برمودا ٹرائی اینگل: ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے دعوے میں کتنی حقیقت ہے؟

برمودا ٹرائی اینگل: ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے دعوے میں کتنی حقیقت ہے؟
یہ بات کافی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سمندر میں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پر کوئی بھی بحری جہاز محفوظ نہیں رہ سکتا، اس کے علاوہ ہوئی جہاز بھی اوپر سے گزرے تو تباہ ہو جاتا ہے تاہم برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں ایسی ہی کہانیاں زبان زد عام ہیں۔

ایسے میں سب کے ہر دل عزیز اینکر پرسن عامر لیاقت حسین نے رمضان ٹرانسمیشن کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل دراصل دجال کی آنکھ ہے. 

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا معاملے پر فرمانا تھا کہ  برمودا ٹرائی اینگل اس مقام پر ہے جہاں قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، جو سمندری جہاز اس علاقے میں جاتا ہے، غرقاب ہو جاتا ہے، جو ہوائی جہاز اس کے اوپر سے گزرتا ہے، پٹ سے نیچے گر کر تباہ ہو جاتا ہے، نہ اس کا ملبہ ملتا ہے اور نہ کوئی شخص بچ کر کبھی واپس آیا۔

اس جگہ کے بارے میں ہزاروں قصے کہانیاں موجود ہیں تاہم اس کی سچائی کے بارے میں کم  ہی لوگوں نے تحقیق کی ہے۔ خیال رہے کہ فلوریڈا، برمودا اور پیورٹو ریکو کے سمندری خطے کی تکون کو برمودا ٹرائی اینگل کا نام دیا گیا ہے جہاں دہائیوں سے بحری جہاز اور طیارے پراسرار طور پر غائب ہونے کی رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں۔

تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ دنیا بھر میں بے شمار لوگ اس کے بارے میں ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے ہی خیالات رکھتے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ یہاں خلائی مخلوق کا گڑھ ہے جو لوگوں کو اغوا کر لیتی ہے اور ان پر تجربات کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ سمجھتے ہیں کہ یہاں مقناطیسی میدان اتنا طاقتور ہے کہ اس کے شکنجے سے قریب آنے والی کسی دھاتی شے کا بچ نکلنا ناممکن ہے. 

بعض کا دعویٰ ہے کہ یہاں چوتھی جہت (فورتھ ڈائمنشن) موجود ہے، اس لیے یہاں جو پہنچتا ہے، کائنات کی حدیں پھلانگ کر پار نکل جاتا ہے۔کچھ افراد تصور کرتے ہیں کہ یہاں کویہ بلیک ہول ہے۔

معاملے پر نظر رکھنے والے محقیقن کے خیالات ان دعوؤں کی نفی کرتے ہیں، عام افراد کی دلچسپی کے اس موضوع میں رنگ بھرنا عامر لیاقت حسین جیسے جگاڈری اینکرز کا ہی خاصہ ہے تاہم یہ باتیں حقیقت سے پرے ہیں، اور ان میں افسانوی رنگ نمایاں ہے۔

اس میں شک نہیں کہ برمودا ٹرائینگل کے علاقے میں بڑے پیمانے پر بحری حادثے ہوئے، لیکن اس کی وجہ کوئی پراسرار طاقت نہیں بلکہ سادہ سی بات یہ ہے کہ یہاں سے زیادہ بحری ٹریفک گزرتی ہے اس لیے یہاں اسی تناسب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔جب ماہرین نے برمودا ٹرائینگل میں بحری ٹریفک کے تناسب سے حادثات کی شرح نکالی تو معلوم ہوا کہ یہ دنیا کے کسی بھی دوسرے علاقے سے مختلف نہیں۔



اس دیو مالائی پراسراریت کا سہرا جاسوسی مصنف ونسٹ گیڈس کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1964 میں بیسٹ سیلر کتاب ’قاتل برمودا ٹرائینگل‘ لکھی۔

اس کتاب میں گیڈس نے بڑے سنسنی خیز انداز میں پانچ جہازوں پر مشتمل امریکی فضائی سکواڈرن کے گم ہونے کا ذکر کیا جو 1945 میں برمودا ٹرائینگل کے اوپر پرواز کرتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تلاش میں جانے والے ہوائی جہاز فلائیٹ 19 اور اس کے عملے کا بھی سراغ نہیں ملا۔

گیڈس نے لکھا: ’اس المناک تکون میں جو بھی خطرہ منڈلا رہا ہے وہ فضائی تاریخ کے سب سے حیرت انگیز بھید کا ذمہ دار ہے۔ اس محدود علاقے میں اتنے جہاز غائب ہو چکے ہیں کہ جو اتفاق کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اس کی تاریخ کولمبس تک جاتی ہے جب وہ پہلی بار بہاماس کے علاقے میں پہنچا تھا۔‘ انسانی ذہن کو ہمیشہ سے پراسرار چیزوں میں کشش محسوس ہوتی ہے اس لیے گیڈس کی کتاب نے فروخت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ دنیا بھر میں اس کے دو کروڑ نسخے فروخت ہوئے اور اس کا 30 زبانوں میں ترجمہ کیا گی۔

راتوں رات ہی اس موضوع پر کتابوں، مضامین، دستاویزی فلموں، کہانیوں اور ناولوں کی پوری صنعت وجود میں آ گئی اور برمودا ٹرائینگل کا بھید دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گیا۔

برمودا ٹرائینگل کے اسرار کا بھانڈا کئی بار پھوڑا جا چکا ہے۔ ماہرین نے بھرپور تحقیق کے بعد یہاں ہونے والے حادثات کی سادہ اور عام فہم وجوہات تلاش کی ہیں، جن میں موسم کی خرابی، عملے کی غلطی، قطب نما کے رخ میں تبدیلی وغیرہ جیسے عوامل شامل ہیں۔ لیکن یہ بےرنگ اور پھیکی توجیہات میں اتنی کشش کہاں کہ میڈیا کے نقارخانے کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ برمودا ٹرائینگل کے اسرار کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔



برمودا ٹرائینگل میں کسی قسم کا اضافی خطرہ، کوئی پراسراریت، کوئی مافوق الفطرت خاصیت موجود نہیں۔