موجودہ اورشاید تمام سابقہ حکومتیں یہ سمجھنے یا تسلیم کرنے سے انکاری رہی ہیں کہ ہمار مسئلہ یکساں نصابِ تعلیم، حتیٰ کہ یکساں نظامِ تعلیم اور ذریعہء تعلیم بھی نہیں رہا بلکہ ہمارا مسئلہ ترقی پسندانہ اور معیاری عصری تعلیم ہے جس کا عہد 'یکساں نصابِ تعلیم' متعارف کرواتے وقت موجودہ حکومت کے چار عہوُد میں سے ایک تھا ـ اور اِسی مسئلے کے حل میں اولا لذکر دونوں مسائل کا حل بھی مُضمر ہے اور یہی ناکامی ھماری درجن بھر قومی پالیسیوں اور اس سے کہیں ذیادہ نصابوں کی ناکامی کا سبب بھی ھے ـ آزادی کی اولین دہائی سے لے کر زیرِ اِطلاق 'یکساں نصابِ تعلیم' اور زیر ترتیب نئی قومی تعلیمی پالیسی کو اُٹھا لیجئے، اربابِ اختیار کا خیال رھا ھے کہ شاید ذیادہ اسلام پڑھانے سے یا بچوں کے نوزائیدہ ذہنوں پر حُب الوطنی کے ہتھوڑے چلانے سے، ہم ایک مضبوط ملک اور قوم بن کراُبھریں گے ـ پے درپے ناکامییوں کے باوجود بھی مذکورہ بالا پالیسی رُحجانات برقرار رکھنے کو اب ایک نظریاتی سرطان کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ـ مگرہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صِرف اور صِرف ایسی صُورت میں ھوتا ھے جب ریاست تعلیم کو بذات خود ایک مقصد کی بجائے کُچھ اور سیاسی یا سماجی مقاصد کے حصول کیلئے بطور ہتھیار اِستعمال کرتی ہے ـ
مُعاشرے میں بڑھتی ھوئی اِنتہا پسندی، اخلاق باختگی اور مُسلسل گِرتی ھوئی اہلیت سے بار بار عیّاں ھو چکا ہے کہ تعلیم کے بارے میں ھمارا نقطہء نظر فرسودہ، بے سٓمت، غیر معیاری، غیر منطقی اور غیر سائینسی ھے ۔ جِسے کوئی بھی ماہرِ تعلیم یا مُسلِمہ عالمی تعلیمی ادارہ بیّک جُنبشِ نظر رَد کر دے گا ـ پھر بھی موجودہ حکُومت اور ماضی قریب و بعید کی کم و بیش تمام حکومتوں کا دُھراء یّک مِزاج ویّک خیال قومیّت سازی اوروطن پرستی مَینو فیکچر کرنے پر ٹِکا ھوا ھے ـ مثال کے طور پر مُجوّذہ 'یکساں نصابِ تعلیم' ( تا حال پہلی سے پانچویں تک کا نصاب منظرعام پر آچکا ھوا ھے) ماسوائے چند پہلوؤں کے علاوہ، جن میں غیر مسلموں کے لئے الگ مزہبی نصاب کی تیاری، کِسی حد تک فرقہ ورانہ، مُتعصبانہ حوالوں کا کم کرنا اور جزوّی طور پر ماحولیات، جمہوریت، مساوی حقوق اور ساٰئینس وحرفت وغیرہ شامل ہیں' اب بھی ھمارا نصاب پہلے کیطرح غیر معیاری، غیرترقی پسندانہ اور روائتی اِنعطاف رکھتا ہے، اور یہی ھماری ناکامیوں کا سبب ھے ـ
مجوّزہ نصاب، درسی کُتب اور بُنیادی حقوق : سائنسز کو چھوڑ کر جو واقعی نسبتاً بہتر ہیں، سماجی سائنسز میں ھماری درسی کُتب اب بھی اسلامیّات، حُب الوطنیت، یکسانیّت اوررُجعت پسندی کا ملغُوبہ ہیں جو کہ نہ صرف بچوں کو معروضی تعلیمی مقاصد اور حاصلات سے دور لے جاتی ہیں بلکہ اقلیتی حقوق کے اعلامیوں اور میثاقات کیِ متعلقہ شِقوں حتیٰ کہ آئینِ پاکستان کے دفع 22 کی بھی جزوی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہیں ـ سیاسی بیانات کے برعکس نئے درسی کُتب میں بھی 10 سے 40 فیصد تک مذہبی مواد شامل ھے ـ اور تو اوراعلٰی سطحِ تعلیم تک