محققین معاشروں میں نفرت، تنگ نظری اور تعصبات پروان چڑھنے کی ایک اہم وجہ نصابی کتب بتاتے ہیں۔ ہندوستان، پاکستان، اسرائیل، ترکی، شمالی اور جنوبی کوریا خاص طور پر وہ ممالک ہیں جہاں نوجوان نسل کو نصابی کتب کے ذریعے تعصب اور نفرت کی آگ میں پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ یہاں جنوبی افریقہ کا ذکر کرنا بڑا ضروری ہے جہاں نسلی تعصب کے خاتمے کے بعد نصابی کتب نئے سرے سے لکھی گئیں کیونکہ ان کا مقصد ایک ایسی قوم کو ارتقا پذیر کرنا تھا جہاں سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محبت، انصاف اور رواداری کے ساتھ رہ سکیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ وہی معاشرے شعوری ارتقا پذیر ہوپاتے ہیں جو رنگ، ذات اور عقائد کی قیود سے ماورا ہو کر قوم کی تشکیل کرتے ہیں، اسی لیے کہتے ہیں علم جہاں سے ملے اسے حاصل کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ مگر پاکستان میں اس کے بالکل برعکس برسراقتدار آنے والی مختلف حکومتوں نے علم کی وسعت کو محدود کر کے اسے نظریہ پاکستان اور عقائد کے رنگ میں پرونے کی کوشش کی ہے اور یوں تعلیمی نصاب میں اسلامی معیشت، اسلامی عمرانیات اور اسلامی سائنس جیسی اصلاحات نے جنم لیا۔
اسی طرح ڈارون کے ارتقا کے سائنسی نقطہِ نظر کو مختلف عقائد سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے طالب علموں پر ایسا نظریاتی بوجھ پڑتا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی ہندو انتہا پسندوں نے ویدک علم کو سکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کی سعی شروع کر رکھی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اکیسویں صدی میں ریاستی نظریے کو تقویت پہنچانے کے بجائے نئی تحقیق کو بنیاد بنا کر نصاب کی تیاری کو رواج دیا جائے۔
یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں ہر سمسٹر کا نصاب علیحدہ ہوتا ہے اور نئی تحقیق کے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ نصاب بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ نصاب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے اور چونکہ معاشرے کی ضروریات برابر بدلتی رہتی ہیں اس لیے نصاب بھی برابر بدلتا رہتا ہے۔
اگر نصاب زماں و مکاں کی شعوری آگاہی دینے سے قاصر رہتا ہے تو اس صورت میں علم اور سماج میں کوئی رشتہ نہیں بن پاتا اور یوں رفتہ رفتہ علم فرسودہ ہوتا جاتا ہے اور اس کے پڑھنے والے ذہنی طورپر جمود کا شکار ہو کر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ آج کل ”نئے پاکستان“ میں نصاب کے ساتھ یہی رویہ روا رکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حال ہی میں پورے ملک کے لیے یکساں تعلیمی نصاب جاری کرنے فیصلہ کیا ہے جس سے ایک بار پھر ضیاالحق کی یاد تازہ ہوگئی ہے کیونکہ اس نصاب کا اصل مقصد نصابی کتب کے ذریعے عقائد کی اس طرح ترویج کرنا ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ مدارس کے طلبہ کی طرح رٹا لگا کر پاس ہو جائیں اور ان میں تنقیدی شعور کی آبیاری نہ ہوسکے۔
عمران خان نے الیکشن سے پہلے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا وعدہ کیا تھا جس میں تعلیم، صحت، روزگاراور ٹرانسپورٹیشن کو ریاستی ذمہ داری میں لینے کا وعدہ شامل تھا۔ تعلیم کے شعبے میں تحریک انصاف نے وعدہ کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 25-A کے عین مطابق تمام بچوں کو تعلیم کے زیور سے نوازا جائے گا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج بھی یونیسف کی تحقیق کے مطابق تقریبا دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد بچے سکول جانے سے قاصر ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھا کر ان بچوں کے لیے سکول تعمیر کراتی لیکن اس نے اقتدار میں آتے ہی صدارتی نظام کی بحالی کی کوششیں شروع کر دیں۔ اٹھارویں ترمیم کی بدولت جو صوبائی خودمختاری حاصل کی گئی ہے اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جارہی ہے اور یہ یکساں تعلیمی نصاب کی جستجو بھی اسی جانب ایک قدم ہے کیونکہ اس نصاب کے بنیادی مقصد کے طور پر کہا گیا ہے کہ ایک قوم کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیے۔ یہ بنیادی مقصد اٹھارویں ترمیم سے متصادم ہے۔
یاد رہے وفاقیت پاکستانی آئین کا ایک لازمی جزو ہے جس کے مطابق یہاں مختلف قومیں ہزاروں سالوں سے اپنی زبان، ثقافت، جغرافیائی اور تہذیب و تمدن کے ساتھ آباد ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا نصاب فطری اور لازمی اجزائے ترکیبی، ان قوموں کی باہمی رضامندی اور سودوزیاں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے۔ مضبوط مرکز کی بجائے مضبوط پاکستان کا ہونا لازمی ہے۔
اگر آپ مضبوط مرکز کے نام پر پاکستان میں رہنے والی قوموں سے ان کے اختیارات چھین لیتے ہیں تو آپ ان میں نفاق اور بداعتمادی کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔ یکساں تعلیمی نصاب کی بدولت تحریک انصاف کی حکومت ایک مضبوط مرکز کی طرف تو گامزن ہوسکتی ہے لیکن مضبوط پاکستان کا حصول ناممکن ہوجائے گا۔ پاکستان کا نصاب ایک ایسے چمن کی مانند ہونا چاہیے جہاں مختلف پھول، الگ خوشبوؤں و رنگوں کے ساتھ چمن کی رونق میں اضافہ کررہے ہوں ناکہ ایک پنجرے میں قید مختلف پرندوں کی مثال کے مصداق ہو۔
تعمیری تعلیمی نصاب میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بچے کو خاندان، گلی، محلے، شہر، ضلع و صوبائی رواج و ثقافت سے روشناس کراتے ہوئے مرکزی قومیت سے مربوط کرتا ہے۔
یاد رہے تہتر سالوں سے پاکستان میں دو قومی نظریے کے سائے تلے ایسے ہی تعلیمی نصاب و سوچ کی ترویج کی گئی ہے اسی وجہ سے آج دوسرے صوبوں کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت کو بلوچستان کے تین شہروں کے نام تک معلوم نہیں۔ تحریک انصاف کا یہ جاری کردہ نصاب آئین کے آرٹیکل 22-A سے بھی متصادم ہے۔ مثلا اس میں کہا گیا ہے کہ اردو کی ہر کتاب کا آغاز ایک حمد اور نعت سے ہوگا اور انگریزی کی کتاب میں بھی ایک چیپٹر سیرت و نبوی ﷺ پر مبنی ہوگا۔
غیر مسلموں کا نصاب آئین کے مطابق بنانے کے بجائے یہ کہا گیا ہے کہ جب استاد یہ اسباق پڑھا رہے ہوں تو غیر مسلموں کو کلاس سے باہر بھیج دیں لیکن اس نصاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ باہر جا کر کیا کریں۔ غیر مسلموں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف آرٹیکل 22-A کی خلاف ورزی ہے بلکہ قائداعظم کی گیارہ اگست 1947 کی تقریر سے بھی روگردانی ہے۔
نصاب کی کتابیں دراصل کسی بھی معاشرے کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں، یہ محض نصابی کتب ہی نہیں ہوتیں بلکہ اہل اقتدار اور حکمران طبقوں کے خیالات و نظریات کی بھی عکاس ہوتی ہیں کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے تہذیبی شعور سے آشنا کرانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کا یکساں تعلیمی نصاب کا تصور پاکستانی نوجوانوں کو ہر قسم کے ارتقائی شعور سے دور کرنے کا سبب بنے گا اور پاکستان میں موجود ہر عوامی دانشوروں کو ریاستی دانشوروں کی ان کاوشوں کا حقائق اور دلائل سے مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ پاکستان بھی اکیسویں صدی میں علم کے زیور کے ساتھ مزین ہو نہ کہ رجعت پسندی، نفرت و تعصب کے گھپ اندھیروں کا شکار ہوجائے۔