تحریک انصاف کے بغیر عام انتخابات کتنے معتبر تصور ہوں گے؟

ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی یہ کشیدگی عام عوام کی سیاسی، سماجی و معاشی زندگی کو گذشتہ دو سالوں سے شدت سے متاثر کر رہی ہے جبکہ عوامی مسائل کو مُسلسل نظرانداز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں نے عوامی آزادی اظہار رائے پر بھی ایک ان کہے خوف کو مسلط کر دیا ہے۔

تحریک انصاف کے بغیر عام انتخابات کتنے معتبر تصور ہوں گے؟

فروری 2024 میں پاکستان میں 16ویں عام انتخابات متوقع ہیں لیکن 2022 سے پاکستان میں جاری سیاسی بحران نے عام انتخابات میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپور شمولیت اور ووٹرز کی آزادی رائے پر سوال اٹھا دیا ہے۔

حالیہ سیاسی منظرنامے میں پاکستان تحریک انصاف کو ہر روز ایک نئے امتحان کا سامنا ہے جس میں جماعت کی مرکزی قیادت و لاتعداد کارکنان کی متعدد کیسز میں پے درپے گرفتاریاں، انتخابی نشان کی منسوخی اور متعدد امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے جیسے مسائل سے پی ٹی آئی نبردآزما ہے۔

انتخابات 2024 کے شیڈول کے تحت ملک بھر سے 856 قومی و صوبائی نشستوں پر امیدواران نے اپنے کاغذات جمع کروائے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے لئے 7 ہزار 473 کاغذات نامزدگی موصول ہوئے جن میں سے 1 ہزار 42 کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسران نے مسترد کر دیے جبکہ مجموعی طور پر تمام صوبائی اسمبلیوں کے لئے 18 ہزار 478 کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے جن میں سے 2 ہزار 216 کاغذات نامزدگی رد کیے گئے۔

مسترد ہونے والے کاغذات نامزدگی میں سے قومی و صوبائی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے 733 متوقع امیدواران کے کاغذات نامزدگی 30 دسمبر 2023 کو مسترد کر دیے گئے۔ اس صورت حال نے ملکی سیاسی منظرنامے میں جاری بے چینی میں اضافہ کر دیا۔

5 جنوری کو آزاد سینیٹر دلاور خان نے سکیورٹی خدشات کو بنیاد بناتے ہوئے سینیٹ میں قومی انتخابات کو ملتوی کروانے کی قرارداد پیش کی، سینیٹ کے 97 ارکان میں سے موجود 14 ارکان نے حق میں ووٹ دیا جبکہ ایک نے مخالفت کی۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا کہنا ہے کہ صرف گذشتہ 60 دن سے غیر قانونی طریقے سے مُسلط نگران حکومت سے انہیں سخت ناامیدی کا سامنا ہے کیونکہ ان کے امیدواروں کے ساتھ ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر کے باہر ناروا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جبکہ 14 سینیٹرز کی مدد سے عام انتخابات کو ملتوی کرنے کی منظور کروائی جانے والی اس قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے انتخابات مقررہ تاریخ پر منعقد کروانے کی پرزور اپیل کی اور اعلان کیا کہ ان مشکل حالات میں بھی پی ٹی آئی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔

پی ٹی آئی کے ترجیحی امیدواروں کے کاغذات مسترد کرنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس معاملے کا ادراک تھا اور ان کے امیدواران کے قانونی مشیر اس حوالے سے اپنے تئیں اپیلز بھی تیار کر چکے تھے، جس کے باعث ان کے امیدواران (حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، فردوس شمیم نقوی، حسنین چوہان، تابش، ارسلان خالد) کے کاغذات پر اعتراضات دور کرنے کے بعد منظور ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ضلع خانیوال میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے متوقع امیدواراور این اے 146 سے سابق ٹکٹ ہولڈر عابد محمود کھگہ، کبیروالہ پی پی 212 سے شہباز سیال، تلمبہ پی پی 207 سے مشتاق احمد کھگہ اور کچا کھوہ پی پی 209 سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی فیصل خان نیازی کے کاغذات مسترد کئے گئے ہیں۔ اسی طرح فیصل خان نیازی کو پاکستان آمد پر، عابد محمود کھگہ کو کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ شہباز سیال کی تلاش میں پولیس خاصی سرگرم دکھائی دی۔

