شاعری انسان کی حس جمالیات کو تروتازہ رکھنے کے لئے آکسیجن کی طرح ضروری ہوتی ہے۔ تخیلات اور افلاک کی پرواز کی کوئی حد نہیں ہوتی اور ایک اچھا شاعر ہمیشہ ہی سے حدود و قیود کی پرواہ کیے بنا افکار و خیالات کو لا محدود اڑان بخشتا ہے۔ اردو شاعری میں یوں تو بے حد بڑے بڑے اور نامور شعرا پائے جاتے ہیں جن کا کلام صدیوں اور دہائیوں کے بعد آج بھی زندہ ہے۔ ہم اگر گذشتہ چند دہائیوں کا مشاہدہ شاعری کے حوالے سے کریں تو اس افق پر فیض احمد فیض، احمد فراز، امجد اسلام امجد، حبیب جالب ،افتخار عارف، پروین شاکر اور محسن نقوی جیسے ستارے چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان تمام ناموں میں سے ایک نام محسن نقوی ایسی شخصیت اور شاعر ہیں جنہیں نقادوں اور ادب کے اجارہ داروں نے ہمیشہ زیادتی کا شکار بناتے ہوئے وہ مقام عطا نہ کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ محسن نقوی نے اپنی شاعری میں روایتی محبوب اور محبت یا ہجر و فراق کے نشیب و فراز بیان کرنے کے علاہ سماجی زیادتی، معاشرتی بے حسی اور عالم انسانیت کے امن کو بھی موضوع سخن بنایا۔ ایک شاعر اس وقت پختگی یا بلوغت کی سطح پر پہنچتا ہے جب وہ اپنی ذات کے غم اور حادثات سے باہر نکل کر معاشرے اور انسانیت کے بارے میں روانی سے تحریر کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ محسن نقوی کی شاعری میں پختگی اور ان کے اسلوب بیاں کا منفرد ہونا انہیں عہد حاضر کے شعرا سے یکسر مختلف اور بے حد بلند مقام دیتا ہے۔ ان کو محض ایک مخصوص فرقے سے تعلق ہونے کے باعث اور ان کی شاعری میں حسین کے غم اور کربلا کے ذکر کی وجہ سے انہیں ایک مخصوص فرقے کا شاعر اور عالم ہونے کی سند ادب کے ٹھیکیداروں نے عطا کرنے کی کوشش ہمیشہ ہی کی۔
محسن نقوی کا قصور شاید یہ تھا کہ انہوں نے جب لکھنا شروع کیا تو ملکی تاریخ کا بد ترین آمر ضیاالحق اس وقت برسر اقتدار تھا اور ملک میں فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے بیج بو رہا تھا۔ زندگی کے تمام شعبوں کی طرح علم و ادب میں بھی ضیاالحق اور اس کے حواری اپنے من پسند افراد بٹھا چکے تھے۔ چنانچہ ادیبوں اور شاعروں کے پاس سوائے وصل و فراق کا ذکر کرنے یا پھر ادبی آمروں کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے کوئی چارا نہ تھا۔ لیکن محسن نقوی کا شمار ان افراد میں ہوتا تھا جو حسین کے قافلے میں شریک تھے اور یزید کے ہاتھوں پر بیعت کرنے پر موت کو ترجیح دیتے تھے۔ محسن نقوی نے ہمیشہ نقادوں اور ادبی اجارہ داروں کے بنائے گئے خود ساختہ قوانین کو ماننے سے انکار کیا اور نتیجتاً اس عظیم شاعر کو اس کے اصل مقام اور قد کاٹھ سے ہمیشہ چھوٹا ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ خود احمد فراز بھی محسن نقوی کے مداحوں میں سے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ محسن نقوی ایک بہت بڑا شاعر ہے، جسے تعصب کی عینک لگا کر چھوٹا ظاہر کیا جاتا ہے۔
محسن نقوی 5 مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام والدین نے غلام عباس رکھا جسے بعد میں انہوں نے خود تبدیل کر کے غلام عباس محسن نقوی رکھ لیا۔ گورنمٹ کالج ملتان سے گریجویشن کرنے کے بعد محسن نقوی نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ محسن نقوی کی شاعری کا مجموعہ کلیات محسن نقوی کے نام سے موجود ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 11 کتب تحریر کیں اور ہر شاعری کی کتاب میں موضوع سخن انسانیت اور معاشرے میں موجود تلخ حقیقتوں پر مبنی رہا۔ ان کی تصانیف میں عذابِ دید، خیمۂِ جاں، برگِ صحرا، بندِ قبا، موجِ ادراک، طلُوعِ اشک، فُراتِ فکر، ریزہ ریزہ حرف، رختِ شب، ردائے خواب، اور حقِ اِیلیا شامل ہیں۔ 1994 میں محسن نقوی کو صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
