Get Alerts

مینگورہ؛ ڈی پی او سوات کے مبینہ 'ہٹ مین' کے ہاتھوں نوجوان قتل

مینگورہ؛ ڈی پی او سوات کے مبینہ 'ہٹ مین' کے ہاتھوں نوجوان قتل
جب ریاست خود اپنے شہریوں کی قاتل بن جائے اور اس کے ادارے خصوصاً سکیورٹی فورسز کو شہری صرف شکار کی مانند نظر آنا شروع ہو جائیں تو اس ریاست کے مستقبل کے بارے میں زیادہ قیاس آرائیاں کرنا ذہنی اذیت اور وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ نہیں۔ ابھی ہم جعلی پولیس مقابلوں میں 444 بے گناہ انسانوں کے قاتل پولیس آفیسر راؤ انوار اور ان کے 16 شریک جرم ساتھیوں کو انسداد دہشتگردی کی عدالت سے بری ہونے پہ ہی رو رہے تھے کہ 23 جنوری کو سوات کے مینگورہ بنڑ کے تھانہ کے اندر پولیس نے طالب علم عبیداللہ خان کا سفاکانہ قتل کر دیا۔

22 سالہ عبیداللہ خان کا تعلق مینگورہ کے ایک معزز خاندان سے تھا۔ عبیداللہ کے ماموں فریدون خان کے مطابق اس رات مقتول حسب روایت ترجمہ قرآن کیلئے محلے کی مسجد میں جا رہا تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پانچ افراد نے اس کو روک کر تلاشی دینے کو کہا۔ عبید اللہ خان نے استفسار کیا کہ آپ لوگ کون ہیں جو میرے گھر کے سامنے مجھ سے تلاشی دینے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ اس تکرار کے دوران فریدون خان بھی وہاں پہنچ گیا لیکن اس دوران ان افراد نے پولیس موبائل بلا کر ماموں بھانجے دونوں کو تھانے پہنچا دیا۔ وہاں پر قاتل فیض اللہ نے اپنا تعارف بطور پولیس اے ایس آئی کے کروایا۔ بقول فریدون خان تھانہ میں انہوں نے ہم پر تشدد شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد عبیداللہ خان کو ایس ایچ او کے کمرے میں لے جا کر فیض اللہ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ قاتل فیض اللہ کو ڈی پی او سوات شفیع اللہ اپنی تعیناتی کے وقت اپنے ساتھ سوات لے کر آئے تھے۔ سوات کے سینیئر صحافی فیاض ظفر کے مطابق واقعہ کے دن تک فیض اللہ کی باقاعدہ ڈیوٹی نہ کسی تھانہ میں تھی اور نہ پولیس لائن میں۔ فیاض نے مزید بتایا کہ قاتل فیض اللہ چوری کی گاڑی ایچ جے 867 میں گھومتا پھرتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے کانجو پولیس سٹیشن کے تہہ خانے میں ایک ٹارچر سیل بھی بنا رکھا تھا۔

اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ڈی پی او نے ان کو پولیس کی وردی میں اپنا ہٹ مین اور غنڈا بنا کر رکھا ہوا تھا اور یہ سب کچھ ڈی پی او سوات کی شہہ پر ہو رہا تھا۔ اس لئے ڈی پی او ان کو بچانے کیلئے اب سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے۔ قاتل فیض اللہ نے 28 جنوری کی سہ پہر 4 بجے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اتنے دن وہ کہاں پر حفاظت میں رکھا گیا تھا، اب یہ کوئی راز نہیں رہا۔ باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈی پی او نے ان کو اپنے سرکاری گھر میں مہمان بنایا ہوا تھا۔ فیاض ظفر نے راقم کو بتایا کہ 28 جنوری کو قاتل فیض اللہ کے سرینڈر کرنے سے پہلے انہوں نے ایک جگہ پر فون کر کے بتایا تھا کہ اگر آج قاتل کو گرفتار نہیں کیا گیا تو وہ سوشل میڈیا پر اس جگہ کا انکشاف کر دیں گے جہاں پر وہ مہمان بنا بیٹھا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس اپنے پیٹی بند قاتل بھائی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی نظروں میں ریاست اور اس کے اداروں کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ وہی محکمہ جو اپنی بدعنوانی اور شر انگیزیوں کی وجہ سے بدنام ہے وہ ڈی پی او کی نگرانی میں لائے ہوئے کرایے کے قاتل پولیس افسر کے خلاف کس قسم کی تحقیقات اور تفتیش کر سکتا ہے؟ اب تک کے حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ نیتجہ وہی راؤ انوار والے کیس جیسا ہی نکلے گا۔