عابد محمود کھگہ کے بھائی و سابق یونین کونسل ناظم طاہر محمود کھگہ کا کہنا ہے کہ کاغذات نامزدگی جب جمع کروائے جا رہے تھے تب ریٹرننگ آفیسر نے انہیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا کہ ان کے کاغذات میں کوئی کمی بیشی ہے۔ اس حوالے سے ان کی دو مرتبہ اپیل مسترد کی جا چکی ہے جبکہ وہ تیسری مرتبہ اپیل دائر کر چکے ہیں۔ نگران حکومت و اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں اسی رویے کی امید تھی۔

ان کا کہنا ہے الیکشنز میں رکاوٹ ڈالے جانے کا یہ پہلا حربہ تھا کہ مضبوط امیدواروں یا پارٹی کی پہلی ترجیح میں شامل امیدواران کے کاغذات آخری تاریخ سے پہلے ہی بل جمع نہ کروانے، ایف آئی آر میں نام آنے، فائلر نہ ہونے جیسے غیر متعلقہ و کمزور اعتراضات پر مسترد کر دیے جائیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں پارٹی کے سرگرم کارکنان کی گرفتاری کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گا تا کہ ووٹرز میں خوف و ہراس پھیلایا جائے اور وہ انتخابات سے ازحد ممکن کنارہ کشی اختیار کر لیں۔

عابد محمود کھگہ کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے ترجیحی امیدوار انتخابات کا حصہ نہ بھی بن سکے تو ہر حلقے میں ان کے تین تین امیدوار موجود ہیں۔ جماعت کی عوامی مقبولیت اس وقت عروج پر ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ عوام ان کے کسی بھی دوسرے امیدوار اور نشان کو اتنی ہی پذیرائی دے گی کیونکہ پی ٹی آئی پاکستان کی بہتری کے لئے کام کرنے کی خواہاں ہے۔

ضلعی نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی سید کرار حیدر شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ سب پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ یہ سب ضیاء الحق دور میں بھی ہوتا رہا ہے جب پیپلز پارٹی سے ان کا انتخابی نشان تلوار واپس لے کر تیر کا نشان الاٹ کر دیا گیا تھا۔ جبکہ مشرف دور میں شوکت عزیز کے مقابلے میں جاوید ہاشمی نے بھی جیل میں رہتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور وہ وزیر اعظم کے امیدوار تھے۔

انتخابی عمل کے ماہر قانون دان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ راؤ اکرم خرم کا کہنا ہے انتخابی عمل کو سرانجام دینے کے لئے انتظامی محکموں کے سربراہان کو بطور ریٹرننگ افسر تعینات کرنا اس عمل کو دُشوار بنا رہا ہے جس کی پہلی مثال یہ ہے کہ انتخابی عمل میں قانونی رو سے سوچنے کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ جبکہ انتظامی محکموں کے افسران دو دن کی انتظامی اور ایک دن کی قانونی تربیت لے کر اس کا عملی مظاہرہ بہتر انداز میں نہیں کر سکتے۔

اس امر کو کاغذات نامزدگی سے منسلک کرتے ہوئے دیکھا جائے تو گذشتہ انتخابات کی نسبت اس مرتبہ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی شرح محض 12 فیصد تھی جو گذشتہ انتخابات کی نسبت 2 فیصد کم تھی۔ لیکن اس میں پریشان کن امر یہ تھا کہ مسترد کئے جانے والے کاغذات کی اکثریت کا تعلق ایک مخصوص جماعت کے امیدواران کا تھا۔

یہ امر کسی کمزور منصوبہ بندی کا بھی عندیہ دیتا ہے کیونکہ کاغذات مسترد کرنے والے ریٹرننگ افسران نے ایک ہی طرز کے لیکن غیر متعلقہ عدالتی فیصلوں کو بنیاد بناتے ہوئے کاغذات مسترد کئے جو بیشتر جگہوں پر پہلی ہی اپیل میں منظور بھی ہو گئے۔ اس کے باعث اس عمل میں وقتی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ اس نوعیت کی کاغذات کی جانچ پڑتال دیگر جماعتوں کے امیداواران کی دیکھنے میں نہیں آئی۔ جبکہ ریٹرننگ افسران نے بھی اس حوالے سے عذر پیش کیا کہ 30 تاریخ تھی کاغذات منظور یا مسترد کرنے کی جبکہ متعلقہ اداروں کی رپورٹس انہیں 29 تاریخ کو موصول ہوئیں جن میں معمولی اعتراضات کو دور کرنے یا اس پر بات کرنے کا موقع بھی نہیں ملا اور کاغذات مسترد کیے گئے۔