بھی کسی نہ کسی طرح یہ سلسلہ جاری رکھا گیا ھے ـ کہانی یہیں تک ختم نہیں ھوئی ـ حال ہی میں حکومت پنجاب نے 2018 کے ایکٹ میں ترمیم (2021) کرکے اول تا پنجم ناظرہ اور ششم تا گیارہویں با ترجمہ قران پڑھنا اور پڑھانا تمام سرکاری و نجی سکولوں کیلئے ایک علیحدہ لازمی مضمون کے طور پر متعارف کروایا دیا ھے جوکہ طللباء پر اردو، انگریزی اور مادری زُبان کیساتھ ساتھ چوتھی اور ایک انتہائی مشکل زبان کا بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے ـ جبکہ دارالحکومت کی سطح تک عربی کو لازم قرار دیے جانے کی قرار داد بھی پچھلے مہینوں میں پاس کی جا چُکی ھے ـ انسانی حقوق کے اصول مذہبی تعلیم کو، ریاست کا نہیں، بلکہ والدین کا حق قرار دیتے ہیں کہ وہ جیسا، جتنا اور جو کوئی عقیدہ اپنے بچوں میں منتقل کرنا چاہیں، یہ اُنکا حق ھے ـ اس لئے رسمی مذہبی تعلیم کو مُمکنہ حد تک کم سے کم رکھنا چاہیے ـ
علاوہ ازیں اب بھی ھم طبعیّات، حیاتیّات، کیمیّا، حتیٰ کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھی اپنے حَجری واِنجمادی عقائد کا شاخسانہ قرار دینے کے بعد طلباء و طالبات کو سائنس کی ابجد کیجانِب اپنا لرزیدہ قدم اُٹھانے کی اجازت دیتے ہیں ـ خفی یا جلّی، یہ اشارہ بھی کہیں نہ کہیں کر دیتے ہیں کہ "خبردار ایسی باتوں پر یقین کرنے سے آپ کا ایمان جاتا رھے گا" ـ رہی سہی کسر راسخ العقیدہ اَساتذہ پُوری کر دیتے ہیں ـ ادب، سماجیات اور تاریخی موضوعات پہلے تو لکھے ہی اس طرح گئے ہیں کہ طلباء کو کُچھ بھی سمجھ آئے مگر ادب، تاریخ اور سماجیات اور سیاسیات کا درُست فہم و ادراک نہ ھونے پائے ـ مطلب، اربابِ اختیار کے مُسلسل اسرار کے باوجود مُتعیّن کردہ نئی سمت بھی مکمل طور پر درُست سّمت نطر نہیں آتی ـ
معیار تعلیم کا مسئلہ: کم از کم ایک دہائی سے سالانہ رپورٹ برائے معیار تعلیم (اثر) یہ دِکھا رہی ھے کہ صِرف اردو، انگریزی اور ریاضی میں ہی جماعت ہشتم کے 30 سے 50 فیصد طلباء کا معیار جماعت پنجم کے طلباء کے برابر یا اُن سے بھی کم ھے ـ بین الاقوامی اِمتحان برائے سائنس و ریاضی (ٓ2020) میں شامل ھونے والے 75 مُلکوں میں سے پاکستان کا رینک آخری ھے ـ یعنی پاکستان سائینس اور ریاضی میں دُنیا کا تقریباً نالائق ترین مُلک ھے مگر پھر بھی ھمارا سارو زور طلباء میں سائنسی اور فکری صلاحتیں بہتر کرنے کی بجائے ایک 'سچا اور پکا پاکستانی اور مسلمان' بنانے پر ھے اور گردان وہی پُرانی کہ 'پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ھے' ـ
قصہ کوتاہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ شاید ذریعہء تعلیم بھی نہیں، جس پر کئی ماہرین اَساطیری بحث کا رُحجان رکھتے ہیں ـ فی الوقت ھمارے سرکاری سکولوں کا مسئلہ یکساں نظام تعلیم بھی نہیں ھے بلکہ اعلٰی معیار تعلیم ھے ـ یہی وجہ ھے کہ ذیادہ تر والدین، حالیہ وزیران و مشیرانِ تعلیم کے بُلندو بانگ دعووں کے باوجود، اپنے بچوں کو حسبِ اِسطاعت اچھے بُرے نجی سکولوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں جو