بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی اتحاد اور سنجیدگی ضروری ہے

بحرانوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی اتحاد اور سنجیدگی ضروری ہے
پوری دنیا کے حالات کرونا کی وجہ سے متاثر ہیں مگر صرف پاکستان کا ذکر کیا جائے تو پاکستان میں کرونا کے علاوہ ایک اور بڑا خطرہ ٹڈی دل کی شکل میں موجود ہے۔ مشہور امریکی جریدے بلوم برگ کا تو یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی فصلوں پر ٹڈیوں کا حملہ کرونا کی وبا کے خطرے سے زیادہ بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس حملے سے زرعی پیداوار متاثر ہو گی جس کی وجہ سے غربت میں اضافے کے ساتھ خوراک کا بحران اور قحط پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

یہ بات اس مد میں ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ کرونا سے تو ہم ہو سکتا ہے احتیاطی تدابیر اپنا کر بچ جائیں مگر ٹڈی کے حملہ میں خوراک کے قحط پڑنے کی صورت میں بھوک سے نہیں بچ پائیں گے۔

بلومبرگ کے مطابق پاکستان کی معیشت ٹڈی کے حملہ کی شدت کی صورت میں 68 سال بعد پہلی دفعہ اتنا زیادہ سکڑنے کا امکان ہے۔ ٹڈی کا حملہ پہلے بھی پاکستان پر ہوتا رہا ہے مگر اب اس کی شدت زیادہ ہے۔ میں یہ بات یہاں بتاتا چلوں کہ مندرجہ بالا ذکر صرف ٹڈی کے حملہ کی صورت میں ہو رہا ہے جبکہ کرونا کا حملہ اس کے علاوہ ہے۔

ٹڈیوں نے سندھ میں اب تک تقریباً  %14 پر مشتمل فصلوں کا حصہ تباہ کر دیا ہے۔ یہ اب سندھ سے پنجاب میں بھی داخل ہو کر تباہی پھیلا رہی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر ان کو ختم کرنے کے لیے اپنے اپنے صوبوں میں ہیلی کاپٹروں سے فصلوں پر اسپرے بھی کیا اور کر بھی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر کسان ڈھول بجا کر اور ٹریکٹروں کے شور سے ان ٹڈیوں کو فصلوں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ تقریباً 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہی ہیں۔

پاکستان میں بعض مقامات پر کسانوں کو ٹڈیاں پکڑ کر پولٹری فارمز والوں کو بیچنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے تاکہ ان کو چوزوں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ اس سال بجٹ میں بھی ٹڈیوں کے خاتمے کے لیے کچھ رقم مختص کی گئی ہے۔

یہ سب اقدامات اپنی جگہ وقتی طور پر بہتر ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان اقدامات سے جو ٹڈی کے حملے کے کچھ عرصہ کے بعد شروع کیے گئے، ان کے خاتمہ کے لیے کافی ہوں گے؟ کیا یہ اقدامات  اب ان کو فصلوں کی تباہی سے بروقت روک رہے ہیں؟ اور کیا اسلام کے نام پر بنے ملک میں اکثریت مسلمان کہلانے والی قوم کے لیے ٹڈیوں کا حملہ اور فصلوں کی تباہی اللہ کی طرف سے آزمائش یا آفت تو نہیں؟

سب سے پہلے تو جب ٹڈی دل کا حملہ فصلوں پر ہوا اس وقت حکومتی سطح پر اس کو ہمیشہ کی طرح سنجیدہ نہیں لیا گیا، اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں سیاسی بیانات داغنے میں مصروف رہیں۔ جب ٹڈی نے سندھ کے بعد پنجاب کا بھی رخ کیا تو پھر صوبائی سطح سے ہٹ کر وفاقی سطح پر بھی تھوڑی بہت ہلچل دیکھنے میں آئی۔

یہ تو ہماری کوششیں ہی بتائیں گی اور پھر اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کا تدارک کب تک ممکن ہو سکے گا مگر ٹڈی کی موجودہ رفتار برقرار رہی تو اس سے اس سال پاکستان کی %40 فصلوں کے ختم ہونے کا یا ان کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ موجود ہے۔

ہم بحثیت مسلمان  اسلام کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی ہر وہ کام کرنے میں مصروف ہیں جو کہ اسلام تو اسلام انسانیت کے دائرے سے بھی انسان کو گرا دیتے ہیں۔ان کاموں کی فہرست تو بہت لمبی ہے مگر میں ابھی صرف اگر ذخیرہ اندوزی کی بات ہی کروں تو کبھی ملک میں چینی کا بحران مافیا کی طرف سے پیدا کر دیا جاتا ہے اور کبھی تیل کا بحران ذخیرہ اندوز مافیا کی طرف سے پیدا کر دیا جاتا ہے۔

کرونا کا عالمی بحران ہم پر پہلے ہی مسلط ہے، اب ٹڈی کو مناسب طریقے سے نہ نمٹنے کی وجہ سے اور اپنے اعمال ٹھیک نہ رکھنے کی وجہ سے قحط کے سائے بھی وطن عزیز پر منڈلا رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے میری اپیل ہے کہ خدارا سیاست سیاست کھیل کر عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کے بجائے کسی بھی قدرتی آفت یا ملک کو درپیش مسئلے کی صورت میں بروقت اقدامات کریں اور ان مافیاز کے خلاف بھی سختی سے بلا تفریق نمٹنے کی ضرورت ہے جو کہ اشیائے ضروریات کا مصنوعی بحران پیدا کر کے مہنگائی اور وقتی قلت کا بھی باعث بنتے ہیں۔

کسی بھی بحران سے قدرتی آفت یا بحران سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات، سیاسی اتحاد اور مجموعی سنجیدگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