اس میں عوام کو کیا کرنا چاہئیے؟ کیا عوام پولیس سمیت دیگر فورسز کو غنڈوں کے مسلح جتھے سمجھ کر ان سے خود ہی اپنی حفاظت کا بندوبست کرے؟ کیونکہ کوئی احتساب، انصاف اور بازپرس نہ ہونے کی صورت میں یہ نام نہاد محافظ عوام کی عزت، جان اور مال کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ اگر عوام احتجاج کر کے آواز نہ اٹھاتے تو عبیداللہ خان کو بھی اس روز دہشت گرد قرار دے کر پولیس فائل کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جاتا۔

یاد رہے کہ پچھلے سال اکتوبر میں مینگورہ بائی پاس پر اسی قسم کا ایک دل خراش واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک حاضر سروس کیپٹن نے مالی لین دین کے تنازعہ میں ایک فریق سے دس لاکھ روپے لے کر ایک باپ بیٹے کو قتل کر کے سی ٹی ڈی سے انہیں دہشت گرد قرار دلوایا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف مقامی پولیس کے ساتھ مل کر مقتولین کو ایک مہینہ سے رحیم آباد پولیس سٹیشن میں بلوا کر ان پر تشدد کرتا تھا اور واقعہ کے دن وہ بھی سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا اور چوری کی گاڑی میں سرکاری اسلحے سمیت اپنے ماتحتوں کے ساتھ مقتولین کی جگہ پر لے کر آیا تھا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ موجودہ ڈی پی او اس واقعہ کے بعد تعینات ہوا تھا جب عوامی احتجاج پر اس کے پیش رو کا تبادلہ ہوا تھا۔

صورت حال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ فوج پر شاعری شروع ہو گئی ہے؛ 'اب مجھے اپنے محافظوں سے ڈر لگتا ہے'۔ اب ریاست کو سوچنا چاہئیے کہ ایسے واقعات چھپانے سے نہیں چھپتے۔ ایک طرف مہنگائی اور غربت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور دوسری طرف ریاستی اداروں کی لاقانونیت ہے لیکن کب تک ایسا چلے گا؟ بقول شاعر؛
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

اگر حکمران اس ریاست کو پھر سے کسی حادثے کا شکار نہیں کرنا چاہتے تو اس روش کے خاتمے کا فوری بندوبست کریں۔ اگر راؤ انوار، کیپٹن اور فیض اللہ جیسے چند وردی پوش بھیڑیوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے تو باقیوں کیلئے سبق ہوگا، جیسا کہ ایک چینی کہاوت ہے کہ ایک کو مار کر ہزاروں کو ڈراؤ۔

تقاضا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اور خصوصاً سوات سے نومقرر صوبائی وزیر محمد علی شاہ مقتول کو انصاف دلانے کیلئے اس کیس میں خصوصی دلچسپی لیں۔ سردست ڈی پی او شفیع اللہ کو تبدیل نہیں معطل کر کے ان کے خلاف اعانت قتل کا مقدمہ درج کر کے انہیں شامل تفتیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس کیس کی تفتیش و تحقیق ہائی کورٹ کی نگرانی میں کروائی جائے۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