کہ اِس وقت مُلکی تعلیم کا44 فیصد حصہ بنتے ہیں ـ باوجود یہ کہ بڑی تعداد میں کم فیس لینے والے سکولوں کا مَعیار بھی انتہائی کمزور ھے مگر والدین کا تآثر یہی ھے کہ وہ سرکاری سکولوں کی نسبت بہتر تعلیم دے رہے ہیںـ جس سے بہ شدید ظاہرھوتا ھے کہ پاکستانی عوام نہ تو اسلامی تعلیم کیلئے دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ھوئے ہیں اور نہ ہی پاک سرزمین کے عشق میں مرے جا رہے ہیں ـ بلکہ وہ اپنے بچوں کے لئے معیاری سائنسی، عقلی، منطقی، ریاضیاتی اور تکنیکی تعلیم کی تلاش میں سرگرداں ہیں ـ اِسی لئے اپنی محنت و شاقہ سے پس انداز کی ھوئی جمع پونجی لگانے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں ـ یعنی جب تک ھمارے اربابِ اختیار اپنے خود ساختہ سماجی، مزہبی اور سیاسی 'نیّوراسس' سے نہیں نکلتے والدین اپنا حق اور آزادی اِستعمال کرتے ھوئے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے سے کتراتے رہیں گے ـ یہاں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ھے کہ مدرسوں میں بھی والدین اپنے بچوں کو مزہبی ونظریاتی محلول پی کر اَمر ھو جانے کے لئے نہیں بھیجتے بلکہ اپنی غربت، اور وہاں کی اقامتی سہولت، مفت تعلیم اورمفت غذا مّیسر ہونے کیوجہ سے بھیجتے ہیں ـ میری رائے میں اگر کل سے ھمارے سکول یہ ذمہ داری اٹھا لیں تو پرسوں سے مفلوک الحال والدین کی ترجیحات بدل جائیں گی ـ
معیاری تعلیم کیسے متعارف کروائی سکتی ھے : وزیروں، مشیروں اور ممبرانِ قومی نصاب کونسل کی تکرار کے باوجود بھی زیرتشکیل نصاب (ٓ سوائے جُزیات کے) مکمل طور پر معروضی، سائنسی، تکینیکی اور تعقُل پسند نہیں ھےاور نہ کہیں سے ایسی کوئی چّکا چوند کر دینے والی جلوہ نُمائی ھوتی ھے جہاں سے باور ہو کہ یہ نصاب ترتیب دیتے وقت درج بالا خصوصیات کو مدِ نظر رکھا گیا ھے یا پھر حسبِ دعویٰ، سنگاپور، کیمبرج، فِن لینڈ یا معروف اداروں کے مقامی ماہرین سے استفادہ کیا گیا ھے ـ بڑے بڑے نجی سکولوں کا سہمت ھونا محض سیاسی اتفاق رائے سے ذیادہ اہم نظر نہیں آتا کیونکہ اُنکا اپنا نصاب کئی گناء بہترھے اور کم و بیش اُن سارے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے جو قومی نصاب کونسل کے سفارش کردہ ہیں اور ساتھ ہی انکو اپنا نصاب پڑھانے کی آزادی بھی دی گئی ھے ـ اِس لئے یہ توقع عبث ھے کہ وہ اپنا نصاب چھوڑ کر مجوّزہ نصاب اختیار کریں گے اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کے لئے رسمی طور پر پابند ہیں ـ جبکہ جُملہ تنظیمات المدارس نے شرائط عائد کرنے کے ساتھ پہلے سے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ اُنہیں یکساں نصابِ تعلیم اختیار کرنے میں پانچ، چھ سال لگ سکتے ہیں ـ بلوچستان اور صوبہ سندھ نے پہلے ہی یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ سے انکار کر دیا ہے اور اَٹھارویں ترمیم کے تحت وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ یعنی نام نہاد یکساں قومی نصاب تمام تر نِجی سکولوں اور مدرسوں کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ رہا ھے ـ طُرفہ یہ کی اِس عمل کے آغاز سے آج کے دن تک وزیر اعظم، وفاقی وزیر تعلیم اوروزیر تعلم پنجاب (ٓاور کئی دوسرے ایم پی ایز نے ) اپنے پے درپے متضاد بیانات دے کر عوام اور والدین کے ذہنوں میں بے پناہ کنفیوژن پیدا کی ھےـ
