سپریم کورٹ کے جسٹس سیدمظاہر علی اکبر نقوی سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی جانب سے جاری کیے گئے دوسرے شوکاز نوٹس کو بھی عدالت میں چیلنج کر دیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج ہے۔ 19 فروری 2010 کو لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے۔ 16 مارچ 2020 کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ترقی ملی۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اگر کسی جج کے خلاف شکایات ہوں تو صدر کو بتائی جاتی ہیں۔ 16 فروری 2023 کو درخواست گزار کے خلاف سیاسی اور بدنیتی پر مبنی مہم کا آغاز کیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کی گئی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ 24 نومبر کا شوکاز نوٹس کالعدم قرار دیا جائے۔ دوسرا شوکاز نوٹس میرے خلاف کارروائی میں نقائص دور کرنے کیلئے جاری کیا گیا۔ اپنے ابتدائی جواب میں کارروائی کے نقائص اجاگر کئے تھے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بھی کالعدم قرار دی جائے۔ میرے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم عدلیہ پر حملہ ہے۔ میرے ٹیکس ریٹرن کی تفصیل کسی کو دی نہیں جا سکتی۔ غیر قانونی طور پر حاصل ریکارڈ قابل قبول شہادت نہیں۔
انہوں نے درخواست میں وفاق کو وزارت قانون کے ذریعہ فریق بناتے ہوئے استدعا کی کہ میرے خلاف شکایات کو کھلی عدالت میں سنا جائے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف 10 شکایات جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہیں۔ میاں داؤد ایڈووکیٹ سمیت دیگر نے جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنسز دائر کر رکھے ہیں۔ شکایات میں جسٹس مظاہر نقوی پر مالی بے ضابطگیوں، آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات عائد ہیں۔جن پر جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو 2 شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
20 نومبر کو جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کاررروائی ختم کرنے اور کارروائی کیلئے موصول نوٹس بھی غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