یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں جاری بحث سے بہت پہلے 2019 میں سرکاری اعلان کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھا دیا تھا کہ کیا یکساں نصاب پاکستان میں موجود لسانی، مذہبی، مسلکی و فکری تنوع کے لئے سمِ قاتل ثابت نہیں ہوگا۔ کیا مجوزہ تعلیمی یکسانیت بذاتِ خود تعلیم کے مقاصد کے برعکس نہیں ہوگی؟ مگر کیوں کہ عوامی سطح پر یکسانیت کے مفہوم کو طبقاتی اونچ نیچ کے ساتھ جوڑا گیا تھا اس لئے اس نعرے کی سیاسی افادیت بہرحال برقرار رہی۔
البتہ جونہی یکساں نصاب اوراس کے بعد 2021 میں اس نصاب کے تحت کتابیں چھپ کر سامنے آئیں تو حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہونے لگی۔ اولاً تو نئی کتابوں یا باالفاظِ دیگر نئے نصاب کا پرانے سے کوئی معیاری فرق اثبات میں کم اور معکوس میں زیادہ تھا لہٰذا اساتذہ والدین اور ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق دکھائی دی کہ درسی کتابوں میں 80 سے 90 فیصد مواد 2009 والے نصاب کا ہے۔ تو سوال اٹھا کہ نئی نصاب پالیسی میں نیا کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ نئی کتابوں میں جو تصورِ حیات پیش کیا گیا تھا وہ قرون اولیٰ یا قرونِ وسطیٰ کا تھا۔ 21ویں صدی کے تعلیمی تقاضے اس سے پورے نہ ہوتے تھے۔ لباس کے چناؤ سے لے کر امورِ زندگی میں عورت مرد کے کردار کی رجعتی تقسیم نمایاں تھی۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق کی تحقیق بھی ثابت کرتی تھی کہ باوجود کہ ایسا مواد جو مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیزی پر مبنی تھا اس کو کافی حد تک خارج کیا گیا لیکن اکثریتی مذہب کو برتربیان کرنے کا رحجان غالب اور اقلیتی مذاہب کا تذکرہ علامتاً کیا گیا تھا۔ (دی نیوز یکم اگست 2021)
ادھر جون 2018 سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست زیر سماعت تھی جس میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان، سیسل اینڈ آئرس چوہدری فاونڈیشن اور ادارہ برائے سماجی انصاف کی طرف سے شواہد کے ساتھ یہ شکایت سامنے آئی کہ نظام تعلیم بالخصوص درسی کتب میں مذہبی تعصبات اور امتیازات پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر غیر مذہبی لازمی مضامین کی کتابوں میں جگہ جگہ اکثریتی مذہب کی تعلیمات شامل کی گئیں جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 22(1) کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہ آرٹیکل ضمانت دیتا ہے کہ بچوں کو ان کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی دین کی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
فروری 2021 کے دوران ہونے والی پہلی سماعت میں سپریم کورٹ نے وفاقی وزارتِ تعلیم سے تقاضا کیا کہ وہ ایک تحریری رپورٹ کے ذریعے وضاحت کرے کہ آئین کی پاسداری ہو رہی ہے یا نہیں۔ اگلی تاریخ پر رپورٹ بغیر دستخط کے پیش ہوئی تو سیکرٹری وزارتِ تعلیم کی سرزنش کے ساتھ سپریم کورٹ نے دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے "کہ وزارت تعلیم نے نا جانے کیا بنا دیا ہے، ہمیں تو ساٹھ سال پہلے والا نصاب دے دیں وہ بہتر تھا"۔ (دی نیوز یکم اپریل 2021)
جون 2021 میں دوبارہ سماعت کے وقت درخواست دہندگان کی وکیل حنا جیلانی نے سپریم کورٹ بنچ کو بتایا کہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کی نئی کتابوں میں آئین کے آرٹیکل 22(1) کی خلاف ورزی موجود ہے۔ عدالت نے اس پر ایک نئی درخواست کے ذریعے اگلی سماعتوں میں شواہد پیش کرنے کی ہدایت کی۔
تاوقت تحریر بنچ کی کارروائی نہیں ہوئی لیکن توقع یہ ہے کہ آئندہ سماعت میں یہ معاملہ ضرور زیر بحث آئے گا اور عدالت درسی کتب کے مواد کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرے گی کہ لازمی مضامین میں شامل مذہبی مواد اور اسباق آرٹیکل 22(1) کی خلاف ورزی ہے یا نہیں۔
مندرجہ بالا عدالتی کارروائی ان سماعتوں کا حصہ تھی جو 19 جون 2014 میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ بینچ کے حکم کی تعمیل کا جائزہ لیتا ہے۔ جسٹس جیلانی کے سات احکامات میں دوسرا حکم یہ تھا کہ تعلیم کو فروغ امن کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ سماجی اور مذہبی برداشت کا ماحول پنپ سکے۔
پانچ سال گزرنے کے باوجود 2019 تک چونکہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد جزوی اور علامتی تھا اس لئے سپریم کورٹ نے ایک ون مین کمیشن کا قیام عمل میں لاتے ہوئے ڈاکٹر شعیب سڈل کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ڈاکٹر رامیش کمار اور ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی پر مشتمل کمیٹی کے ہمراہ سپریم کورٹ کے احکامات کا جائزہ لیں اور عدالت کو تواتر کے ساتھ آگاہ کریں۔