برخلافِ دعویٰ پہلی تا پانچویں کی ماڈل درسی کُتب بڑی حد تک تنقیدی اور فکری شعور اُجاگر کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں ـ کم از کم سماجی علوم کے مختلف مضامین میں بس کچھ معلومات کو بے ہنگم طریقے سے گانٹھ پِرو دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چہارم اور پنجم کے اردو اور انگریزی کے ذیادہ تر مضامین، کہانیاں اور نظمیں انتہائی غیر دلچسپ اور پُھسپھسی ہیں ـ یومِ پاکستان، عید الاضحیٰ، اور انگریزی میں لیٹس بی ہیلپفل، نیشنل اینیمل اور ٹالیرینس میں اَحسن اقدار کو بھی کافی بورنگ طریقے سے بیان کیا گیا ہے ـ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایسے موضوعات نہیں ھونے چاہییں بلکہ یہ کہ ایسے موضوعات کو مزید دلچسپ اور موثر طریقے سے بیان کیا جا سکتا تھا ـ جن مضامین کا بظاہر دوُر دوُر کا واسطہ بھی نہیں ھے وہاں بھی گُھوم پھرکر تبلیغ، فوج پسندی اور حب الوّطنی واپس آجاتے ھیں۔ ھم سب جانتے ہیں کہ قاٗئد اعظم اور علامہ اقبال کے خیالات نسبتاً مختلف تھے مگر پھر بھی دونوں کو خلط ملط کر کے بیان کیا جاتا ہے ـ پانچویں جماعت کی اردو میں بچوں کو اردو زبان و ادب سکھانے سے ذیادہ زورھماری مرغوب و محبوب "اقدار" پر ہے ـ معروف شاعروں اورادیبوں کی بھی ایسی کہانیاں اٹھائی گئی ہیں جن سے بچوں میں شعرو ادب کا شعُور بیدار کرنے کا بجائے حُب الوطنییت یا مُسلمانیت کی دوسری یا تیسری تہہ چڑھائی جا سکے ـ
جسے وزیرِ تعلیم موصوف کم سے کم معیار تعلیم دے قرار دے رہے ہیں اس میں بہت واضح خلاء اور کمزوریاں ہیں ۔ جس پر مضبوط علمی بنیادیں نہیں اُٹھائی جا سکتیں ۔ ہر چند کہ حاصلِ اکتساب کے اصول 2006 کی تعلیمی پالیسی کے ہی وضع کردہ ہی ہیں لیکن اس ضمن میں جومشقیں دی گئی ہیں وہ ضرورت سے زیادہ طویل ہیں ۔ اِن تمام مسائل کے با وجود یہ بات مَبنی برحقیقت ھے کہ مذہبی نقطہء نظر سے حالیہ نصاب نسبتاً روادارانہ اور غیر فِرقہ ورانہ ھے، صنفی مساوات، مساوی شہریت اور سماجی یگانگت کے پہلوُبھی ذیادہ اُجاگر ہیں، کسی حد تک غیر متنازعہ تاریخ اور مُتنوع شناخت کو بھی گنجائش دی گئی ھے اور ماحولیّات، ٹیکنالوجی، اور کارباری صلاحیتں اجاگر کرنے کو بھی تھوڑی بہت جگہ دی گئی ھے ـ مگر اپنے بیانات کے باوجود اسلامیات کو اسلامیات تک محدود نہیں رکھا گیا ـ ہشتم، نہم، دہم اور گیارہویں، بارہویں کا ںصاب پلان مطابق 2023 تک جب آئے گا، اُس وقت تک حکومت بدل چکی ھو گی، نصاب اور پالیسی اطلاق ادھورے رہ جائیں گے ـ اور حسبِ سابق کوئی پوچھنے والا نہیں ھو گا ـ کیونکہ نصاب اور تعلیمی پالیسیوں کو بے نتیجہ چھوڑنے کی ھماری روایت تاریخی رہی ھے ـ
