یونیورسٹی کی چار سالہ ڈگری کا پہلا نصف مکمل ہو چکا ہے، لیکن یہ دو سال صرف ایک تعلیمی مدت نہیں تھے ، یہ زندگی کو سمجھنے، خوابوں کو پرکھنے، اور خود کو دریافت کرنے کا شاندار موقع تھے۔ یہ دو سال میرے لیے ایک ایسا سفر تھے جہاں ہر لمحہ، ہر قدم، اور ہر واقعہ میری شخصیت کے نکھار کا حصہ بنا۔
یونیورسٹی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھتے ہی ایک عجیب سا ملا جلا احساس تھا۔ خوف، تجسس، اور جوش سب ایک ساتھ۔ اردگرد اجنبی چہرے، بڑے بڑے ہال، اور لائبریریوں کی خاموش دیواریں ایک بالکل نئی دنیا کا منظر پیش کر رہی تھیں، دل میں بے شمار سوالات تھے۔ کیا میں یہاں اپنی جگہ بنا سکوں گا؟ کیا یہ سفر واقعی مجھے بدل دے گا؟ ان سوالات کے جواب وقت نے دیئے، اور دو سال کے دوران میں نے خود کو ایک نئے روپ میں پایا۔
یونیورسٹی کی دنیا محض تعلیمی معاملات تک محدود نہیں تھی،کلاس رومز میرے لیے محض لیکچرز کا نہیں بلکہ سوالات کا میدان تھے، ہر موضوع، ہر لیکچر میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ میں نے کبھی بھی کسی بات کو بغیر پرکھے قبول نہیں کیا، سوال اٹھانا، بحث کرنا، اور ہر دلیل کو سمجھنا میری عادت بن چکی تھی۔
متین حیدر صاحب کے لیکچرز میرے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھے۔ ان کے ساتھ سیاست، معیشت، اور تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں علم کے کسی گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوں۔ ان کے الفاظ میرے دل و دماغ میں گونجتے، اور میں گھنٹوں ان پر غور کرتا۔ طاہر نعیم ملک صاحب جیسے استادوں کے ساتھ وقت گزارنا میرے لیے روشنی کی کرن تھا، ان کے جملے زندگی کے رازوں کو کھولنے کا ذریعہ تھے۔
لیکن یہ دو سال صرف تعلیم کی بات نہیں کرتے۔ یہ تعلقات، تجربات، اور جذبات کا بھی سفر تھا۔ دوستوں کے ساتھ کیفے میں گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرنا، زندگی کے خوابوں پر بحث کرنا، اور ہنسی مذاق کے لمحات وہ یادیں ہیں جو کبھی ماند نہیں پڑیں گی۔ عمر سنجرانی جیسے دوستوں کے ساتھ گزرے دن، وہ گپ شپ، اور قہقہے میری یادوں کا حسین حصہ ہیں۔
ایک بات جو ان دو سالوں میں سب سے زیادہ دلچسپ تھی، وہ یہ کہ تقریباً ہر لڑکی نے مجھے بھائی قرار دیا۔ یہ بات کبھی ہنسی کا باعث بنتی تو کبھی مجھے حیران کر دیتی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے محبت کے راستے پر کبھی قدم نہیں رکھا۔ میرے لیے عشق اور محبت کا مطلب کتابوں اور علم کے ساتھ وابستگی تھا۔
کتابیں میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ تھیں۔ میں نے ایسی کتابیں پڑھیں جنہوں نے میرے دل کو چھوا اور میری سوچ کو بدلا۔ آواز دوست نے مجھے انسانیت کی گہرائی دکھائی، راجہ گدھ نے زندگی کے پیچیدہ سوالات پر غور کرنے پر مجبور کیا، اور شاہین نے مجھے خواب دیکھنے اور بلند پرواز کا سبق دیا۔ ہر کتاب میرے لیے ایک نئی دنیا تھی، ایک نیا تجربہ۔
یونیورسٹی کی زندگی میں تجربات کی اپنی جگہ تھی۔ ڈان نیوز پیپر میں انٹرن شپ کا تجربہ میرے لیے ایک نیا دروازہ کھولنے کے مترادف تھا۔ یہاں میں نے وقت کی قدر سیکھی، ذمہ داری کا مطلب سمجھا، اور عملی زندگی کے اصولوں کو قریب سے دیکھا۔ یہ تجربہ ان لمحات میں شامل ہے جو میری زندگی کو نئی سمت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دو سال کے اس سفر میں میں نے سیکھا کہ علم محض نمبر حاصل کرنے یا ڈگری لینے کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا ہے، زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع دیتا ہے، اور دنیا کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی اہلیت دیتا ہے۔
یونیورسٹی کے دوسرے سال کے اختتام پر، جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو دل میں خوشی اور فخر کے جذبات تھے۔ یہ سفر ختم ہونے والا نہیں تھا بلکہ ایک نیا آغاز تھا۔ آگے دو مزید سال تھے، لیکن ان دو سالوں نے میرے اندر وہ بنیاد رکھ دی تھی جو مجھے زندگی کے بڑے خواب دیکھنے اور ان کی تعبیر کے لیے کام کرنے کی ہمت دیتی ہے۔
یہ دو سال صرف وقت کا ایک حصہ نہیں تھے؛ یہ میری زندگی کے وہ انمول لمحے تھے جنہوں نے مجھے خود سے روشناس کرایا۔ میں نے سیکھا کہ زندگی کے اصل معنی سوالات میں چھپے ہیں، اور جستجو ہی انسان کو اس کی منزل تک لے جاتی ہے۔ یہ سفر ابھی باقی ہے، لیکن ان دو سالوں کی یادیں تجربات اور سیکھنے کا عمل ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