کہ میر شکیل مقید ہیں اور خلیل آزاد

کہ میر شکیل مقید ہیں اور خلیل آزاد
جنگ اخبار میں میر میر شکیل الرحمٰن کی پسِ زنداں تصویر دیکھی تو ایڈولف ہکسلے کی اس بات پر یقین مضبوط ہو گیا کہ تہذیب کو ہیروز اور ہیروازم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہیروز سیاسی طور پر نالائق معاشروں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں ہیرو بننے کے مواقع کم ہی ہوتے ہیں۔ جو عقدہ پچھلے چند سالوں سے مجھ پر نہ کھل سکا وہ میر صاحب کی تصویر کھول گئی، کیونکہ آج ہر روشن دماغ بلا تخصیص جغرافیہ و مذہب میر صاحب کو لفظ کی حرمت اور افکار کی آزادی کا ہیرو گردانتا ہے۔

اپنی معاشرت اور تہذیب کی گراوٹ کا اندازہ اس سے بھی خوب لگایا جا سکتا ہے کہ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر ایک نام نہاد ڈرامہ نگار عورت کو گالی دے تو قومی بیانیہ تشکیل پاتا ہے جب کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل کا مالک صرف حقائق بیان کرنے کے جرم میں پسِ زنداں کھڑا ہو تو کوئی المیہ نہیں دکھتا۔ جس ملک میں رزم اور جذباتیت ہی اصولِ جہاں بانی ٹھہرے وہاں مکالمے، حرف شناسی اور حرف سازی کو پسِ زنداں ہی ہونا چاہیے۔

دھونس، دھاندلی، مکروفریب پہ مبنی فرماں روائی جمہوریت، آئین کے جتنے مرضی جبوں میں ہو، حرف شناس اور حق پرست روح اس کا مکروہ چہرہ اپنے قلم کے ذریعے یوں ہی سامنے لاتی ہے جس طرح روسو اور والٹئیر نے اپنے زمانے کے سماج کی بدنمائی کو فرانس کے چوکوں، چوراہوں میں لا کھڑا کر دیا تھا۔



قبل مسیح کے یونان کا معاشرہ گلیوں میں پھرتے سقراط کی حق شناسی اور سوالوں کا سامنا نہ کر سکا تو ہمارا منافقت پہ مبنی نظامِ مملکت ملک کے طول و عرض میں پڑھے جانے والے اخبار اور دیکھے جانے والے چینل کے سوالات کو کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں صرف مہ و سال بدلتے ہیں، مقتدروں کے اوچھے ہتھکنڈے وہی رہتے ہیں۔

یہ کہانی بڑی پرانی ہے۔ قائد کی بہن اگر مقتدر قوتوں کو چیلنج کرے تو گلی گلی بدکرداری کی تہمت دامن پہ لیے پھرتی ہے اور پھر دنیا سے یوں رخصت ہوتی ہے کہ آج تک اس کی موت بھی ایک معمہ ہے۔ کوئی پیرزادہ جو ہمیشہ مقتدروں کی بیساکھی رہا ہے اگر کبھی ضمیر نامی کسی چیز کے بوجھ تلے دب کر لب کشائی کرے بھی تو اس کے بھی لب سی دیے جاتے ہیں۔ اس کی شرافت دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی دین۔ کوئی حسین اگر جمہور کے حقِ حکمرانی اور آزادیِ اظہار پہ شہادت دے تو وہ بھی راندہِ درگاہ ٹھہرتا ہے۔

چارسدہ کا ولی بھی سقراط کے راستے پہ چلتے ہوئے چند سوالات اٹھائے تو وہ بھی میانوالی اور حیدرآباد کی جیلوں کا مکین ٹھہرتا ہے۔ لاڑکانہ سے آیا ہوا ذوالفقار جو زیادہ پرجوش طریقے سے دستور، دستور کی حکمرانی، عوام کے اقتدار اور ریاست کے نظم و نسق میں شراکت کا نعرہ بلند کرتا ہے تو اسے حلاج بنا کر سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کی بیٹی کو راہ چلتی گولی کا نشانہ بنا کر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ جمہور، جمہور کی حکمرانی، دستور کی بالا دستی، وفاق میں تمام اکائیوں کی برابری کی بنیاد پر شرکت، لفظ کی حرمت اور لبوں کی آزادی ان سب کو قصہِ پارینہ سمجھ کر بھول جاؤ ورنہ ہر بیباک زبان، سوچنے والا دماغ، دیکھنے والی آنکھ اور ان کی نمائندگی کرنے والا آزاد قلم یوں ہی پسِ زنداں نظر آئے گا اور اس کی تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ریلیز کر کے غیر مرئی اندھیروں کے نمائندوں کا خوف پیدا کیا جائے گا۔ لیکن ڈراؤ، دھمکاؤ اور جھکاؤ کے اس سارے کھیل میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جسم تو قید کیے جا سکتے ہیں۔ افکار اور حق گو قلم کی رفتار پہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ اپنی ترقی کے شادیانے بجانے کے لئے تمہیں کبھی قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر تو میسر آ سکتے ہیں لیکن کوئی جالب تمہارا حبیب نہیں ہو سکتا۔ تم اپنے مکر و فریب کو دستور کے لبادے میں ایک مقدس دستاویز کے طور پر کیوں نہ سامنے لے آؤ، ایک حق پرست قلم کی میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا کی ضرب کے آگے نہیں ٹھہر سکتا۔