سڈل کمیشن اپریل 2021 تک اس ضمن میں سپریم کورٹ کو آٹھ رپورٹیں پیش کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں سرکاری محکموں اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ درجنوں اجلاس بھی کیے۔ اجلاس میں درخواست گزاروں کی حکومتی اہلکاروں سے ملاقات بھی کروائی جاتی تاکہ قانون اور آئین کے تحت انتظامی اور محکمانہ معاملات کو سلجھا کرعدالت کو عمل درآمد کی رپورٹ دی جا سکے۔ ایک ملاقات یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے اسلام آباد میں ون مین کمیشن کے دفتر میں ہوئی۔ البتہ یکساں نصاب کے متعلقین نے درخواست گزاروں کے مؤقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے عدالتی کارروائی پر اکتفا کرنے کا عندیہ دے کر بات ختم کر دی۔
البتہ وزارت انسانی حقوق پنجاب جو مندرجہ بالا عدالتی کارروائی میں پنجاب حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے رپورٹیں تیار کرتی ہے انہوں نے سڈل کمیشن کی سپریم کورٹ میں داخل کردہ رپورٹوں کی روشنی میں پنجاب کریکولیم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ کے حکام کو ایک مراسلہ جاری کیا کہ آئندہ چھپنے والی درسی کتب میں آئین کے آرٹیکل 22(1)کے احترام کو یقینی بنائیں گے۔
آئین کی پاسداری بادی النظر میں ہر سرکاری اہل کار اور شہری کا فرض ہے مگر اس شق کی پاسداری کا مراسلہ کچھ لوگوں کو نہیں بھایا حالانکہ معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ سیاسی و سرکاری سرپرستی کے حامل تنگ نظر مذہبی افراد اور میڈیا کے مخصوص کردار سامنے آ کر پروپیگنڈا کرنے لگے کہ کتابوں سے مذہبی مواد کو خارج کیا جا رہا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ گورنر پنجاب کی مداخلت ہوئی اور وزارتِ انسانی حقوق پنجاب کو متذکرہ مراسلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا (وائس پی کے 27 اپریل 2021) آئین کی بجاآوری کا سوال ابھی منت کش ہے۔
مندرجہ بالا واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سرکاری مشینری اور سیاسی اربابِ اختیار میں ایک طبقہ ایسا ہے جو دینی تعلیم اور ریگولر تعلیم کے درمیان فرق سے واقف نہیں بلکہ یوں کہیے کہ وہ اخلاقی تربیت کو معمولات دینی تعلیم میں ضم کرنے کی فکری غلطی کر رہا ہے کیونکہ اخلاقی تربیت نصائح سے زیادہ اچھے رول ماڈل کا تقاضا کرتی ہے جب کہ معمولاتِ دین میں یادداشت بلکہ ازبر کرنے پر کافی حد تک انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دونوں کا مقام اور اوقات الگ ہیں۔ لیکن جہاں تعلیم کے دقیق مسائل کو معرکہ کفر و باطل کے طبل سے شروع کیا جائے وہاں معیار تعلیم اور مذہبی رواداری کے مقاصد کسی پرُ پیچ بحث سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
یکساں نصاب تعلیم کے بیان کردہ مقاصد میں مدارس کو ریگولر نظام تعلیم سے ہم آہنگ کرنا شامل تھا۔ مندرجہ بالا بحث سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ ہم آہنگی مدارس کے حق میں زیادہ اور جدید تعلیم کے حق میں کم ہے۔
ذریعہ تعلیم یعنی زبان کے چناؤ کے حوالے سے وفاقی وزارتِ تعلیم کے اہلکاروں کی جانب سے کئی مرتبہ یہ وضاحت آنا ضروی ہو گئی کہ اگر صوبے ابتدائی تعلیم (پرائمری) مقامی زبانوں میں دینا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن عملاً وزارتِ تعلیم پنجاب اور ایچیسن کالج کے درمیان خطوط کا تبادلہ یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت انگلش میڈیم سکولوں کو طریقہ تدریس میں زبان کا چناؤ کرنے میں آزاد نہیں چھوڑے گی۔ یہ ناصرف سکول بلکہ بچوں اور والدین کے حقِ انتخاب پر ضربِ کاری ہوگی۔ (دی نیوز 7ستمبر 2021)
مندرجہ بالا بحث سے عیاں ہوتا ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کی پالیسی کو کئی فکری اور اطلاقی مسائل کا سامنا ہے۔ لفظ فکری کو اگر منطقی اور عقلی کے معنوں میں بیان کریں تو اس کا مطلب ہے کہ اس مفروضے پر مناسب تحقیق نہیں ہوئی کہ یکساں نصاب تعلیم سے وہی نتائج برآمد ہوں گے جن کی طلب کی جا رہی ہے۔ یہ سوال واجب ہے کہ کیا دنیا میں کہیں یکساں نصابِ تعلیم سے یکساں حقوق اور معاشی مساوات کا حصول ممکن ہوا ہے۔ اگر ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوا تو پاک وطن میں کیسے ممکن ہوگا؟
اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈنا ہوگا کہ آیا یکساں معیار تعلیم (اگر یہ مقاصد میں شامل ہے) کیا محروم سکولوں اور طلبہ کو اضافی وسائل مہیا کرنے سے ممکن ہے یا صرف حکمِ حاکم کافی ہے۔
پیٹر جیکب نیشنل کریکولم کونسل کے رکن، سپریم کورٹ میں، ادارہ برائے سماجی انصاف کے نمائندہ، ریسرچر اور فری لانس اخبار نویس ہیں ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے jacobpete@gmail.com