رواں ماہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین عمران خان کا دوران قید لکھا گیا خط معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے انتخابات کے حوالے سے موجودہ حالات کو بنیاد بناتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو سیاسی عدم استحکام کو جنم دے گی اور ملکی معیشت مزید غیر مستحکم ہو گی۔ اس کا واحد حل آزاد و منصفانہ انتخابات ہیں جس کے لئے سبھی سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواران کو مساوی بنیادوں پر آزادانہ مہم چلانے کی آزادی دینا ان کا بنیادی سیاسی حق اور جماعت کا مطالبہ ہے۔

عمران خان کے ان خدشات کو سابق سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر کے مؤقف سے تقویت ملتی ہے جس کا اظہار انہوں نے ایک ٹوئٹر سپیس میں کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے سبھی انتخابات پر غیر جمہوری عناصر اثرانداز ہوتے رہے ہیں لیکن موجودہ انتخابات میں یہ اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حریف جماعت کو انتخابات کے حوالے سے منصوبہ بندی کے تحت مسائل میں الجھایا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت گذشتہ 20 سالوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا ہے جو غیر قانونی ہے، جبکہ دیگر جماعتوں سے اس حوالے سے سوال تک نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی پی پی پی کے چیئرمین نے اپنی انتخابی مہم کے شیڈول کا اعلان کیا تو 14 گھنٹے بعد سینیٹ کے ایک رکن نے کورم پورا نہ ہونے کے باوجود انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد پیش کی جو اس دن کی کارروائی کا حصہ بھی نہیں تھی۔ اس معاملے کی ترجیحاً تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کونسی ایسی طاقتیں ہیں جو ملک کو نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران کی جانب دھکیل رہی ہیں جو شاید ان لوگوں سے بھی سنبھالا نہ جائے جو اس کا سبب بن رہے ہیں۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک ( فافن) نے اسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تجویز کیا کہ ریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے جن امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے گئے ہیں ان کا تفصیلی فیصلہ ای سی پی کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے تا کہ اس حوالے سے عوام اور میڈیا میں انتخابات کو لے کر ایک باخبر رائے قائم ہو سکے اور جھوٹی یا بے بنیاد افواہوں کا تدارک بھی ہو سکے۔ جبکہ اس حوالے سے صوبائی و وفاقی الیکشن کمیشن نے مؤقف نہیں دیا۔

معروف سیاسی کارکن جبران ناصر کا کہنا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کسی ایک سیاسی جماعت پر مشکل وقت آتا ہے تو دوسری سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی نظریات کو ایک جانب رکھتے ہوئے اپنے مفاد کو ترجیح دیتی ہیں۔ اسی کے باعث پی ٹی آئی ان حالات کا اکیلے سامنا کر رہی ہے اور ان حالات کا ماضی میں سبھی سیاسی جماعتوں نے سامنا کیا ہے۔

سیاسیات کے پروفیسر طاہر نعیم کا کہنا ہے کہ ہماری اشرافیہ اس سیاسی نظام کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے، وہ انتخابات کو متنازعہ بنائیں گے، وہ اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیں گے، وہ عوام کا حق حکمرانی چھینیں گے اور لوگوں کی حقیقی نمائندگی کو آئین اور قانون کے تحت ملک کو چلانے سے روکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آتا کہ میرے ووٹ سے چیزیں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ یہ مایوسی ریاست کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہے۔

ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی یہ کشیدگی عام عوام کی سیاسی، سماجی و معاشی زندگی کو گذشتہ دو سالوں سے شدت سے متاثر کر رہی ہے جبکہ عوامی مسائل کو مُسلسل نظرانداز کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوں نے عوامی آزادی اظہار رائے پر بھی ایک ان کہے خوف کو مسلط کر دیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عام انتخابات کی ساکھ متاثر ہونے کے ساتھ ان کے انعقاد پر بھی سوالات اٹھ گئے ہیں۔ اس کے لئے ریاستی اداروں کو عوام کو بروقت مستند معلومات فراہم کرتے ہوئے جھوٹی افواہوں کا تدارک کرنا ہو گا جبکہ صاف شفاف انتخابات، سیاسی استحکام اور ملکی معیشت کی ترقی کی ضمانت ہیں جس کے لئے سبھی اداروں اور مقتدر حلقوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