Get Alerts

انصاف کا تقاضا ہے کہ مستعفی ججز کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے

جسٹس نقوی کے خلاف جب یہ کارروائی شروع ہوئی تو اس وقت جسٹس عمر عطاء بندیال چیف جسٹس تھے۔ جسٹس بندیال نے ان کے خلاف کارروائی کو کونسل کا اجلاس نہ بلا کر روکے رکھا بلکہ ان کو اپنے ساتھ بنچ میں بٹھا کر پیغام بھی دیا کہ ان کے خلاف کارروائی کو عمل میں نہیں لایا جا سکتا۔

انصاف کا تقاضا ہے کہ مستعفی ججز کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے اپنے استعفے میں بحیثیت جج لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ اپنی خدمات کو اپنے لئے اعزاز سمجھا ہے جن میں سے ایک اعزاز بحیثیت ممبر بنچ لاہور ہائیکورٹ، جس میں پرویز مشرف کی سزا کو ہی ختم نہیں کیا گیا تھا بلکہ اپنی ہم رتبہ عدالت کو بھی ختم کر دیا گیا تھا، بھی ہے جس کی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ کیسا حسین اتفاق ہے کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا فیصلہ بھی ان کے استعفیٰ کے دن ہی آیا ہے جس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپیشل کورٹ کے فیصلے کو بحال رکھا گیا ہے۔

اس کے بعد انہوں نے ایسے حالات جو عوام کے علم اور ریکارڈ پر ہیں، کی طرف اشارہ دیتے ہوئے مجبوری اور تحفظات کے تحت کام جاری رکھنے کو ناممکن کہا ہے جن سے اس بات کا تاثر مل رہا ہے کہ شاید، جیسا کہ وہ اپنے سپریم جوڈیشل کونسل کو شوکاز نوٹسز کے جوابات میں بھی اظہار کرتے رہے ہیں، انہوں نے اپنے خلاف کارروائی کی شفافیت اور غیر جانبداری سے مایوس ہو کر استعفیٰ دیا ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے کونسل میں اپنی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا تھا جس میں کونسل کے ممبران کے اپنے بارے تعصب کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کارروائی کو روکنے کی استدعا کی تھی جو کل استعفے کے دن ہی مسترد کی گئی ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔ ابھی تو اس نوٹ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہو گی کہ انہوں نے خود بھی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی امامت میں مستعفی ہونے کو ہی غنیمت جانا جس کا میں نے 2 جون 2023 کے اپنے تجزیے میں اظہار کیا تھا اور امید کی جا رہی ہے کہ ان کی امامت میں ابھی اور می لارڈز بھی آ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس مظاہر  نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی تھی اور جسٹس مظاہر  نقوی کی سپریم کورٹ میں درخواستوں کو سننے والے بنچ بارے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا کہ بنچ کی تشکیل میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا جس کے جواب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے رابطہ کیا اور معلوم ہوا کہ وہ جمعہ کو لاہور کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ ان کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ ان کی اس طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ ہم سپریم کورٹ میں ساڑھے چار دن نہیں بلکہ چھ دن کام کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں۔

چونکہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اس لئے ان کو اپنے خلاف کارروائی کے جاری رہنے سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اس مؤقف کے تحت ان کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان درخواستوں کے خلاف ان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جائے تا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر کے اپنی ساکھ اور خدمت کے اعزاز کو بحال رکھ سکیں۔ ججز کے کوڈ آف مس کنڈکٹ کے آرٹیکل 2 میں دیے گئے 'ٹروتھ فُل آف ٹَنگ' اور 'فیتھ فُل ٹو ہِز ورڈ' کے الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے۔

انصاف کے اصولوں کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کوڈ کے تحت انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ جہاں کئی آئینی تشریحات کو درست قرار دے چکی ہے وہاں آرٹیکل 209 کی تشریح کو بھی ججز کی ریٹائرمنٹ کی نسبت سے اس کے اطلاق کو ٹھیک طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر جج اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائے تو اس پر آئین کے آرٹیکل 209 کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اس کے موجودہ اطلاق سے کونسل بارے عوام اور قانونی حلقوں کے اندر پائے جانے والے شکوک و شبہات سے کونسل کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔

اگر جج کے خلاف بدعنوانی یا کسی مس کنڈکٹ کی شکایات، صدارتی ریفرنس یا کونسل کی طرف سے سوموٹو اختیارات کے تحت کارروائی کا آغاز استعفے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے ہو جائے تو پھر اس کے عمل میں رکاوٹ کا عمل شعور اور انصاف کے تقاضوں کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی جج اپنے خلاف شکایات یا ریفرنس کے آ جانے کے بعد آرٹیکل 209 کو ڈھال بناتے ہوئے ریٹائرمنٹ کے لئے استعفیٰ دے دے تو یہ بد نیتی پر مبنی ہو گا جس کو اس آرٹیکل کے اطلاق میں بار نہیں بنایا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ کی 2023 میں کی گئی آئین کے آرٹیکل 209 کی تشریح جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ 'مس کنڈکٹ کی کارروائی کا اطلاق سابقہ یا ریٹائرڈ ججز پر نہیں ہوتا' کے اطلاق میں ان کی ریٹائرمنٹ اور استعفے سے مراد ان کے خلاف درخواستوں کے دائر کرنے کے وقت کو لیا جانا چاہیے۔ اگر اس وقت تک وہ ریٹائر یا استعفیٰ دے چکے ہوں تو ان کو استثنیٰ کا فائدہ دیا جائے اور اگر وہ اس وقت تک ابھی عہدے پر کام کر رہے ہوں اور اپنے خلاف درخواستوں کے دائر ہو جانے کے بعد وہ استعفیٰ دیں تو کاروائی کو جاری رہنا چاہیے۔

چہ جائیکہ جج اپنے الزامات کو مسترد کر چکا ہو بلکہ اس نے ان الزامات کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں جھوٹے ہونے کی بنیاد پر چیلنج کیا ہو اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبران پر بھی تعصب کے الزامات لگا چکا ہو تو ایسے شخص کے خلاف کارروائی کو صرف اس بنیاد پر روک دینا کہ اس نے استعفیٰ دے دیا ہے، انصاف کے اصولوں کے منافی لگتا ہے۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی شو کاز نوٹسز کے جوابات بھی دے چکے ہیں جس میں وہ اپنے خلاف الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور کونسل کے ممبران پر تعصب اور کارروائی سے علیحدہ ہونے کی درخواست دے کر بعد میں واپس لے چکے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کارروائی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کی ان درخواستوں سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ تکنیکی بندوبست کے ذریعے سے نکلنے کی کوشش بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اگر ان کے اعتراضات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود اور جسٹس افغان اپنے آپ کو کونسل سے علیحدہ کر لیتے تو ان کے ہم خیال ججز کے کونسل کا ممبر بننے کے امکانات تھے۔ انہوں نے کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے بنچ پر بھی اعتراضات عائد کئے تھے جن کا مقصد بھی اپنے لئے آسانی پیدا کرنے والے ججز کی امید تھا۔

جسٹس نقوی کے خلاف جب یہ کارروائی شروع ہوئی تو اس وقت جسٹس عمر عطاء بندیال چیف جسٹس تھے جن کو ان کا ہم خیال کہا جاتا تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف کارروائی کو کونسل کا اجلاس نہ بلا کر روکے رکھا بلکہ ان کو اپنے ساتھ بنچ میں بٹھا کر کسی کو پیغام بھی دیا تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کو عمل میں نہیں لایا جا سکتا اور جب ان پر سپریم کورٹ کے فاضل ججز کی طرف سے خطوط کے ذریعے سے یہ دباؤ بڑھا کہ کارروائی کو شروع کیا جائے تو انہوں نے رائے کے لئے فائل جسٹس طارق مسعود کو بھیجی اور جس پر ان کو بعد میں فون کر کے مبینہ طور پر یہ آفر بھی دی گئی کہ اگر وہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف درخواست پر اپنی رائے سے مستفید کرتے ہیں تو جسٹس طارق مسعود کے خلاف درخواستوں کو بھی ختم کر دیا جائے گا جس پر انہوں نے تحریری طور پر اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو خط لکھا تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ وہ اس طرح سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو ڈیل کے ذریعے سے ختم کروا کر اپنی ساکھ کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔

یوں جسٹس طارق مسعود کے خلاف کونسل میں درخواستوں پر کارروائی کا آغاز بھی جسٹس مظاہراکبر نقوی کے ساتھ ہی ہوا اور انہوں نے درخواست گزار کی موجودگی میں اپنے خلاف الزامات کے جھوٹے ہونے کے شواہد دیے جس پر درخواست گزار نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور جسٹس طارق مسعود کے خلاف الزامات کو مسترد کر کے ان کے خلاف درخواستوں کو خارج کر دیا گیا۔ اگر جسٹس مظاہر اکبر نقوی بھی سمجھتے تھے کہ ان کے خلاف درخواستیں بے بنیاد ہیں تو ان کو بھی اپنے خلاف درخواستوں کے ساتھ دیے گئے شواہد کو جھوٹا ثابت کر کے ان کو خارج کروا لینا چاہیے تھا۔

