یہ امر طے شدہ ہے کہ کسی بھی ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوتی ھے کہ وہاں عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی ملک پر قبضہ کر کے اپنے ہی عوام کو اپنا غلام بنا لے۔
دنیا میں عوام کی طویل جدوجہد اور قربانیوں نے فوجی آمریت کو ختم کر دیا ھے ۔اس وقت دنیا کے تقریباً 200 ممالک میں پاکستان جیسے چند ہی بدقسمت ممالک ایسے رہ گئے ہیں جہاں بالواسطہ یا بلا واسطہ فوج سیاست اور اقتدار میں ملوث ھے- ویسے تو اب وہ دنیا نہیں رہی جہاں کئی ممالک میں فوج مختلف وجوہات کے سبب اقتدار پر قابض ہو جاتی تھی۔
جیسے سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج نے پاکستانی فوج کو فرنٹ لائن اتحادی بنا کر 1951سے2008 تک اپنے مقاصد کے لئے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے استعمال کیا اور بےانتہا فوجی اور مالی امداد دی۔سویٹ یونین کے خاتمے کے بعد امریکی قومی ترجیحات تبدیل ہو گئیں اور وہاں سے ہونے والی ڈالروں کی بارش رک گئی۔لیکن فوجی اشرافیہ کو اقتدار کی چاٹ لگ چکی تھی ۔لہذا انہوں نے ایک نئے نظام یعنی "فوجی جمہوریت" یا "ہائبرڈ جمہوریت" کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا جس کے تحت اپنی سیاسی کٹھ پتلیوں کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کیا گیا جنہیں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں کامیابی دلائی گئی۔جو سابقہ طرح طرح کے تجربات کی طرح بری طرح ناکام ہوگیا۔
خطرناک بات یہ ھے کہ اس مرتبہ یہ کھیل ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کھیلا گیا۔ملک میں بدترین معاشی ابتری نے پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو جذبات پیدا کر دئیے ہیں اس کی مثال اس سے پہلے اس ملک میں نہیں ملتی۔وہ ملک جو ایک مرتبہ پہلے بھی صرف 23 سال کے بعد ٹوٹ چکا ہے جو کہ انسانی تاریخ کا اچھوتا اور منفرد واقعہ ھے۔ بقیہ پاکستان کی تباہ حالی کا یہ عالم ھے کہ وہ خطے کا پسماندہ ترین ملک بن چکا ھے اور اس سے علیحدہ ھونے والا بنگلہ دیش بھی ترقی کی دوڑ میں اس سے کہیں آگے نکل گیا ھے۔
بنگالی دانشور سرِ عام یہ کہتے ہیں کہ جب متحدہ پاکستان کی اکیڈمیوں سے تربیت حاصل کرنے والا آخری بنگالی فوجی ریٹائرڈ ہوا تو پھر بنگلہ دیش نے ترقی کی دوڑ میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کیونکہ بنگلہ دیش کے پہلے دونوں فوجی ڈکٹیٹر پاکستان کی ملٹری اکیڈمیوں کے تربیت یافتہ تھے۔اس لحاظ سے بدلی ہوئی دنیا میں فوجی اشرافیہ کے لئے سیاست میں مزید ملوث رہنا ملکی سلامتی اور فوج کے اپنے وقار کے سراسر خلاف ھے۔
کیا فوجی دانشوروں کو ان خطرات کا احساس ھے اور وہ فوج کو سیاست سے باہر نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن اس حوالے سے ہمارا ماضی بہت تکلیف دہ ھے۔سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس راوء رشید اپنی کتاب"جو میں نے دیکھا" میں لکھتے ہیں " جب مشرقی پاکستان میں فوجی شکست ہوگئی ۔ تب بھی جنرل یحیٰی خان کا ارادہ اقتدار چھوڑنے کا نہیں تھا۔وہ جماعتِ اسلامی کے ساتھ مل کر ایک ایسا آئین بنا رہا تھا جس میں وہ تا حیات صدر رہ سکے۔وہ تو نوجوان فوجی آفیسروں کی شدید ناراضی کی وجہ سے اسے مجبوراً اقتدار سے الگ ہونا پڑا" صرف یہی نہیں ملک ٹوٹنے کا رسوا کن اور تکلیف دہ عمل جس جنرل یحیٰی خان کے دورِ اقتدار میں ہوا اسے پورے فوجی اعزاز سے دفن کیا گیا اور سانحہْ بنگلہ دیش کے بعد بھی جو ایک مارشل لاء دور میں ہوا ہمارے جرنیلوں نے دو مرتبہ پہلے سے بھی طویل ترین مارشل لاء لگائے اور نام نہاد سویلین حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رھے۔پاکستان ہر لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ھے لیکن ماضی کے رویوں سے تو یہی لگتا ھے کہ کچھ بھی ہو جائے جب تک بچا کھچا پاکستان باقی ھے فوج شائد ہی اقتدار اور سیاست سے علیحدہ ہو۔کیونکہ تاریخ کے بدترین فوجی ڈکٹیٹر ضیاع الحق نے ایک مرتبہ کہا تھا" چاھے کسی کو یہ بات پسند ہو یا نہ ہو پاکستان کے اقتدار کی کرسی پر وہی بیٹھے گا جو فوج کا کمانڈر انچیف ہو گا"..لیکن اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ فوج کے کمانڈر انچیف کے اقتدار کے جو نتائج ہم نے پہلے بھگتے تھے وہ پھر بھگتنے پڑ سکتے ہیں کیونکہ؎
خار سے خار ہی اگتا ہے کوئی پھول نہیں
کچھ بھی کر لے کوئی، ہر بار یہی ہوتا ہے
ڈاکٹر خالد جاوید جان ایک ترقی پسند سماجی کارکن اور شاعر ہیں۔ وہ مشہور زمانہ نظم ’ میں باغی ہوں ‘ کے مصنف ہیں۔