محسن نقوی کی شاعری کے کئی مختلف پہلو ہیں۔ رومانوی پہلو جو کہ ہر شاعر کی تصانیف میں شامل ہوتا ہے محسن نقوی کے ہاں بھی موجود تھا۔ محسن نقوی نے رومانوی شاعری میں غزل کی کلاسیکل اٹھان کو تو نہ چھوڑا لیکن اسے ایک نئی جدت عطا کی۔
کئی اُلجھی رُتوں کے بعد آیا
تیری زلفیں سنور جانے کا موسم
اردو نظم میں بھی محسن نقوی نے کمال مہارت سے سخن آرائی کی۔
میں نے اس طور تجھے چاہا جاناں جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے۔۔
کیوں رات کی ریت میں بکھری ہوئے تاروں کے کنکر چنتی ہو۔۔
ہوا صبح دم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی آنکھوں جیسی لاتعداد نظمیں آج بھی نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہیں۔
محسن نقوی کی شاعری میں بھی اہل بیعت سے محبت کا رنگ نمایاں رہا۔ ان کی شاعری کا سب سے نمایاں حصہ انسانیت اور معاشرے کا درد تھا۔
کرب محسن کی مسافت کے خداوند جلیل
خاک زادوں کو سدا بخت سکندر دینا
جیسا بڑا اور اعلیٰ دعائیہ شعر جو کہ تمام آدم زادوں کیلئے تھا محسن نقوی جیسا شاعر ہی لکھ سکتا تھا۔
مجھے خبر ہے کہ جنگ ہو گی
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
انکار کیا کرے گی ہوا میرے سامنے
ایک بھکارن
جیسی کئی لاتعداد نظمیں اور غزلیں انسانوں کی تکالیف اجاگر کرتیں اور امن کی خواہش لیے آج بھی محسن نقوی کے انسانیت دوست سوچ کا واضح ثبوت ہیں۔
نقادوں اور ساتھی شعرا کے نازیبا رویوں سے محسن نقوی نے تنگ آنے کے بجائے اپنی شاعری کے ذریعے ان کی نا انصافیوں کو بھی اجاگر کیا۔
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
یہ طویل نظم محسن نقوی کی ذات ان کی زندگی کے درد اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو خوب اجاگر کرتی ہے۔
محسن نقوی جس دور میں شاعری کرتے تھے وہ ایک بدترین آمر ضیاالحق کا دور تھا چنانچہ ہر بڑے شاعر کی طرح ان کی شاعری میں بھی حاکم وقت کے خلاف مزاحمتی رنگ موجود رہا۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے ہم مقتل کو سرخرو کر کے
انکار کیا کرے گی ہوا میرے سامنے
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
جیسی لاتعداد غزلیں اس دور کے جبر اور گھٹن کو بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شاعری کے علاوہ محسن نقوی ایک اعلیٰ پائے کے مقرر اور ذاکر کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اور اہل بیعت کی محفلوں میں اپنے انداز خطابت اور مرثیوں سے ایک رقت آمیز ماحول طاری کر دیتے تھے۔
محسن نقوی کو 15 جنوری 1996 کو اقبال ٹاؤن لاہور میں گولیوں سے چھلنی کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ محسن نقوی کو مارنے والے یہ بات بھول گئے کہ اہل قلم اپنے الفاظ اور سوچ کے سہارے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ محسن نقوی آج بھی اپنی شاعری کی صورت میں ہم میں موجود ہیں اور اس امر کا ثبوت بھی کہ امن و محبت کے نام لیواؤں کو نفرت یا جہالت کے اندھیرے کبھی بھی نہیں مٹا سکتے۔ البتہ ادبی دنیا کی بے حسی اور من پسند افراد کو سراہنے کی عادت کا تدارک ضرور ہونا چاہیے۔ جہاں بہت سے سستے شاعر شاعری کی صنف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں، محسن نقوی کو کم سے کم ان کی برسی پر خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اکیڈمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ان کی یاد میں ایک مشاعرے کا بندوبست ضرور ہونا چاہیے۔ زندہ معاشرے اپنے ادیبوں، فنکاروں اور ہیروز کو خراج عقیدت پیش کر کے ان کے تخلیقی کاموں کو تا ابد حیات رکھتے ہیں۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