خٹک نے نفسیاتی حد عبور کر لی، پارٹی میں لوگ سمجھتے ہیں گھیرا تنگ ہو رہا ہے

خٹک نے نفسیاتی حد عبور کر لی، پارٹی میں لوگ سمجھتے ہیں گھیرا تنگ ہو رہا ہے
اعداد جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن کبھی کبھی۔

PTI حکومت منی بجٹ پاس کروانے پر خوش ہے۔ لیکن یہ خوش نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے منی بجٹ کو حکومت کی بقا کا معاملہ سمجھ لیا تھا۔ لیکن وفاقی دارالحکومت میں یہ کوئی راز نہیں تھا کہ اپوزیشن پہلے ہی اس بل کے پاس ہونے کے لئے راضی تھی۔ تمام سیاسی حصے داروں کو بتا دیا گیا تھا کہ IMF کے پاس واپس جانا تزویراتی مجبوری تھی۔ کسی کو اختلاف نہیں تھا۔ بات تھی صرف اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی۔ اپوزیشن نے ہر ممکن فائدہ اٹھایا۔

پورا معاملہ اسی طرح نمٹایا گیا جیسے امید تھی۔ اپوزیشن کو ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا کہ صورتحال کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اس بل کو پاکستانی عوام کے ساتھ ہوئے بدترین سانحہ بنا کر پیش کرنا ہے۔ بل میں ویسے بھی یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے کے لئے وافر مواد موجود تھا۔ مہنگائی کی تلوار اپوزیشن نے خوب گھمائی، یہ جانتے ہوئے کہ حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب شاید ہی ہو۔ اور جواب واقعتاً نہیں تھا۔

وزرا شہریوں کو یہ باور کروانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس بل کے نتیجے میں مہنگائی کی نئی لہر نہیں آئے گی۔ اس پر انہوں نے اپنا خوب تمسخر اڑوایا ہے۔ اپوزیشن جانتی ہے کہ اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، بس بیٹھ کر حکومت پر ہونے والی تنقید کا مزہ لینا ہے۔

پہلے سوچا گیا کہ اپوزیشن اس بل پر خوب شور مچائے گی، حکومت کے خود کو لگائے گئے زخموں پر مہنگائی کا نمک ملے گی اور پھر واک آؤٹ کر دے گی۔ حکومت بل پاس کروا لے گی اور نقصان کا سامنا کرے گی۔ بعد میں فیصلہ ہوا کہ اپوزیشن بائیکاٹ کرنے کے بجائے بل کے خلاف ووٹ دے گی، اور اپنی تعداد سے احتجاج ریکارڈ کروائے گی، اور سیاسی فائدہ نچوڑے گی۔

ان کی منطق کچھ یوں تھی: اس تزویراتی قانون سازی کے لئے رابطہ کرنے والوں کی بات مان کر رابطہ کرنے والوں کو ایک مثبت پیغام جائے گا جب کہ اس سے ان کے مفادات کو کوئی زک بھی نہیں پہنچ رہی۔ اس سے انہیں حکومت کو رگڑنے کا موقع بھی ملے گا اور اس ووٹ میں شکست سے سیاسی نقصان بھی کوئی نہیں۔ دونوں صورتوں میں ان کا تو فائدہ ہی تھا۔

یہ ہو گیا، اب آگے کیا؟ اب وہی ہوگا جس کی امید کی جا رہی ہے۔ قانون بن جائے گا تو مہنگائی ہوگی۔ پٹرول کی قیمتیں پہلے ہی ہر مہینے بڑھا کر مہنگائی کی بڑھتی شرح کو مزید تقویت دی جاتی ہے۔ فروری میں شاید بدترین معاشی صورتحال کا سامنا ہوگا۔ تب ہی اپوزیشن سڑکوں پر اسلام آباد کی طرف اپنے لانگ مارچ کے لئے ماحول گرم کرنا شروع کرے گی۔ PDM پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کے حوالے سے 25 جنوری کو فیصلہ کن مشاورت کرے گی۔ اگر تو اس کو حکومت کی مکمل تنہائی کا یقین ہوا تو اور بات ہے ورنہ یہ اس تاریخ کو اپنے واضح فیصلے کا اعلان نہیں کرے گی بلکہ حکومتی اتحادیوں اور اس کے اپنے ناراض اراکین سے بات کرنے کا اعلان کرے گی۔