آج پھر گذشتہ ڈیڑھ سال سے عوام کے حقِ انرخاب پہ ڈاکہ ڈال کر بھان متی کا ٹولہ جمہوریت کے نام پر عوام پر مسلط کیا گیا ہے جو ایک دفعہ پھر خوشحالی اور فراوانی کا خواب دکھا کر ملک کی معیشت، کاروبار اور روزگار کو دیمک کی طرح کھا گیا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہر سو ناامیدی اور مایوسی کا علاج صرف کٹھ پتلی کی جہل بیانیوں میں دریافت کیا گیا ہے جو کبھی کٹوں کی افزائشِ نسل، کبھی گائے کے دودھ کو دو چند کرنے، کبھی جرمنی اور جاپان کے بارڈر پہ فیکٹریاں استادہ کرنے اور کبھی زیتون کے ایک ارب درخت لگا کر ملک سے غربت اور غریبوں کے خاتمہ کا منصوبہ پیش کرتا ہے۔ دروغ گوئی اور دجل و تلبیس کے ملاپ کا نتیجہ یہ ہے کہ کھیل کھلیان ویران، ملیں بند، مزدور سڑکوں پر، تاجر باہم دست و گریبان اور سرکاری ملازم سینہ کوبی کر رہا ہے۔ اس لئے اب اپنے بندوبست کی ناکامی کا الزام چاک گریباں والوں پہ رکھ دیا ہے جو ان کے اصلی اور مکروہ چہرے عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ کبھی عدلیہ کے عیسیٰ کو سولی پہ فائز کرتے ہیں تو کبھی سابقہ وزیراعظم کو بغیر کسی کیس کے سات ماہ کے لئے پابندِ سلاسل کرتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کی توانا آواز بلاول کو نیب کی طلبیوں سے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مریم کو گوشہ نشیں رہنے کا حکم صادر کرتے ہیں۔



اور جب یہ سارے فسطائی ہتھکنڈوں کو آزاد منش اخبارات سامنے لاتے ہیں تو یہ انہیں بھی ڈرا دھمکا کر اپنی لائن پہ لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تمام میڈیا چینلز سے آزاد آوازوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور تقریباً ہر چینل پر کسی خلیل کو بٹھا دیتے ہیں کہ گالی دو۔ ہمارا طرزِ حکمرانی ہی گالی ہے۔ سماج کو گالی دو، تہذیب کو گالی دو، آئین کو گالی دو، دستور کو گالی دو، شعور کو گالی دو، سیاست کو گالی دو اور انسانی آزادی کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو غوغاںِ سگاں میں گم کر دو لیکن فسطائیت کے زعم میں مبتلا یہ حکمران بھول جاتے ہیں کہ قلم کو گرفتار کرو گے تو ہر حلقہ زنجیر انالحق کی آواز دے گا۔ گھٹن کے اس دور میں بھی کوئی خانزادہ اپنی حق و صداقت کی شاہ بیانیوں سے سکرینوں کو زیب دیتا ہے۔ جنگ کے صفحات سے نورانیت جھلکتی رہے گی اور اس کا اعزاز پکار پکار کر حق و صداقت کا پرچار کرتا رہے گا۔ تم چینل بند کرو گے تو طلعت حسین، مطیع اللہ جان، مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید اور احمد نورانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے عوام سے منسلک ہو جائیں گے۔ استادِ محترم وجاہت مسعود صاحب نے میر شکیل صاحب کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ پریوں کی تلاش میں گئے ہیں۔ میں اس جملے کو مکمل کرنے کی گستاخی کرتی ہوں کہ وہ پریوں کی تلاش میں گئے ہیں لیکن دیوؤں کی قید میں ہیں۔