ہندوستان کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ مہاتما کا مرنا ضروری تھا

ہندوستان کے موجودہ حالات بتاتے ہیں کہ مہاتما کا مرنا ضروری تھا
گاندھی اپنی موت سے 6 ماہ قبل ہی اپنے مرنے کی نوید سنا چکے تھے۔ "میں اس وقت کے دیکھنے کے لئے زندہ رہنا نہیں چاہتا جب ہندوستان کی انسانیت وحشت میں بدل جائے۔"

30 جنوری 1948 وہ دن تھا جب انسانیت کا علمبردار موہن داس گاندھی اپنے اس ملک میں جس کو اس نے بدن پر دو سفید چادریں اوڑھے انگریزوں سے آزاد کروایا تھا قتل کر دیا گیا۔ ہم ہندوستان اور پاکستان میں آج بھی نئی نسل کو یہ پڑھاتے ہیں کہ ہندو اور مسلم فسادات کی بنا پر تقسیم کا عمل ہوا مگر ہم یہ نہیں بتاتے کہ آزادی کے بعد بھی ہندو خود ہندوئوں اور مسلمان خود مسلمان کو مارنے پر کیوں تلے رہے۔ مہاتما گاندھی کو مارنے والا کوئی مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی پاکستان میں پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مارنے والا کوئی ہندو تھا۔

گاندھی کے نظریات نے گاندھی کو مروا دیا

موہن داس گاندھی یوں تو ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کی تعلیم قریبا ہر بڑے مذہب پر تھی۔ گاندھی نے اپنی کئی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ قران مجید کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھ چکے ہیں اور وہ اس کو الہامی کتاب سمجھتے ہیں۔ گاندھی مذہی رواداری کا پرچار کرتے تھے اور آخری دم تک کرتے رہے۔

مہاتما گاندھی ہندو مسلم اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی کو کس نظریے سے دیکھتے تھے اس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب "مذہب اور دھرم" میں بہت کھل کر کیا ہے۔ گاندھی نے مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین ہونے والی لڑائی میں عالمی طاقتوں کو منصف رکھنے پر بھی کھل کر بات کی ہے۔ حقیقت یہ کہ ہم غلام ہو گئے ہیں اس لئے آپس (ہندو،مسلم) میں لڑتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی تیسرا فریق (امریکہ،برطانیہ،اقوام متحدہ) ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرے۔

مہاتما گاندھی (ہند سواراج صفحہ 62) 22 نومبر 1908

اس وقت بھارت میں برسر اقتدار مذہبی جنونیت والی سرکار کے نظریات کو آج سے 75 سال قبل گاندھی نے بھانپتے ہوئے اسی کتاب میں ایک جگہ لکھا کہ "اگر ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو ہی رہیں، تو وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ تمام ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی جنہوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا ہے آپس میں ہم وطن ہیں انہیں متحد ہو کر رہنا پڑے گا۔ خواہ اپنے مفادات ہی کے لئے ایسا کرنا پڑے۔ دنیا کے کسی حصے میں ایک قومیت اور مذہب کی یکسانیت لازم و ملزوم چیز نہیں ہے اور نا ہی ہندوستان میں کبھی ایسا ہو گا۔"

یہاں تک کہ گاندھی نے بعد از تقسیم بھی مذہبی جنونی ہندوئوں کو آڑے ہاتھ لیا اور کھل کر ان کی اس بات پر ہرزہ سرائی کی جنہوں نے سینکڑوں مساجد کو شہید کیا تھا۔ گاندھی نے 30 نومبر 1947 کو کہا کہ "میں اس واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ فساد کے دوران جہاں تک مجھے علم ہے تقریباً 137 مساجد توڑی گئی ہیں، ان میں سے بعض کو مندر بنا لیا گیا ہے۔ ایک ایسی مسجد کنلٹ پیلس کے پاس ہے جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ اس پر ایک جھنڈا اڑ رہا ہے اور اندر ایک بت رکھ کر مندر بنایا گیا ہے۔ "میں مساجد کی ایسی تمام بے حرمتی کو ہندو دھرم اور سکھوں کے مذہب پر دھبہ سمجھتا ہوں، میری رائے میں یہ عمل بالکل ناخدا ترسی کا ایک عمل ہے"۔

