یکساں نصاب یا یکساں تعلیمی نظام؟

یکساں نصاب یا یکساں تعلیمی نظام؟









آجکل تحریک انصاف کی حکومت پورے ملک میں کلاس ایک سے پانچویں جماعت کے لئے یکساں تعلیمی نصاب پر زور و شور سے کام کر رہی ہے. یہ حکومت کی پلان کا پہلا حصہ ہے ، جسے کے بعد آیندہ سال چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک اور پھر مارچ دوہزار بائیس تک دسویں جماعت سے بارھویں جماعت تک کا نصاب پورے ملک میں یکساں کر دیا جائے گا . اس پر تنقید بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے، خاص کر سوشل میڈیا پر تو ایک طوفان برپا ہے . ماہرین تعلیم، ہوں یہ سماجی کارکن، یا پھر صحافی جو تعلیم کے نظام کو بہت قریب سے دیکھ رہیں وہ حکومت کے یکساں نصاب پر بھرپور انداز میں تنقید  کر رہے ہیں.

وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ ملک کی آیندہ آنے  والی نسل کو ایک نصاب دینا اور انکے ساتھ تعلیمی تفریق یا امتیاز کو ختم کرنا انکے انتخابی منشور کا حصہ ہے اور وہ اسکو تبدیل کر کے رہے گی. کیوں کہ اس طرح عمران خان کا وہ وعدہ پورا ہو گا جس میں انہوں کہا تھا کہ ہم اپنی آیندہ نسل کو بنا تفریق یکساں نصاب دے کر اس طرح بہترین اور معیاری تعلم مہیا کر سکیں گے .
اب دیکھنے میں تو یہ ایک اچھا لگتا ہے کہ ہمارے بچے پورے ملک میں ایک ہی نصاب پڑھا کریں گے وہ بھی اگر وفاقی حکومت اسے نافذ کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی تو.                                                                       لیکن میرے جیسے کم علم انسان کے ذہن میں بھی کئی  سوال جنم لے رہے ہیں۔ جن میں پہلا سوال یہ کہ یکساں تعلیمی نظام ملک کی اولین ضرورت ہے یا پھر یکساں نصاب، اور ساتھ کیا سوال جواب کے لئے زبان بھی ایک ہی ہوگی یا پھر انگریزی اور اردو میڈیم کی تفریق جوں کی توں رہے گی ؟   اور ہاں ان بچوں کا کیا ہوگا جنکے ماں باپ کی اپنی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو او اور اے  لیول کرا کر اعلی اور معیار کی تعلیم دلوائیں. کیا میٹرک اور انٹر کا قدیم نظام جاری رہے گا اور  ساتھ ساتھ او اور اے لیول بھی جاری رہے گا تو پھر وہ تفریق اور امتیاز کہاں جائے گی جو عمران خان کی حکومت آیندہ کی نسلوں میں کم از کم تعلیم کے حوالے سے ختم کرنا چاہتی ہے؟
تعلیمی امتیاز ختم کرنا  ہمارے جسے ملکوں میں ایک خواب رہا ہے ۔ اگر تعلیمی امتیاز کو ختم  کرنے میں پی ٹی آئی  کی حکومت کامیاب ہو جاتی ہے تو اس بڑھ کر اس حکومت کی کوئی کامیابی  اور احسان ہو نہیں سکتا.  لیکن اسکی کامیابی کے کتنے چانس ہیں یہ انے والا وقت ہی بتایے گا. لیکن جس طریقے سے حکومت اس معاملے کو ہینڈل کر رہی ہے اس سے لگتا نہیں کہ اسے کامیابی حاصل ہو.
میں بھی تین بچوں کا باپ ہوں اور انہیں پبلک اور سرکاری سکول کالجوں میں ہی تعلیم دے پایا . لیکن جب یہ بچے اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں میں گئے تو انکی ایک ہی شکایات تھی کہ اے اور او لیول کر کے ہم جماعت بچوں کے ساتھ مقابلہ کرنا انکے لئے انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اس کے لئے انہیں سخت محنت  کرنا ہوتی ہے . اسکی بنیادی وجہ وہ نظام میں خامیاں بتاتے ہیں اور وہ خامیاں نصاب سے بڑھ کر نظام کی خامی ہے۔    کیوں کہ سرکاری سکول کالج کے بچے سالانہ امتحان کے نظام میں رٹا لگا لگا کر زیادہ نمبر کے حصول کی جدجہد میں رہتے ہیں ، جب کہ او اور اے لیول کر کے اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں  میں آنے والے بچے تنقیدی سوچ اور اور تجزیہ کرنے کی صلاحیات سے لیس ہوتے ہیں اور یہی وہ صلاحیت ہے جو  سرکاری سکول کالج سے نکلے بچےساری عمر حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں.
یہاں سب سے اہم مسلہ یہ رہا کہ آج کی وفاقی حکومت کی کوئی بھی پالیسی اٹھا کر دیکھ لیں ترجیحات کے شدید فقدان اور بحران رہا ہے . کیا  حکومت کے سامنے پہلے یکساں نصاب  ہونا چاہے یا پھر یکساں نظام ، یا پھر وہ بچے ترجیح ہونا چاہیئیں جو اپنے والدین کی خراب مالی حالت، غربت بیروزگاری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول نہیں جاسکتے۔ وہ یا پھر ابتدائی مرحلے میں ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں. کیا ریاست کا یہ اولین فرض نہیں کہ وہ ایسے بچوں کی ذمہ داری لیکر انہیں گود لے اور حکومتی خرچ پر کم از کم انٹر تک تعلیم کو یقینی بناہے. ریاست ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے ہی اپنی یہ اولین ذمداری نبھانا ہو گی.

