انڈیا میں پانچ روز قبل گائوں کے ایک گہرے کنویں میں گرنے والے بچے کو بحفاظت نکال کر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں اس کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ 10 سالہ راہول ساہو کی حالت میں بہتری آ رہی ہے۔ تاہم اتنے عرصے تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کو مختلف انفیکشنز کا سامنا ہے۔
راہول کی ماں گیتا ساہو اب بھی ٹھیک سے بات نہیں کر پا رہی ہیں۔ اسے امید تھی کہ اس کا بیٹا موت کے منہ سے ضرور نکلے گا لیکن امید کا دھاگہ کئی بار ٹوٹ گیا۔
غیر ملکی میڈیا سے گفتگو میں راہول کی دادی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ "میں پر امید تھی لیکن میرے دماغ میں یہ پانچ دن تھے، چھوٹی سی جان، وہ اتنے دنوں تک اس اندھے کنویں میں کیسے رہ سکے گا، دماغ کو ہر وقت خوف رہتا۔ ہم جب اسے سوچتے کانپ جاتے تھے لیکن راہول جیت گیا۔"
گاؤں کے لوگ اسے کسی معجزے سے کم نہیں مان رہے ہیں۔ لیکن ہر شخص یہ ضرور کہتا ہے کہ 10 سالہ راہول ساہو نے اپنی ہمت سے موت کو شکست دی ہے۔ خیال رہے کہ راہل ساہو نہ بول سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔
گاؤں میں 80 فٹ گہرے کنویں میں تقریباً 104 گھنٹے تک پھنسے راہول کو منگل کی دیر رات بچا لیا گیا اور ضلع انتظامیہ نے اسے پڑوسی شہر بلاس پور کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا ہے۔
https://twitter.com/SanataniPurnima/status/1536971208343769089?s=20&t=3HShJPIHuAwqqvdtb11vdA
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پانی میں مسلسل رہنے کی وجہ سے راہول کئی طرح کے انفیکشن کا شکار ہیں۔ راہول کو ہلکا بخار ہے۔ لیکن فی الحال وہ خطرے سے باہر ہے۔ اب اسے کچھ دن ہسپتال میں گزارنا ہوں گے۔
جمعہ کی دوپہر جنجگی چمپا ضلع کے پہرید گاؤں کا رہنے والا 10 سالہ راہول ساہو کھیلنے کیلئے گھر سے گیا تھا لیکن کافی دیر بعد بھی اس کی واپسی نہم ہوئی تو اس کی تلاش شروع ہوئی۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ذہنی کمزوری کی وجہ سے راہول کو سکول نہیں بھیجا گیا اور وہ گھر پر ہی رہتا تھا۔
محلے میں تلاش کرنے کے بعد بھی راہول کہیں نہیں ملا تو کھیتوں میں اس کی تلاش شروع ہو گئی۔ گھر کے قریب کھیت میں کھودے گئے 80 فٹ گہرے کنویں سے بچے کے رونے کی آواز آئی تو گھر والوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ راہول ہی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے۔
راہول چونکہ گونگا بہرا ہے، اس لیے بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے والد لالہ ساہو کہتے ہیں، ’’بچہ سامنے ہو، دیکھ رہا ہو تو سب کچھ اشاروں میں ہوتا ہے، لیکن گہرے اندھیرے کنویں میں ہمیں صرف اس کے رونے اور سسکیوں کی آواز ہی سنائی دیتی تھیں۔‘‘
https://twitter.com/ANI_MP_CG_RJ/status/1537051985509109762?s=20&t=3HShJPIHuAwqqvdtb11vdA
بے بس اہل خانہ نے انہیں باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ اس موقع پر پولیس کو فون پر اطلاع دی گئی اور شام سے پہلے 112 کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی۔ جب معاملہ سمجھ میں آیا تو سب سے پہلے آکسیجن کا بندوبست کیا گیا اور کسی طرح راہول کو آکسیجن پہنچایا گیا۔ اس کے بعد ضلع کے اعلیٰ حکام کو اطلاع دی گئی اور اندھیرا ہونے تک معاملہ دارالحکومت تک پہنچ گیا۔
ضلع کلکٹر اور پولیس سپرنٹنڈنٹ اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچے اور کچھ ہی دیر میں سٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (SDRF) کی ٹیم بھی پہنچ گئی اور پھر راہول کو بچانے کا آپریشن شروع ہوگیا۔
ریسکیو ٹیم کے ایک رکن نے بتایا، "جب ہم پہنچے تو بچہ حرکت کر رہا تھا، لیکن جیسے جیسے رات بڑھتی گئی، آہستہ آہستہ آوازیں آنا بند ہوئیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ لیکن صبح کے وقت بچہ پھر سے حرکت کرنے لگا۔" تو ہماری جان میں جان آئی۔"
https://twitter.com/bhuvanaseshan/status/1537039318057123841?s=20&t=3HShJPIHuAwqqvdtb11vdA
اس دوران راہول تک واٹر پروف کیمرہ لگا کر ان کی حالت کی نگرانی شروع کر دی گئی۔ صبح تک نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس یعنی این ڈی آر ایف کی ٹیم بھی پہنچ چکی تھی۔ فروٹ، او آر ایس اور پھل رسی کی مدد سے بچے تک پہنچائے گئے۔
راہول کو باہر نکالنے کا واحد راستہ تھوڑے فاصلے پر اس کے متوازی سرنگ کھودنا تھا۔ اگرچہ دیگر آپشنز پر بھی غور کیا گیا لیکن کھدائی کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔
https://twitter.com/RICHA_LAKHERA/status/1536906225736372224?s=20&t=3HShJPIHuAwqqvdtb11vdA
اگلے دو دنوں تک کنویں کے متوازی ایک گڑھا یا سرنگ کی کھدائی کی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کنویں اور متوازی کھودی گئی سرنگ کے درمیان مضبوط چٹان کی موٹی دیوار تھی۔ اس چٹان کو احتیاط سے توڑنا پڑا کیونکہ بصورت دیگر بورویل میں مٹی کے دھنسنے کا خطرہ تھا۔ آخر کار اسے منگل کی شام دیر گئے توڑنے میں کامیابی ملی اور راہل کو کامیابی کے ساتھ باہر نکال لیا گیا۔