کابل میں ہسپتال پر حملے کو تین دن بیت چکے ہیں مگر ہمارے ہمسائے میں کھیلی گئی بربریت کی اس داستان کی تکلیف دہ کہانیاں مسلسل پہنچ رہی ہیں۔ زچہ بچہ سینٹر پر ہوئے قاتلانہ حملے میں نوزائیدہ بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک ایسی ماں بھی چل بسی جس کو رب العالمین نے تیرہ سال بعد اولاد دی تھی۔ نوزائیدہ مہمان بھی اس ظالم دنیا میں چند لمحوں کا مہمان بنا اور چلا گیا۔ اس حملے میں 14 کے قریب لوگ شہید ہوئے ہیں جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں زخمی ہیں۔
ایک افغان صحافی جن سے ٹویٹر پر رابطہ رہتا ہے، ان سے دریافت کیا کہ کون تھا اس حملے کے پیچھے؟ کیا طالبان؟ تو وہ صحافی جو خود طالبان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلکل نہیں ایسی کارروائی طالبان نے اپنے مشکل دنوں میں کبھی نہیں کی۔ یہ گروپ کوئی اور ہے جس نے خود کو کیش کروانے کے لیے یہ حملہ کروایا ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان نے بھی واقعے کے بارے میں فوری اظہار لاتعلقی کیا۔ ایک حملہ ننگر ہار میں پولیس آفیسر کے جنازے پر بھی کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ داعش کس کی جانب سے بنائی گئی تھی یہ سب پر عیاں ہے۔ تیسرا حملہ افغان فوجیوں پر کیا گیا جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی۔
اب آتے ہیں مذاکرات کی طرف، طالبان کی امریکہ سے ہر چیز طے ہو چکی اور کابل میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان چلتی صدارت کی چپقلش اس وقت نئے کھیل کا سندیسہ دے رہی ہے۔ امریکی خصوصی نمائندہ زلمے خلیل پاکستان کے بعد بھارت گیا۔ زلمے خلیل کی طرف سے بھارت کو یہ کہا گیا کہ آپ نے جو بھی معاملات طے کرنے ہوں تو افغانستان میں مذاکرات کے لیے موجود قوت طالبان ہیں، اس لیے ان سے ہی بات کرنی ہے۔
اب دوبارہ آتے ہیں اسی افغان صحافی کی طرف جس کا یہ کہنا ہے کہ پشاور اے پی ایس میں کیے گئے حملے میں اور کابل زچہ بچہ سینٹر پر کئے گئے حملے میں کئی مماثلتیں سامنے آ رہی ہیں۔
یہ وہ سیاق و سباق ہے جو بتاتا ہے کہ افغانستان میں اپنا لچ فرائی کرنے کے لیے نئے غیر اہم کھلاڑی خود کو اہم بنانے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ہمارے صاحبان اس معاملے پر آگے بڑھیں اور افغانستان میں اس صورتحال پر عملی طور پر افغان قوم کا دکھ بٹائیں ۔ یہی ہمارے لیے بہتر ہے۔