گاندھی چونکہ خود اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ وہ قرآن کو کئی بار پڑھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے قرآن اور اسلام پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا کہنا تھا مجھے اسلام میں مجموعی طور پر کہیں بھی فساد اور لڑائی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ میں نے اسلام کو اتنا ہی سمجھا ہے کہ وہ امن کا مذہب ہے۔ البتہ گاندھی نے قرآن کی ان آیات کا ذکر بھی کیا ہے جہاں پر کفار کو قتل کرنے کا تذکرہ ہے۔ گاندھی ان آیات کے بارے میں ہندوئوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ "جو لوگ قرآن کی چند آیات کو ہمارے خلاف پیش کرتے ہیں، ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا اس قسم کے حوالے ویدوں سے بھی نہیں دئیے جا سکتے؟"

"دیگچی کو یہ حق نہیں کہ کیتلی کو کالا کہے"

گاندھی انگریز کے تسلط کی بجائے ہند مسلم بھائی چارے پر زور دیتے تھے۔ موہن داس گاندھی یوں تو قبل از تقسیم اس بات پر زور دیتے رہے کہ تقسیم مت ہو اور ہندو مسلمان مل کر بھارت میں رہیں اور اتحاد سے دنیا اور خصوصاً برٹش راج کو شکست دیں۔ گاندھی نے زیاہ تر بھائی چارے کا سبق ہندوئوں کو دیا کہ وہ مسلمانوں سے بہتر رویہ رکھنے میں پہل کریں۔ اس حوالے سے گاندھی نے بار بار بھائی چارے پر زور دیا۔ 1908 میں گاندھی نے ایک جگہ کہا کہ "اگر دو بھائی صلح کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کیا تیسرے فریق کے لئے ممکن ہے کہ وہ ان کو جدا کر سکے؟ لیکن اگر وہ فساد کے مشوروں پر کان دھریں گے تو میں ان کو بیوقوف کہوں گا۔ اگر انگریز ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر سکے تو ہمیں انگریز کو الزام دینے کی بجائے اپنی حماقت کو الزام دینا چاہیے۔ مضبوط تعلقات قائم کرنے کا کام ہندوئوں کے لئے زیادہ آسان ہے کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں اور زیادہ پڑھا لکھا ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ لہذا وہ مسلمانوں سے اپنے خوشگوار تعلقات کو ان حملوں سے بچانے کے لئے بہتر انتظام کریں"۔

گاندھی کو قتل کرنے والا ناتھو رام گوڈسے کا تعلق کس جماعت سے تھا؟

تیس جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کے قتل کے خلاف ردعمل نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو یکم فروری کو یہ اعلان کرنے پر مجبور کیا کہ ان کا قاتل ناتھورام گوڈسے اس تنظیم سے "کبھی بھی کسی طرح سے جڑا" نہیں تھا۔ گاندھی کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران، گوڈسے نے عدالت کو بتایا کہ اس نے آر ایس ایس کو چھوڑ کر ہندو مہاسبھا میں شمولیت اختیار کی کیونکہ وہ ہندوؤں کے "منصفانہ حقوق" کے لیے لڑنا چاہتے تھے۔ اس طرح ایک خرافات نے جنم لیا۔

اس افسانے کو امریکی محقق جے اے کرن جونیئر نے تقویت بخشی، جس نے 1951 میں دعویٰ کیا کہ گوڈسے نے 1930 میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اور 1934 میں ہندو مہاسبھا کا رکن بننے کے لیے اسے چھوڑ دیا تھا۔ کرن نے موقف اختیار کیا کہ وجہ یہ تھی کہ آر ایس ایس کے بانی کے بی ہیڈگیوار نے اپنی اس وقت کی نئی تنظیم کو سیاسی تنظیم میں تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بات کا انہوں نے کوئی حوالہ پیش نہ کیا۔

اس تمام افسانے کا ڈراپ سین بھارتی صحافی دھریندر کے جھا نے اپنی کتاب "گاندھی کا قاتل" میں بہت خوبصورتی سے کیا اور بتایا کہ گوڈسے ہمیشہ سے آر ایس ایس کا رکن تھا اور آخری دم تک رہا۔ یہ سارا کھیل آر ایس ایس نے اپنی ساکھ بچانے کے لئے رچایا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی بی جے پی ہو یا آر ایس ایس وہ ناتھو رام گوڈسے کی موت کا دن احترم سے مناتے ہیں۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@