یوں اب تک کے حالات سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کے خلاف یہ کارروائی جو اکتوبر 2022 میں شروع ہوئی تھی، میں وہ اپنے آپ کو بچانے کا ہر حربہ استعمال کر چکے ہیں اور جب یہ محسوس کیا کہ بچنے کا کوئی حل باقی نہیں رہا تو انہوں نے اپنی مراعات اور پنشن کو بچانے کے لئے یہ آخری استعفے والا حربہ استعمال کیا ہے۔ لہٰذا اگر اب ان کی درخواستوں پر کونسل، اپنے طور پر یا جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی طرف سے اس درخواست پر کہ انہوں نے استعفیٰ دے کر ریٹائرمنٹ لے لی ہے اس لئے ان درخواستوں کو غیر مؤثر قرار دے دیا جائے، کارروائی کو روکتی ہے تو اس سے جسٹس مظاہر اکبر تقوی بارے بدنیتی کے تاثرات کو بھی تقویت ملے گی اور عدلیہ اور کونسل بارے عوامی رائے بھی مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں۔

اس بارے ماضی کے ججز کے احتساب اور جوابدہی کی پریکٹس کو دیکھ کر پہلے ہی عوام اور قانونی برادری کے حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بدعنوانی کے ختم نہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ججز کے خلاف بدعنوانی اور مس کنڈکٹ کی درخواستوں کے آ جانے کے بعد ان کو استعفیٰ کے بعد ان کی تمام مراعات اور پنشن کو محفوظ بنانے کے لئے اس آئین کے آرٹیکل 209 کی تشریح کا سہارا لیا جاتا ہے جو ان کے خلاف جوابدہی اور احتساب کے نظام کے ساتھ ایک کھلا مذاق ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو کبھی کسی جج کے احتساب کو ممکن ہی نہیں بنایا جا سکے گا اور نہ ہی ایسے حالات میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورت حال میں عدلیہ کے غیر جانبدارانہ اور شفاف کردار کی امید کی جا سکتی ہے۔

عوام اور قانونی حلقوں میں پائے جانے والی اسی تشویش کے پیش نظر حنا جیلانی کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر ہو چکی ہے جو شنوائی کے لئے اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ اس میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ ججز کی ریٹائرمنٹ اور استعفے کو ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے ساتھ مشروط کرنے کی روش کو ختم کیا جانا چاہیے اور ججز کے خلاف کارروائی کو ریٹائرمنٹ اور استعفے کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس درخواست کا پہلے فیصلہ کر لیا جائے اور پھر ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی درخواستوں پر کارروائی کی جائے۔ لگتا یوں ہے کہ میڈیا میں ان مستعفی ہونے والے ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی درخواستوں کی جو افواہیں گردش کر رہی ہیں ان سے خائف ہو کر یہ اپنی پنشن اور مراعات بچانے کے لئے مستعفی ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں جو صریحاً بد نیتی پر مبنی ہے۔ اس لئے انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کو ایسی صورت حال میں اگر ان کے خلاف کونسل میں درخواستیں آتی ہیں تو ان کی جوابدہی ضرور ہونی چاہیے۔ چونکہ وہ ایک منصف کے اہم منصب پر رہے ہیں اس لئے ان کی ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اپنی صفائی میں سنے جانے کے مواقعوں کی فراہمی سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف درخواست گزار نے بھی استعفے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے لہٰذا کونسل کو عجلت میں اس کارروائی پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس سے کونسل پر بھی سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ ان کے استعفیٰ کے الفاظ سے ابھرنے والے تاثرات، استعفے کا وقت، الزامات کی نوعیت اور اصولی انصاف کا بھی یہی تقاضا ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ نے جہاں قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کئی فیصلے جن میں عدلیہ کے اختیارات میں شفافیت، پارلیمان اور آئین کی بالادستی کے متعلق فیصلے صادر کئے ہیں وہاں ان کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے احتساب کے عمل کو فعال بنانے کے متعلق دیرینہ عوامی مطالبہ کے اس موقعے کو بھی ضائع نہیں جانے دے گی۔