اَشد ضروری ہے کہ ھمارے نِصاب خود ساختہ تنگنائیوں سے نکل کر طلبہ کو مزید حقائق سے روشناس کروائیں ۔ جمہوریت، صنفی اور انسانی مساوات، سماجی انصاف، ماحولیات، معاشرتی ڈھانچے، جغرافیہ ، تنوع اور سیاسیات کے جدید نظریات ذیادہ موثر طریقے سے پڑھائے جائیں ـ تاکہ طلباء کے اندرتشریحی، تنقیدی، تخلیقی واختلافی شعور، معلومات کو منظم کرنے، فیصلہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ھو سکے اور اُنہیں پاکستانی ھونے کے ساتھ ساتھ عالمی شہریت کا شعور ھو ـ
ذریعہء تعلیم کی بحث : ھر چند کہ ذریعہء تعلیم، تکسیبِ لسان، لسانی ثقافت، ثقافتی لِسان، موادِ تعلیم، سائنس اورسماجی علوم کی رُجعت پسندانہ تقسیم و ترتیب بمقابلہ آسان تبادلہء مضامین اور زبانِ کا فکرواظہار اور تخلیق سے چولی دامن کا تعلق ھے ـ ھماری قومیتی تحریکیں، کثیر لسانیّت ولسانی سیّاست، متفرق نظام ھائے تعلیم، وفاقی جمہوری نظام، بازمرکزیتی رُحجانات، سرکاری تدریجی عمل، ابہام اور کنفیوژن، زبان سیکھنے سکھانے کیلئے سہولیات اور ماہر اساتذہ کی کمی، انگریزی کی جانب مرحلہ وار قدم اُٹھانے پر اِختلاف رائے اور متقاضی وسائل کی عدم فراہمی جیسے بڑے بڑے مسائل سّدِ راہ ہیں ـ اپنے جیسے دوسرے ملکوں سے سیکھنا اور بڑھتا ھوا سرمایہ دارانہ اور مارکیٹی اثرورسوخ ذریعہء تعلیم کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رھا ہے لیکن دریں اثنا اِس بحث کو بالائے طاق رکھنا بمطابقِ موضوع ھے ـ
اساتزہ کا رویّہ، نظریہ اور مضامین بارے نقطہء نظر : یہ حقیقت شک وشُبہ سے بالاتر ہے کہ عصرِحاضرمیں کوئی سوسائٹی تکنیکی وسائنسی اَپروچ اپنائے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور اس کی بنیاد سائنسی تعلیم اور تکینکی مہارتیں ہیں ـ ھمارے ہاں عمومی طور پر سائنسی طریقہء تدریس پر کوئی خصوصی رہنما اُصول نہیں دیے جاتے اِس لئے سائنسی مضامین و مظاہر پڑھاتے ھوئے بھی اکثراساتذہ کا نظریہ روائتی، غیرمنطقی اور غیر سائنسی رہتا ہے ۔ جدید نقطہء نطر سے سائنس عملی، استقرائی اور استخراجی ھونے کے ساتھ ساتھ کثیرجہتی، پیچیدہ اورمتحرک فینامینا بھی ہے جسکے مطابق فطرت کے درُست ترین فہم وادراک کے ساتھ ساتھ طلباء اِسے اپنے تنقیدی، تشکیکی اور تخلیقی زاویوں سے بھی دیکھ سکتے ہیں ـ
اگر ھمارے طلباء یا سماج کا رویہ بڑی حد تک غیر منطقی اور توّہمانہ ھے تو اسکا مطلب ھے ھمارے اساتذہ کا رویہ غیر منطقی اور توّہمانہ ہے جسے قبل از اور دورانِ تدریس سائنسی خطوط پر استوار کرنا بے حد ضروری ھے ـ دوسرے لفظوں میں اگر اَساتذہ کو علمی تشکیل و دریافت کا شعور ہو تو وہ سائنسی اور سماجی دونوں علوم ذیادہ معروضی اور تجزیاتی انداز میں پڑھا سکتے ہیں ـ سائنس کے متعلق ھمارے کم و بیش دو تہائی سے ذیادہ اساتذہ کا رویّہ بھی مطلق و مستند علم اور روائتی سائنسی نظریات کی ترسیل ہی رہتا ھے نہ کہ اُسے عصری تنقیدی و تعمیری نقظہ نظر سے دیکھنا ـ
