گم جانے والے کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو آپریشن : 'عسکری ایوی ایشن کمپنی کو 3200 ڈالر فی گھنٹہ دینا ہوتے ہیں'

گم جانے والے کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو آپریشن : 'عسکری ایوی ایشن کمپنی کو 3200 ڈالر فی گھنٹہ دینا ہوتے ہیں'

پاکستانی قوم اس وقت  کے ٹو سر کرنے کی مہم پر کے ٹو کی چوٹی پر گئے علی سدپارہ کے لیئے سوگوار ہے۔ گو کہ ابھی تک مہم جو پارٹی کے لیئے سرچ آپریشن جاری ہے اور قوم کی دعائیں بھی جاری ہیں۔ اور اس معاملے میں پاکستان کی عسکری ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز اور ٹیمز اس آپریشن میں مصروف ہیں اور سوشل میڈیا پر انکے لیئے شکر گزاری کے جذبات سامنے آرہے ہیں جس کے وہ واقعی حقدار ہیں۔


 ویسے تو بظاہر یہ آپریشن مفت میں ریاتی اخراجات سے ہوتا ہے لیکن  بی بی سی کے دعوے کے مطابق  عسکری ایوی ایشن نامی ایک کمپنی ہے جو کہ کوہ پیماؤں کے گم ہونے کی صورت میں 3200 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کرتی ہے اور اسکے عوض ہی انکی تلاش کے لیئے فوجی ہیلی کاپٹرز دستیاب ہوتے ہیں۔ آیا یہ کمپنی بزنس کرتی ہے؟ اور کیا یہ فوج کا ذیلی ادارہ ہے یہ تو واضح نہیں ہوسکا تاہم اس وقت کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق کمپنی سی ای او ایک ریٹائرڈ برگیڈئیر ہیں جبکہ چیف انجینئر ایک ریٹائرڈ مییجر ہیں جبکہ کمپنی ٹریولز، ہیلی سروس اور گراؤنڈ مینجمنٹ اینڈ آپریشنز کی فیس کے عوض سروس فراہم کرتی ہے۔


بی بی سی نے لکھا کہ الپائن ٹورز کے جنرل سیکریٹری کرار حیدری اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) اصغر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان آنے والے مہم جو افراد لاپتہ ہونے کی صورت میں تلاش اور ریسکیو کے لیے ’عسکری ایوی ایشن‘ نامی کمپنی کے پاس پندرہ ہزار ڈالر کی رقم جمع کرواتے ہیں۔لیکن مدد کی ضرورت نہ پڑنے کی صورت میں تین سو ڈالر سروس فیس وصول کر کے باقی رقم واپس کر دی جاتی ہے۔





عسکری ایوی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق تلاش اور ریسکیو کے لیے معاوضہ 3200 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔





اصغر علی نے بتایا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو سہولت فراہم کرنے والے ٹور آپریٹرز نے مل کر پانچ پانچ لاکھ روپے عسکری ایوی ایشن کے پاس جمع کروا رکھے ہیں مگر یہ رقم صرف اسی صورت میں استعمال کی جاتی ہے جب کسی کوہ پیما کو حادثے یا جس جگہ وہ پھنسا ہو، وہاں سے ریسکیو کرنا پڑے۔





اگر کوہ پیما کی تلاش کا کام بھی کرنا ہو تو اس صورت میں یہ رقم کم پڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ٹور آپریٹر کوہ پیما کی متعلقہ انشورنس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں اور انشورنس کمپنی کی گارنٹی پر عسکری ایوی ایشن تلاش کا کام جاری رکھتی ہے۔





انشورنس کی رقم کم پڑنے کی صورت میں متاثرہ کوہ پیما کے ملک کی حکومت، ان کا خاندان، دوست احباب اور سفارت خانہ بھی مدد کے لیے آ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کوہ پیما کے ساتھ حادثے کی صورت میں ماؤنٹینیئرنگ کمیونٹی بھی ایکٹو ہو جاتی ہے اور ’گو فنڈ می‘ سے بھی اسے بچانے کے لیے رقم اکھٹا کی جاتی ہے۔





اصغر علی کا کہنا تھا کہ کسی کوہ پیما کے لاپتہ ہونے کی صورت میں بیس کیمپ کا عملہ یا ان کے ساتھی متعلقہ ٹور آپریٹر، اپنی انشورنس کمپنی یا خود انھیں کال کرتے ہیں۔





 بی بی سی کے مطابق اس کے بعد متعلقہ انشورنس کمپنی کو حادثے کے مقام کی مناسبت سے ہیلی ریسکیو کے اخراجات کا تخمینہ لگا کر دیا جاتا ہے۔





اصغر علی کے مطابق اگر صرف بیس کیمپ جا کر کسی کوہ پیما کو سکردو لانا ہو تو اس میں اندازاً چار گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن سرچ مشن بہت مہنگا ہوتا ہے کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ سرچ میں کتنے گھنٹے کا وقت لگا (اصغر علی کے مطابق ان تین کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو کے لیے ابھی تک جتنے بھی ہیلی کاپٹر بھیجے گئے ہیں وہ مشن پاکستانی حکومت، آرمی اور فائیو سکوارڈن کی مہربانی سے مفت کیے جا رہے ہیں۔)





لیٹر یا ای میل پر گارنٹی آف پیمنٹ ملنے کی صورت میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو فوراً عسکری ایوی ایشن سے رابطہ کر کے انھیں الرٹ کر دیتے ہیں اور یہ سارا عمل ایک گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے اور ہیلی کاپٹر کی دستیابی اور موسم کی مناسبت سے اسے فوراً سرچ اینڈ ریسکیو کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔





اس کے بعد عسکری ایوی ایشن بیس کیمپ سے کوآرڈینیٹ کرنے اور لاپتہ کوہ پیما کو ڈھونڈنے کے لیے ممکنہ روٹس پر ہیلی کاپٹر کو جتنی اونچائی تک لے جا سکیں، لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں یہ آپریشن مکمل ہوتا ہے۔