سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کیخلاف شکایت خارج کردی

جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر آمنہ ملک نے ریفرنس دائر کیا تھا جس پر انہیں بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ 

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کیخلاف شکایت خارج کردی

سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت متفقہ طور پر خارج کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدرات میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جاری ہے۔ جس میں جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس سردار طارق مسعود کیخلاف شکایات کا جائزہ لیا گیا۔ 

جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر آمنہ ملک نے ریفرنس دائر کیا تھا جس پر انہیں بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ 

کونسل نے جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایت متفقہ طور پر خارج کر دی۔ کارروائی میں وقفہ ہوا ہے جس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات کا جائزہ لیا جائے گا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کیخلاف اثاثوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا جانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔

جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کے نام پر لاہور میں دو جائیدادوں کا مکمل ریکارڈ طلب کر رکھا ہے جن میں گلبرگ تھری لاہور میں پلاٹ نمبر 144 بلاک ایف ون اور لاہور کینٹ میں پلاٹ نمبر 100 سینٹ جانز پارک شامل ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی نقوی نے اپنے خلاف آڈیو لیک سکینڈل میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کر دی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ایڈووکیٹ مخدوم علی خان کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی، جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کاررروائی ختم کرنے کی استدعاکرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا آئندہ کارروائی کے لیے موصول نوٹس بھی غیر قانونی قرار دیا جائے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کو بنیادی آئینی ڈھانچے کا جزو قرار دے چکا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے میرے اعتراضات طے کیے بغیر آئندہ کارروائی کا نوٹس بھیجا۔ درخواست میں کہا گیا کہ کونسل نے27اکتوبر کو پریس ریلیز جاری کر کے میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ظاہر کیے گئے اثاثے جج کیخلاف کارروائی کی بنیاد نہیں بن سکتے، ٹیکس حکام کی جانب سے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست میں مزید کہا گیا کہ   شوکاز نوٹس کے بارے میں جاری کردہ پریس ریلیز میری رائے لیے بغیر جاری کی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا پریس ریلیز جاری کرنے سے میرا میڈیا ٹرائل ہوا۔ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو بدنیتی پر مشتمل قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ جوڈیشل کونسل کا جاری کردہ شوکاز نوٹس خلاف قانون قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر کی گئی اس درخواست کو کھلی عدالت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت 3 رکنی کمیٹی کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ کمیٹی کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ اثاثوں پر کبھی کوئی نوٹس نہیں آیا،ان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف شروع کی گئی مہم عدلیہ پر حملہ ہے۔