مینارٹیز الائنس پاکستان کے مرکزی چیئرمین اکمل بھٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی شدت پسندی اور بالادستی، نفرت وتعصب کو فروغ دینے والا یکساں نصاب تعلیم فوری ختم کیا جائے۔ نئی مردم شماری کروا کر اقلیتوں کے درست اعدادوشمار ظاہر کئے جائیں۔ اقلیتوں کی ایوان بالا، قومی و صوبائی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقلیتی مخصوص نشستوں پر حلقہ بندی کر کے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ اقلیتوں کیلئے سلیکشن کی بجائے الیکشن کروائے جائیں تاکہ اقلیتیں اور خواتین بھی اپنی مخصوص نشستوں پر چناو کے عمل سے گزر کر اسمبلیوں میں پہنچیں اور ان نشستوں پر خرید و فروخت، من پسندیدگی اور خیراتی ہونے کا اثر زائل ہو سکے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار پارٹی کے دیگر مرکزی رہنماؤں شمعون گل، انوش بھٹی،ا ٓفتاب خرم، صدف عدنان اور آصف جان کیساتھ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
اکمل بھٹی کا کہنا تھا کہ آج ایک دفعہ پھر اقلیتیں متحدہ اپوزیشن کی تجربہ کار حکومت کی طرف اپنے آئینی، سیاسی، معاشی و مذہبی حقوق کی بحالی کے لئے دیکھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت جو ایک جمہوری اور آئینی عمل کے ذریعے وجود میں آئی ہے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن نے مفاہمت اور یکجہتی کی سیاست کا عملی اظہار کرکے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔ ہم آپ کی توجہ اقلیتوں کے ان مسائل کی طرف دلاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے لوگ، عدم تحفظ کا شکار ہو کر غربت وجہالت او کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے اس ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو بڑھایا اور نفرت کی آگ لگائی۔ اسی کی آڑ میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا گیا۔ سکولوں میں قدامت پسندی کو فروغ دینے کے لئے پالیسیاں بنائی گئیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مذہبی شدت پسندی، بالادستی، نفرت اور تعصب کو فروغ دینے والا یکساں نصاب تعلیم فوری ختم کیا جائے۔ گذشتہ مردم شماری میں مسیحیوں کے کئی علاقوں خصوصا ً پنجاب سے اعدادوشمار اکھٹے نہیں ہوئے اور دفتروں میں بیٹھ کر ڈیٹا انٹری کی گئی جس سے ہماری آبادی اصل تعداد سے کئی گنا کم شائع کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گذشتہ مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کیا تھا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے مردم شماری کروا کر اقلیتوں کے درست اعدادوشمار ظاہر کئے جائیں۔ مخلوط طرز انتخاب کی بدولت اقلیتوں کی سیاسی محرومی میں اضافہ ہوا اور سیاسی عمل سے لوگ دور ہو گئے، نہ ہی اکثریتی پارلیمنٹرین نے اقلیتوں کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی اور انکے ترقیاتی وفلاحی منصوبوں میں دلچسپی لی، جسکا ریکارڈ سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہے، اقلیتوں کے لئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، اب چونکہ موجودہ کولیشن حکومت انتخابی اصلاحات کرنے جا رہی ہے تو ہمارا مطالبہ ہے کہ اقلیتوں کی ایوان بالا، قومی و صوبائی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے۔اقلیتی مخصوص نشستوں پر حلقہ بندی کر کے دوہرےووٹ کا حق دیا جائے اور وہاںسلیکشن کی بجائے الیکشن کروائے جائیں تاکہ اقلیتیں اور خواتین بھی اپنی مخصوص نشستوں پر چناؤ کے عمل سے گزر کر اسمبلیوں میں پہنچیں اور ان نشستوں پر خرید و فروخت، من پسندیدگی اور خیراتی ہونے کا اثر زائل ہو سکے۔اقلیتی کمسن بچیوں کو چند شر پسند عناصر ایک گھناونی ترکیب اور زہریلی سازش کے ذریعے اغواء کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور سزاء سے بچنے کے لئے انکا جبری مذہب تبدیل کروانے کا پر اثر کار ہتھیار استعمال کر کے ، اقلیتی خاندانوں اور مغوی بچیوں پر دباؤ اور خاص طور پر پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور تمام فیصلے مذہبی دباؤکے زیر اثر ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ ہمارا مطالبہ کے کہ موجودہ حکومت اس ظلم و زیادتی کو فوری بند کرنے کے لیئے قانون سازی کرے تاکہ اقلیتوں کی پریشانی و تکالیف میں کمی واقع ہو۔ پاکستان کو قائد اعظم کے نظریات جو انکی 11 اگست 1947 کی تاریخٰ تقریر میں موجود ہیں، لبرل اور سیکولر پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حکومت سیاسی و حکومتی معاملات چلانے اور عوامی حمایت کے لئے مذہبی جذبات کو بڑھکانے کی بجائے اسے سب مذاہب کے منانے والوں اور دیگر، علاقائی، نسلی، زبانی اور اقلیتوں کے لئے ایک عظیم پناہ گاہ بنائیں۔
اکمل بھٹی نے کہا کہ جہاں تمام انسان برابر قرار پائیں کسی پر رنگ نسل مذہب جنس اور حیثیت و رتبے کی بنیاد پر ترجیح حاصل نہ ہو بلکہ آئین و قانون کی حکمرانی ہو اور کسی کا استحصال نا ہو۔انہوں کے مزید کہا کہ اگر موجودہ حکومت ہماری گزارشات پرتوجہ نہ دی تو ہم مجبوراً ان حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اور متعصبانہ رویوں کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہیں گے۔