یہ ساری کارروائی اپوزیشن کے خیال کے مطابق اس تاثر کو مضبوط کرنے میں مدد دے گی کہ حکومت ڈھلوان سے لڑھک رہی ہے اور خود کو روکنے کا اس کے پاس کوئی طریقہ نہیں۔ یہ تاثر اتحادیوں کو مزید ہتھے سے اکھاڑے گا اور حکومت کے ناراض اراکین کو بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے مزید تشویش میں مبتلا کرے گا۔ جمعرات کو عمران خان اور پرویز خٹک کے مابین ہوئی تلخ کلامی نے پہلے ہی حکومتی بنچوں پر بیٹھے بہت سے لوگوں میں بے یقینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ دراڑیں اب گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کو لگتا ہے کہ یہ اب ان دراڑوں کو قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کے لئے بہتر انداز میں استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

خٹک والا معاملہ اہم ہے۔ پہلے تو اس لئے کہ حکومت کے لئے اس واقعے کی اس سے بری ٹائمنگ ہو نہیں سکتی تھی کیونکہ اس نے ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ حکومت اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کی وجہ اندرونی اور بیرونی دونوں دباؤ ہیں۔ دوسرے، اس سے زیادہ خطرناک بندے کی طرف سے یہ پیغام نہیں آ سکتا تھا۔ خٹک کا نام کئی بار وزیر اعظم عمران خان کے متبادل کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ وہ واقعتاً چیلنجر نہیں ہیں لیکن اگر ایسے افراد کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا اتنا بڑا پروفائل ہو کہ وہ متبادل کے طور پر پیش کیے جا سکیں تو ان کا نام سرِ فہرست ہوگا۔ وہ بڑے کائیاں سیاستدان ہیں اور ان میں وہ ٹھہراؤ ہے جو ایک electable اور سابق وزیر اعلیٰ ہونے سے آتا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی پوری محنت سے خٹک کو ناراض کیا ہے۔ ان کی پانچ سالہ حکومت نے PTI کو خیبر پختونخوا میں دوبارہ حکومت بنانے جیسی نادر کامیابی سے نوازا۔ خٹک وزیر اعلیٰ ہی رہنا چاہتے تھے۔ عمران خان نے انکار کر دیا۔ بدلے میں خٹک نے وزارتِ داخلہ کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے انکار کر دیا۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ انہوں نے خٹک کو وزیرِ دفاع کا عہدہ دیا جو محض دکھاوے کی ایک وزارت ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے، خٹک نے آج نہیں تو کل جوابی کارروائی تو کرنا ہی تھی۔ اور جمعرات کو جب یہ جوابی کارروائی ہوئی تو اس کا درجۂ حرارت بہت ہی بلند تھا۔

اصل بات وہ نہیں جو انہوں نے کہی بلکہ یہ ہے کہ کس سے کہی۔ PTI اپنی گروہ بندی اور اندرونی لڑائیوں کے لئے مشہور ہے۔ سالوں سے یہ ان اندرونی لڑائی جھگڑوں سے جھوجھ رہی ہے۔ لیکن کبھی کسی نے خود پارٹی لیڈر پر انگلی نہیں اٹھائی۔ خٹک نے لہٰذا براہ راست خان پر حملہ کر کے ایک نئی نفسیاتی حد عبور کی ہے۔

یہ واقعہ اپنے آپ میں شاید اتنا اہم نہ ہوتا لیکن اس نے حکومی جماعت کے اندر اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ ہم چاروں طرف سے گھر چکے ہیں۔ یہ سوچ مزید شدت پکڑے گی اگر آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سڑکوں اور بازاروں میں دباؤ بڑھا۔ پھر پارٹی کو اگر خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے اگلے مرحلے میں شکست کا سامنا ہوا اور اس کے فوراً بعد پنجاب میں اس کا مکمل صفایا ہو گیا تو یہ شدید مشکل میں پھنس جائے گی۔

اب وزیر اعظم خود کو ایک ایسی صورتحال میں پاتے ہیں کہ انہیں موجودہ آپشنز میں سے سب سے کم بری آپشن کو چننا ہے۔ کیا وہ سمجھداری سے فیصلہ کریں گے؟




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئیں کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