پاکستان میں یکساں تعلیمی نصاب کے چرچے: کچھ حقیقت ، کچھ فسانہ

پاکستان میں یکساں تعلیمی نصاب کے چرچے: کچھ حقیقت ، کچھ فسانہ
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ قومی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے رہا۔یہاں 1947ء میں پہلی تعلیمی کانفرنس سے لے کر 1972 ء تک کوئی واضح تعلیمی پالیسی ہی نہیں رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس سیاسی جماعت نے 1972 ء میں پہلی قومی تعلیمی پالیسی متعارف کروائی جس میں زیادہ زور اِس بات پر دیا گیا تھا کہ ملک میں شرح خواندگی کو بڑھایا جائے اور ملک کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ اِس تعلیمی پالیسی میں خواتین کی تعلیم اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کو بنیادی تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

پاکستان ابھی اپنا مشرقی بازو کٹ جانے کے صدمے سے دور چار تھا اور پی پی پی کی عوامی حکومت اپنے منصوبوں کو پا یہ تکمیل تک پہنچانے میں سر گرداں تھیں کہ ملک پر ایک آسیب کا سایہ مسلط ہو گیا۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کا غیر آئینی طور خاتمہ کر دیا گیا اور پاکستان میں مارشل لاء کے تحت نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان ہوا جس کے ذریعے تعلیم کے شعبے میں اسلامائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے پر توجہ دی گئی۔ مدرسہ سکول کھلے، نصاب میں اسلامیات اور عربی پڑھانے کو فوقیت حاصل تھی اور اقراء پراجیکٹ کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز اکٹھے کئے گئے ۔ وہ فنڈ کہاں خرچ ہوا آج تک کسی کو معلوم نہیں۔

پاکستان میں دوسری باقاعدہ تعلیمی پالیسی 1992ء میں لاگو کی گئی لیکن وہ جمہوری قوتوں کی آپس میں چپقلش اور وہ بھی مختلف حکومتوں کے غیر آئینی خاتمے کی نظر ہو گئی۔نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں 2010-1998 کی تعلیمی پالیسی سامنے لائی گئی جس میں پاکستان کے تعلیمی مسائل کا واضح طور پر ادراک کیا گیا۔اِس پالیسی میں تعلیم اور نصاب کی بنیادوں کو جدید طرز اور زمانے کی ضروریات کے مطابق اُستوار کر نے کوشش کی گئی ۔اِس پالیسی میں تعلیم کے حق کو بنیادی انسانی حق سمجھا گیا لیکن پاکستان ایک مرتبہ پھر مشرف بہ مارشل لاء ہوا اور ساتھ ہی اِس تعلیمی پالیسی کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔

مشرف کے دورِ اقدار میں روشن خیال پاکستان بنانے کا خواب دکھایا گیا لیکن تعلیم اور نصاب پر ضیا ئی دور کے اثرات ختم نہیں کیے جا سکے۔ تاہم 2006ء میں مشرف کے دور ِ حکومت کے دوران تعلیمی نصاب کے بنیادی ڈھانچے میں بہت اہم تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں جو کہ موجو دہ یکساں قومی نصاب 2020ء کی بنیاد بنیں ہیں ۔ حالیہ یکساں قومی نصاب بنانے کا عمل دراصل 2014ء میں نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت شروع کیا گیا لیکن اُس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا تحریکِ انصاف کی موجودہ حکومت کے سر جاتا ہے۔

یکساں تعلیمی نصاب 2020ء کے ویژن یہ بتا یا جا رہا ہے کہ ملک میں ایک ایسا نظامِ تعلیم لایا جائے گا جس کا نصاب، طریقہائے تدریس اور امتحانی نظام سب کے لیے یکساں ہو۔ جہاں تمام بچوں کو معیاری تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوں۔ موجودہ نصاب کے کار سازوں نے جس ویژن کا اعلان کیا وہ قابلِ صد تعریف ہے لیکن عملی طور پراگر نصاب کا جائزہ لیا جائے تو نہ تو یہ یکساں ہے، نہ قومی ہے، اور نہ ہی ملک کے تمام بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہاں مگر ملک کی اکثریت کے بچوں کے لیے یہ نصاب شاید موزوں ہو۔

پاکستان میں رائج کیے گئے موجودہ نصاب کو یکساں اور قومی نصاب اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پاکستان بہت ساری اکائیوں پر مشتمل ایک متنوع معاشرہ ہے۔ پاکستان کے ہر صوبے کا اپنا کلچر ، اپنی شناخت، اپنی روایات اور مخصوص سماجی خدوخال ہیں۔ اگر موجودہ نصاب کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اِس میں مقامی زبانوں کی اشاعت اور ترقی کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اُردو پڑھانے پر زیادہ توجہ دی گئی لیکن اُردو کے نصاب میں شامل مواد اور آؤٹ لائن کو دیکھ کر اسلامیات کے مضمون کا شائبہ ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات پاکستان میں بسنے والے کروڑوں بچوں جن کا تعلق اقلیتی گروپ سے ہے ، اُن کی ضروریات کو بلکل نظر انداز کر دیا گیا۔