علم، اکتسابیت اور معنویت کی تشکیل سے تعمیر ھوتا ہے نہ کہ کسی بھی مظہر کو حتمی او مطلق تصور کر لینا (ٓجس پر مزید غورکرنے کی ضرورت نہ ھو) کیونکہ اس معاملے میں اِستغراق، اِستفہام اور مسائل کوحل کرنے کی صلاحیت ہی علم ھے ۔ جسے وہ چیزوں کو سمجھنے اور جاننے کیلئے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں ـ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس کے جن اساتذہ کا رویہ بظاہر جدید اور عصرِحاضر کے مطابق ھے (یعنی مادی حقیقت اضافی اور متغیر ھو سکتی ھے) ۔ بعض اوقات اُنکا محرک بھی مذہبی عقائد ہی نظر آتے ہیں ـ یعنی حقیقتِ ابدی واولٰی کا علم صرف خدا کو ھو سکتا ھے، انسان کو نہیں یا پھر وہی اپروچ جس اپروچ سے اُنکے اساتذہ نے اُنکو فطری مظاہر بارے پڑھایا سمجھایا تھا ـ یقیناً ذریعہء تعلیم بھی اُستاد اور پھر طلباء کے نقطہٗ نظر پر اثرانداز ھوتا ھے لیکن فی الحال اِس پہلو کو بعد کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں ۔ الغرض استاد کا نقطہء نظر اس قدر اھم ھوتا ھے کہ وہ اچھے سے اچھے نصاب کو بھی بہت بُرے اور بُرے سے بُرے نصاب کو بھی بہت اچھے طریقے سے پڑھا سکتا ھے۔ ایک طرح سے نصاب طالب علم سے ذیادہ استاد کے لئے اِھم ھوتا ھے ۔ بعض اوقات استاد کا غیر رسمی کمنٹ بھی طلباء کا سائنسی یا غیر سائنسی رویہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ـ سائنس اور سماجی علوُم کے اساتذہ کا تربیتِ نصاب اور طریقہ دونوں کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کی ضرورت ھے، 'کیونکہ کیسے پڑھایا جائے؟' سب سے اھم سوال ھے۔
مجریّہ 'رہنمائے تربیت اساتذہ' اور 'اِکتسابی جائزہ' نقا ئص سے پُر ہے ۔ کریکُولم کونسل کے بیانات کے برعکس، نصاب و کتاب اور رہنما اصولوں سمیت کہیں سے یہ نظر نہیں آتا کہ وہ حکومتی اثرات واحکامات سے آزاد اور خود مختار ہیں ـ پنجاب میں تو متحدہ عُلماء بورڈ کو اسلامیات کی درسی کتب کا جائزہ لینے کا رسمی اختیار بھی دے دیا گیا ھے جو سماجی علوم کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ثابت ھو رہا ہے ـ بیوروکریسی اچھے نصاب کے عملی اطلاق پر عموماً منفی انداز میں اثر انداز ھوتی ہے ـ جیسا کہ 'یکساں نصابِ تعلیم' کے دورانِ اطلاق ھم نے، پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو ایک سے ذیادہ مرتبہ کتابیں بَین یا رول بیک کرتے ھوئے دیکھا ہے ـ
جائزہ اور امتحانات : پنجاب میں یکساں نصابِ تعلیم کی کلاس اول سے پنجم تک آٹھ مضامین میں 'لرننگ مینیجمنٹ سسٹم' کے تحت ایک سے ڈیڑھ دن کی آن لائن تربیت کا اہتمام کیا گیا ـ ہر چند کہ مینوّل موثر 'جائزہ اورنگرانی' کی بات کرتا ہے لیکن پورے مینوّل میں طریقہ تدریس اورمندرجات کا کوئی ذکر نہیں ھے جس سے عُجلت میں غیر معیاری اور روائتی طریقہ تدریس کو برقرار رکھے جانے کا شائبہ ملتا ھے ـ
