'سپریم کورٹ بلّے کا نشان بحال کرتی تو اس پر نظریہ ضرورت کا الزام لگتا'

حیرت ہو رہی ہے پی ٹی آئی کے ان وکلا پر جنہوں نے آج عدالت میں باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن کی بدنیتی سے متعلق درخواست واپس لے لی اور قرار دیا کہ ان سے بلا واپس لینے والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا اخلاقی معیار دیکھیں کہ آج انہی وکلا نے عدالت پر بدنیتی کا الزام لگا دیا ہے۔

'سپریم کورٹ بلّے کا نشان بحال کرتی تو اس پر نظریہ ضرورت کا الزام لگتا'

انٹرا پارٹی الیکشن کی روایت پی ٹی آئی نے ہی ڈالی تھی مگر ان کے ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی مسئلہ رہا ہے۔ پی ٹی آئی بجائے اس کے کہ اپنے اندرونی معاملات درست کرتی، الٹا انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ ایک قابل قبول فیصلہ یہ ہو سکتا تھا کہ چلیں انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں ہوئے مگر وسیع تر مفاد کے تحت پی ٹی آئی کو الیکشن میں جانے کی اجازت دے دی جاتی مگر اسے بھی بعض حلقوں کی جانب سے نظریہ ضرورت سے تعبیر کیا جاتا۔ سپریم کورٹ نے تفصیلات میں جا کر اس لیے سوال پوچھے تاکہ کہیں سے پی ٹی آئی کا اچھا ارادہ ظاہر ہو جائے اور عدالت نرمی کا مظاہرہ کر سکے۔ یہ کہنا ہے قانون دان احمد حسن شاہ کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں آصف بشیر چوہدری نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیادی ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے اپنے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق الیکشن نہیں کروائے اور اپنے ڈیڑھ دو کروڑ ووٹرز کو نمائندگی سے محروم کر دیا۔ حیرت ہو رہی ہے پی ٹی آئی کے ان وکلا پر جنہوں نے آج عدالت میں باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن کی بدنیتی سے متعلق درخواست واپس لے لی اور قرار دیا کہ ان سے بلا واپس لینے والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا اخلاقی معیار دیکھیں کہ آج انہی وکلا نے عدالت پر بدنیتی کا الزام لگا دیا ہے۔

اسد جمال کے مطابق پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں عدالت کی سوال پوچھنے کی سمت ہی درست نہیں تھی۔ آئین کے آرٹیکل 17 میں عوام کو حاصل رائٹ آف ایسوسی ایشن کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اس تین رکنی بنچ کے مختصر فیصلے میں محترمہ بینظیر بھٹو کیس کے فیصلے کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ آرٹیکل 17 کا ذکر شامل کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے بعد سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو پھنسانے کے لے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ایک اور ٹول آ گیا ہے۔

شاہزیب جیلانی نے کہا 2018 کے الیکشن میں ایک آدمی کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے ایک وزیر اعظم کو نااہل کیا گیا تھا مگر اس مرتبہ معاملات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ 9 مئی کے بعد سے جس طرح اس کے خلاف آپریشن کیا گیا، اگر وہ نمبر ون پارٹی نہ ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ اس پر اتنی سختی نہ کرتی۔ لائیو براڈکاسٹ کے دوران عدالت کی جانبداری صاف نظر آئی۔ عدالت کے پاس گنجائش تھی اور وہ چاہتی تو نرم روی اختیار کرتے ہوئے مختلف فیصلہ سنا سکتی تھی۔ اس فیصلے سے سب کو مایوسی ہوئی ہے۔ یہ پی ٹی آئی کے لیے تو برا ہے ہی، ریاست کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔

 میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