جہاں تک نصاب کی خوبیوں کا تعلق ہے اِس میں بچوں کو اکسیویں صدی کی مہارتیں سکھانے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا گیا ہے لیکن یہاں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ماڈرن ٹیکنالوجی کی برکات سے مستفید ہو نے کے لیے تعلیمی ڈھانچہ بھی دستیاب ہے کہ نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیسے پاکستان میں بجلی کی پیدوار تو بڑھا دی گئی لیکن بجلی کی ترسیل کا نظام وہی پرانا، گھسا پٹا اور راستے کی سب بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کیا ہمارے اساتذہ کو جدید نصاب کے تقاضوں کے مطابق تربیت دی جا رہی ہے یا نہیں۔ اِسی قسم کے بہت سے سوالوں کے جواب تلاش کرنا باقی ہیں۔

جہاں تک یکساں نصابِ تعلیم کے ویژن کو عملی شکل دینے کا سوال ہے وہاں اساتذہ اور تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والے سپروائزر کے کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں موجودہ نصاب کے حوالے سے ٹیچرز کی ٹرینگ جاری ہے لیکن اُس کا معیار از خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ کرونا وبا کی وجہ سے پنجاب میں ٹیچرز کی آن ٹرینگ کا بندوبست کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک نئی شروعات ہے مگر زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاکھوں معلمین و معلمات کی تربیت کے جس پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے اُس کے خاطر خواہ نتائج نظر نہیں آ رہے ہیں۔

مثا ل کے طور ایک دور دراز علاقے میں بسنے والے ایک ٹیچر کو آن لائن کورس میں حاضر ہونے کے لیے اپنے مقامی سٹیشن سے میلوں دور جا نا پڑتا ہے جہاں انٹر نیٹ کی رفتار قدرے بہتر ہو۔ اِسی طرح اساتذہ کی تربیت کے لیے مختص وقت بھی ضرورت سے بہت کم ہے۔ بھلا ایک یا دو دن کی تربیتی پروگرام سے کوئی کتنا سیکھ لے گا ۔ اگر یہ پروگرام طویل درانیے کا ہو تا تو بہتر تھا۔ ستم بالائے ستم ، ایک گروپ میں ساٹھ ساٹھ اساتذہ کو بیٹھا دیا گیا ہے اور چند گھنٹے کی ٹرینگ کے دوران ممکنہ سوال و جواب اور وضاحت کے لیے کوئی آپشن بچتا ہی نہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف پر جہاں نیا قومی تعلیمی نصاب بغیر سو چے سمجھے اور بہتر منصوبہ بندی کے نافذ کرنے کی وجہ سے تنقید ہو رہی ہے وہیں کچھ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق بعض پرائیویٹ اور عسکری اداروں کے تحت چلنے والے سکولوں سے نئی درسی کتب واپس لے لی گئیں ہیں اور ایک غیر سرکاری پبلشر کی شائع کردہ درسی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں اور یہ سارا کھیل کسی عدالتی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی مخصوص تعلیمی ادارے کو اپنی مرضی کی درسی کتابیں لگوانے کی اجازت ہے تو پھر یہ ایک نیا پنڈورا باکس کھلنے والا ہے۔

اِسی طرح ایک اور خبر بازارِ میں گرم ہے کہ کسی ایسی درسی کتاب کو شائع ہونے سے روک دیا گیا جس میں نوبل انعام یا فتہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کی تصویر چھپی ہو ئی تھی۔ اور کچھ اِس بات کا تمسخر اڑا رہے ہیں بڑا دشمن بنا پھر تا ہے ایک بچی سے ڈرتا ہے۔ ناں اِس خبر میں کہاں تک حقیقت ہے لیکن اگر ایسا ہے تو یہ بھی یکساں تعلیمی نصاب بنانے والوں کی صلاحیت اور کریڈیبلٹی پر ایک بدنما دھبہ ہو گا۔

یکساں قومی نصاب کے حوالے سے سب سے اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کے لاکھوں اساتذہ کے ذاتی کوائف ، نام اور پتہ، فون نمبر، شناختی کارڈ نمبر، ای میلز کو ویٹ سائیٹ پر اپ لوڈ کر دیا گیا۔ نہ جانے اِس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی مگر مستقبل میں یہ معاملہ محکمہ تعلیم ، ریاستی اور لا اینڈ آرڈر قائم رکھنے والے ادروں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے اور وزارتِ تعلیم کے گلے کی ہڈی بنے گا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ لاکھوں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کے ٹیچرز کی ذاتی معلومات شئیر کرنے کے لیے اُن سے پیشگی اجازت لی گئی یا کہ نہیں لیکن اِس طرح شہریوں کی حساس معلومات کو ویٹ سائٹ پر ڈالنے سے ٹیلی مارکیٹنگ ، ہیکرز اور معاشرے کے برے عناصر کو اپنا فریضہ سرانجام دینے میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔ اگر ایسا معاملہ کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو محکمہ تعلیم اور اُس کے حکام کو اربوں کھربوں کے دعوؤں اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کر نا پڑ سکتا تھا۔

مختصر یہ کہ جہاں تک یکساں تعلیمی نصاب کے سہانے خواب اور ویژن کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ درست مگر اِس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے ضلع خاران کے دور دراز گاؤں میں پڑھنے والے ایک پاکستانی بچے کی ضرورت اور لاہور کے مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے بچے کی ضرورتیں الگ ہیں۔ دونوں جگہوں کے اساتذہ اور سکولوں کا معیار مختلف ہے۔ جب طلبہ کو میسر سہولتیں، اُن کی ضرورتیں اور معیار ِ زندگی الگ ہے تو بھلا تعلیمی نصاب ایک جیسے کیسے کام کر سکتا ہے۔ ہمارے ماہرین تعلیم کو اِس مسئلے کا حل سوچنا ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی پھر شاید ایک قوم ،ایک نصاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