امتحانات، قبل از آغاز، دوران اور اختتامِ کورس، اکتسابی جائزوں، جانچ پڑتال اور مارکس وغیرہ دینے، نہ دینے کے طریقے اور طلباء کی کارکردگی اور نفسیات پراس عمل کے اثرات وغیرہ کو جدید تحقیقی نقطہء نظر سے دیکھا اور بدلا جا رھا ہے ۔ اور پانچویں تک اِمتحانات کا خاتمہ (فی الحال پنجاب میں) بھی صحح فیصلہ نظر آتا ھے، مربوط سائنس مگر ایک طرف جہاں سماجی مضامین میں رَٹا کلچر کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ھے وہیں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک اسلامیات ناظرہ اور ترجمہ ضروری قرار دے کر رٹا لگانے کی ضرورت کو کئی گناء بڑھا دیا گیا ھے ـ ترقی یا فتہ مُلکوں میں جائزہ اور امتحانات کے جو بھی کامیاب طریقے استعمال کیے جا رھے ہیں، پاکستان کے نظامِ تعلیم کو انہیں سمجھنا اور حسب ضرورت اپنانا چاہیے تاکہ ہم اُنکے ہم قدم ھو سکیں ـ البتہ 'انٹربورڈ کمیٹی' کا جاٗئزہ اور امتحانات کو بہتر کرنے کا حالیہ اقدام اور ماہرین تعلیم پر مشتمل 'ٹیکنیکل ٹریننگ بیورو' قائم کرنے کا اِرادہ خُوش آئند دکھائی دیتا ھے جسے مُنظم و مؤثر طریقے سے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ھے ـ
عالمی مقابلہ و موازنہ : ۔ مجوزہ نصاب بڑی حد تک نُسخہ جاتی ھے جبکہ ترقی یافتہ دنیا مثلا" برطانیہ، ناروے، فن لینڈ، سنگاپور وغیرہ میں صرف آؤٹ لائن دے کرسکولوں اور اساتذہ کو تجویزو تخلیق اور تعمیری تجربات کی آزادی فراہم کی جاتی ھے تاکہ وہ بچوں کے اندر منطقی، فکری اور تنقیدی صلاحیتں اُجاگرکَرسکیں ـ طویل اور بعض صورتوں میں 'غیر دلچسپ مشقوں سے آگے بڑھ کر بچوں کیلئے کھیل کُود، دِلچسپ تجربے اور نصاب سے ہٹ کر سیکھنے، خُود مُہیج اکتسابی طریقے استعمال کرنے اور پڑھنے کا شوق پیدا کرنا، متفرق خیالات و نظریات جذب کر کے اپنی رائے قائم کرنا وغیرہ' سکھانے کی ضرورت ھے اور یہِ بساطِ عالم پر کامیاب نطامِ تعلیم کا حصہ ہے، ایسی خصوصیات جاریہ نصاب سے کم و بیش غائب ہیں ـ سارا زور کچھ حقائق اور چند نظریا ت کوُٹ کوُٹ کر ٹھونسنے پر ھے جو کہ (ٓپاولے فرائرے کی اصطلاح میں) بینکنگ نقطہء نظر کہلاتا ھے ـ جمع، تفریق، 'ضرب تقسیم کیسے کی جاتی ھے'سکھانے کے علاوہ 'ایسا کرنا کیوں ضروری ھے' سکھانا بھی اہم ترین پہلو ہیں ـ لائبریری اور کھیلوں کو طلبا کی زندگیوں میں داخل کرنا، اپنی سوچ، اپنی پسند اور اپنے رحجانات پیدا کرنا بھی نہایت ضروری ھے ـ
لوازمات، ماحول و آلات اور وسائل : کسی حد تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ کو چھوڑ کر سندھ اور بلوچستان میں سکول میں درکار انفراء سٹرکچر اب بھی غیرمیسر، کِرم خوردہ یا ناکافی ہے اورجی جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد مختص کیے بغیر سکولوں اور درکار عمارات و آلاتِ ضروریہ کی فراہمی ممکن نہیں ـ ہر سطح پر اِکتسابی عمل کیلئے درسی کتب کے علاوہ عملی، تجرباتی و مشاہدہ جاتی مواد کی فراہمی بھی کوالٹی ایجوکیشن کے لئے انتہائی ضروری ہے جو ھمارے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں عدم فراہمی کیوجہ سے نہ صرف اکتسابی عمل کو محدوُد اور سُست رکھتا ھے بلکہ موجودہ حکومت کی نعرہ بازی یعنی مساوات، وسعت اور اعلی معیار کو بھی سر کے بل لا کھڑا کرتا ھے ـ
مصنف سماجی اور ترقیاتی تجزیہ کار ہیں ـ وہ اسلام آباد کے ادارہ برائے تحقیق و ترقی (ادراق) سے وابستہ ہیں