یونیسکو کی رپورٹ کی مطابق پاکستان میں اس وقت دو کروڑ تیس لاکھ بچے اپنے نامساعد حالات  کی وجہ سے سکول نہیں جا سکتے جبکہ دو کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں . اب سوال یہ ہے کہ وہ بچے جو سکول نہیں جا پا رہے انکی تعلیم و تربیت کس کا کام ہے ؟ کیا ریاست ان بچوں کو نذر انداز کر کے تعلیم کا نظام بدلے بغیر ، نصاب کی تبدیلی لا کر صرف کھوکھلا کریڈٹ  لینا چاہتی ہے ؟                 وفاقی حکومت کو یہ نہیں بھلنا چاہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ اسکے دائرہ اختیار میں نہیں رہا اور تعلیم کے لئے کوئی بھی فیصلہ صوبوں اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور مرضی کے بغیر نہیں کر سکتی جس میں پارلیمان کا کردار سب سے اہم ہے .
جب عمران خان دوہزار آٹھ میں میانوالی جیسے ۔ پسماندہ علاقے میں نمل یونیورسٹی شروع کر رہے تھے تو ناچیز نے لکھا تھا کہ میانوالی کو سب سے پہلے معیاری سکول کالج چاہیں، ناکہ لش پش قسم کی ایک یونیورسٹی ، کیوں کہ میانوالی میں اس وقت بچوں کوابتدائی تعلیم دلوانا بھی مشکل تھا ، بلکہ آج کی صورتحال بھی میانوالی اور جنوبی پنجاب میں مختلف نہیں، جہاں سکول کالج ہر گاؤں تحصیل میں جتنے بھی ہوں کم ہے . وفاقی حکومت کی کی ترجیحات پر اگر نظر ڈالیں توہنسی اور رونا دونوں ہی ساتھ ساتھ آنے ہیں، دکھ تکلیف اور افسوس الگ۔ 

وفاقی وزارت تعلیم کا کل دائرہ اختیار اسلام آباد ہی ہے جو پچیس سے تیس کلومیٹر سے زائد نہیں بنتا اور یہاں کے قریبا چار سو ٹیچنگ اور سترہ سو نان ٹیچنگ اسٹاف  گزشتہ دس سے بارہ سال سے ڈیلی ویجرز پر ہیں اور وہ سترہ ہزار کی معمولی تنخواہ پر نہ صرف سکول میں ابتدائی تعلیم دے رہے ہیں بلکہ اسی تنخواہ میں یہ اساتذہ کالج کے بچوں کو گریجویشن اور ماسٹرز کی کلاسز بھی پڑھاتے ہیں . اعلی عدالتوں سے اپنی مستقلی کے کیس جیت چکے ہیں لیکن وفاقی حکومت انکو مستقل کرنے سے مسلسل گریز کر رہی ہے . حالانکہ نوں لیگ کے دور میں جب یہ اساتذہ ہڑتال پر تھے تو یہی شفقت محمود، اسد عمر ، شہریار آفریدی اور دوسرے رہنما انہیں ہرتال پر نہ صرف اکساتے تھے. 
بلکہ حکومت ملتے ہی انہیں مستقل کرنے کا جھانسہ دیا کرتے تھے . حکومت کو اقتدار حاصل کیے  دو سال کا عرصہ بیت چکا لیکن یہ اساتذہ آج بھی اسی حال میں تعلیم دے رہے ہیں جو حال انکا نون لیگ کے دور میں تھا .کئی کئی ماہ انکو تنخواہ سے محروم رکھا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اب تو یہ وفاقی وزرا ان سے ملنے سے بھی کتراتے ہیں۔

وفاق کو چاہیے  کہ پہلے تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات اور تبدیلیوں کے لئے اپنی ترجیحات درست کر لے اور اسکا آغاز نظام کی تبدیلی سے کرے. ساتھ ساتھ ٹیکنیکل اور سماجی بہتری کی تعلیم پر توجہ دے ، دین کی تعلیم والدین خود بہتر طور پر دلا دیں گے کیوں کہ بچوں کو جدید تعلیم جدید  دور کی ضرورت تقاضوں کے مطبق دینا ریاست کا فرض ہے. دینی تعلیم والدین اپنی  سہولت اور فقہ مسلک کے مطابق بہتر طور پر دے سکیں گے.

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