے ہی بنائے گئے قانوں لینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2021 کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سوات زلزلے اور سیلاب جیسی آفات سے متاثر ہے۔ ان تمام تر چیزوں کو دیکھ کر موٹروے فیز ٹو پر کام کا اغاز کیا جائے۔

سوات کے ماہر تعمیرات انجینیئر شوکت شرار نے بتایا کہ موٹروے اگر دریا کے کنارے تعمیر کیا جائے تو علاقے کے لوگوں کو اطمینان ہو جائے گا کہ اُن کی مانگیں پوری ہو گئی ہیں۔

'دریا کے کنارے موٹروے کی تعمیر سے نہ صرف زرعی اراضی بچ جائے گی بلکہ موٹروے کی بدولت ان زمینوں کی حفاظت ہو گی تو دوسری جانب موٹروے سیاحوں کے لئے پر کشش ہو گی۔'

شوکت شرار کہتے ہیں کہ اگر لیز کا وقت بڑھایا جائے تو زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔

حکومتی مؤقف

16 دسمبر کو دورہ سوات کے موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے موٹروے فیز ٹو کے حوالے سے سوال پر بتایا کہ سوات اور مالاکنڈ ڈویژن ماضی میں قدرتی آفات اور دہشت گردی سے کافی متاثر ہوئی ہیں لیکن بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے اقتدار کے مزے لئے اور ان علاقوں کے لئے تعمیر و ترقی کے منصوبے شروع کرنے کے بجائے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استمال کیا۔ میں بذات خود سوات کے مسائل سے آگاہ ہوں جن کے خاتمے کے لئے عملی اور سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بقول وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سوات موٹروے فیز ٹو سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں ترقی کا نیا سفر شروع ہو گا جس سے نا صرف سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سفر میں آسانی ہو گی بلکہ علاقے میں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔

سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان


وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے مزید بتایا کہ موٹروے فیز ٹو منصوبے پر کچھ لوگوں کو تحفظات ہیں۔ ان تحفظات پر حکومتی ٹیمیں ان کے ساتھ بیٹھیں گی لیکن منصوبے پر ہر صورت میں عمل درآمد کیا جائے گا۔ موٹروے فیز ٹو کی تعمیر سے دور دراز پسماندہ و پہاڑی دیہی علاقوں میں ترقی کا نیا دور شروع ہونے کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں سے بذریعہ موٹروے لنک ہونے پر نہ صرف سفری سہولت میسر ہوگی بلکہ وقت کے ضیاع سے بھی بچا جا سکے گا۔

سوات کے مرکزی شہر پی کے 5 سے منتخب ایم پی اے فضل حکیم نے بتایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ زرعی زمینوں کو خراب کیا جائے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ سوات میں موٹروے نہ آئیں۔ اراضی متاثرین کو بھی ریلیف دیا جائے گا اور خیبر پختونخوا اور ملک بھر کے عوام کو بھی ریلیف دیا جائے۔ دونوں کام ایسے طریقے سے کریں گے کہ یا تو گھروں کو مسمار کیا جائے یا زمینوں کو، اس میں سے ایک کام تو کرنا پڑے گا۔

زرعی اراضی کے مالکان نے بھی حکومت کو خبردار کر دیا ہے کہ زرعی زمینوں کے بجائے موٹروے کو دریائے سوات کے کنارے پر تعمیر کیا جائے۔ اگر حکومت نے زرعی زمینوں پر تعمیرات کا آغاز کیا تو ان کو پہلے ہماری لاشوں کے اوپر سے گزرنا پڑے گا۔

شہزاد نوید پچھلے پانچ سال سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے کام کر رہے ہیں۔