’استاد نے کہا مسیحیت چھوڑو، مسلمان ہو جاؤ، امتحانات میں نمبروں کی فکر کی ضرورت نہیں‘

’استاد نے کہا مسیحیت چھوڑو، مسلمان ہو جاؤ، امتحانات میں نمبروں کی فکر کی ضرورت نہیں‘
میرا نام سنابل شہزاد ہے اور میرا تعلق مسیحیت سے ہے۔ بچپن سے ہی مجھے مسیحی ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک اور دیگر تلخ چیزوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بچپن میں محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اب جب سے چیزیں سمجھ آنے لگی ہیں اور لوگوں کے رویے بدلتے دیکھے ہیں تب سے سارے حالات کو سمجھا اور یہ سیکھا ہے کہ ان معاملات سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت میں جا کر پتہ چلا کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے نظر انداز کرنا کیونکہ اگر ہم ان چیزوں کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔

اب میں 22 سال کی ہوں اور لاہور میں ایک یو نیورسٹی کی طالبہ ہوں۔ یہاں سے شروع ہوا وہ لمحہ جب مجھے لگا کہ اب چُپ رہنا ٹھیک نہیں ہوگا کیونکہ اگر اب نہیں کیا تو پھر کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ جب کچھ چیزیں برداشت سے باہر ہو جائیں تو ان کو برداشت نہیں ان کا سامنا کرنا چاہیے۔

کالج میں میرے ایک استاد تھے۔ انہوں نے پوری کلاس کو ایک اسائنمنٹ دی۔ جب جمع کروانے کی تاریخ آئی تو انہوں نے مجھے کہا کہا آپ یہ اسائنمنٹ جمع نہیں کروا سکتیں اور جب میں نے پوچھا کہ کیوں تو انہوں نے کہا کہ تم مسیحی ہو، تم اس چیز کو کیا سمجھو گی۔ اس واقعہ کے بعد انہیں مجھ سے چڑ ہو گئی اور وہ کلاس میں مجھے نظر انداز کرنے لگے۔ بعد میں انہوں نے مجھے مسیحیت کے موضوع پر ایک اسائنمنٹ دی جو میں نے مقررہ وقت میں جمع کروا دی لیکن اس کے باوجود انہوں نے ریجیکٹ کر دی۔ پھر کچھ دیر بعد مجھے پتہ چلا کہ جو موضوع انہوں نے مجھے دیا تھا وہ اس میں سے کچھ منفی چیزوں کی تلاش میں تھے جو نہ تو حقیقت میں تھیں اور نہ ہی میں نے اس اسائنمنٹ میں لکھی تھیں۔

یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ ایک دن انہوں نے مجھے اپنے آفس بلایا اور کہا کہ اگر میں اپنا مذہب تبدیل کر لیتی ہوں تو نہ ہی اسائنمنٹ بنانا پڑے گی اور نہ ہی امتحانات میں نمبروں کی فکر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مجھے ایسے لگا جیسے بالواسطہ طور پر یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو وہ مجھے امتحانات میں فیل کر دیں گے۔ خیر میں نے اس وقت ان کو جواب نہ دیا کیونکہ اس وقت چُپ رہنا ہی ضروری تھا۔ ان کی ناکام کوششیں چلتی رہیں، میں اپنی بات پر ڈٹی رہی۔ جب امتحانات کا وقت آیا تو پہلے انہوں نے میری حاضری کم کر دی اور کہا کہ اگر میں نے ٹھیک کروانے کی کوشش کی تو وہ یقیناً مجھے فیل کر دیں گے۔ میں نے ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ سے بات کی جس سے انہیں یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر اب انہوں نے کوئی قدم اٹھایا تو میں چپ نہیں بیٹھوں گی۔



اس پورے مرحلے میں، میں نے یہ سیکھا کہ اگر میں خاموش رہ جاتی تو کوئی بھی آ کر میرے مستقبل سے کھیل سکتا تھا اور کوئی بھی آسانی سے مجھے جال میں پھنسا سکتا تھا۔ اگر میں ایسا نہ کرتی اور لوگوں کے بارے میں سوچتی رہتی تو میں کبھی اپنے لئے کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔

ایک دن میرے دل میں ایک سوال آیا کہ اگر میں اتنی تعلیم حاصل کر رہی ہوں تو کس کے لئے کر رہی ہوں؟  اگر میں اپنے لئے کھڑی نہیں ہو سکتی اور اگر میں ڈر گئی تو میری تعلیم کا کیا فائدہ؟ ہر انسان کی زندگی میں ایسا لمحہ ضرور آتا ہے جب اس کو لگتا ہے کہ بس اب برداشت نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ہم ایسی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو آگے جا کے ہمارے لئے مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ان ساری باتوں سے پہلے ضروری یہ ہے کہ آپ کو پتہ ہو کہ جو آپ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ آپ ہوا میں چیزیں نہیں کر سکتے اور آپ کے پاس ایک مضبوط وجہ ہونی چاہیے کہ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہے، کیونکہ بہت سارے لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور لوگ جب جھوٹ سنتے ہیں تو وہ سچ کو ماننا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کو سچ بھی جھوٹ لگتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اگر میں خود کو محفوظ نہیں کر سکتی تو اس دنیا میں کوئی انسان میری حفاظت نہیں کر سکتا۔ میں نے اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے تجربوں سے یہ سیکھا ہے کہ ہمیں درج ذیل چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے:

  • اگر کسی کو روکنے کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہمیں نہیں کہنا سیکھنا ہو گا۔

  • چیزوں کو ایک حد تک برداشت کریں، اس سے زیادہ نہیں۔

  • چھوٹی موٹی چیزوں کو برداشت کریں لیکن بات جب بات آپ کی ذاتی زندگی پر آ جائے تو خاموش نہ رہیں۔

  • لوگوں کو اس طرح کے جوابات دینے چاہئیں جس طرح کے ان کے سوالات ہوں کیونکہ اگر آپ کسی کی ہر بات ماننے لگیں گے تو آپ اپنی ذات کو ہی کھو دیں گے۔


یہ وہ عمل ہے جو بہت عرصے سے ہوتا آ رہا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ پرانے وقتوں میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس طرح کے امتیازی سلوک کو کس طرح روکا۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا اور انہوں نے کس طرح اس کا مقابلہ کیا ہوگا۔ لیکن آج کا زمانہ تب سے مختلف ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا تھا بھی تو کیوں؟ کیوں آج بھی ہم اس وقت میں رہتے ہیں؟ ہم میں سے اکثر لوگ آج بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بات نہیں کر سکتے کیونکہ آج بھی لو گ امتیازی سلوک کو عام سمجھتے ہیں۔

میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں امتیازی سلوک کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ کیونکہ بات کرنے سے ہی چیزوں کا حل نکلتا ہے۔ بات نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو بات کرنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں ملتا یا ہم خود ہی ایسی باتوں کے بارے میں تبصرہ کرنا اچھا نہیں سمجھتے لیکن ہم جب تک بات نہیں کریں گے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔

سنابل شہزاد نوجوانوں کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم برگد میں انٹرن ہیں۔ رابطہ کے لئے ای میل: sanabilshahzad98@gmail.com