صدیوں پہلے جہان گیری کیلئے پرتگیزی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ جاتے تھے۔ وہاں انہوں نے قلعے بنائے، لوگوں کی زبان بدل ڈالی۔ اپنے بائبل دان مبلغ پھیلائے جو گناہ بخشوانے کی غرض سے درد کش آیتوں کی کتاب ہاتھوں میں لئے گھومتے تھے۔ پرتگال ایک سلطنت تھا جس کے پاس اپنے وقت کی بڑی طاقت تھی۔ مزاحمت کے سامنے سپہ گری کے وہ ساماں سالوں ہوئے ناکارہ ہوئے اور ان کی جہان گیری کے جوش و جذبے کو بھی زوال آ گیا۔
سلطنت گنوا دینے پر رنجیدہ قوم اب اپنی زبان کی بقا کیلئے فکر مند ہے۔ انگریزوں کے ساتھ مقابلے میں وہ سلطنت ہار گئے، ان کی عالمی عظمت گئی۔ ان کو خدشہ ہے وہ لسانی غلبے کی جاری کشمکش میں کہیں اب اپنی زبان بھی نہ کھو دیں۔ زبان کو انگریزی کی دست برد سے محفوظ رکھنے کیلئے ملک گیر اتفاق جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ کوئی شہری انگریزی کے عشق میں مبتلا ہونے کا اظہار نہیں کرتا۔ کوئی بل بورڈ انگریزی میں بازار بازی کا کھیل نہیں دکھاتا۔ کوئی رہنما جملہ انگریزی میں ہاتھ نہیں تھامتا۔ کوئی ہدایت انگریزی میں مدد کو نہیں پہنچتی۔ پرتگالی مسیح کے مشن سے شاید دلبرداشتہ ہو چکے۔ وہ مسیحی جو ہمہ وقت آدم کے کردہ گناہ کے سبب خدا سے اپنا ٹوٹا رشتہ بحال ہونے پر پاک دلانہ اطمینان ظاہر کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے صلیب پر اپنی جان کا نذرانہ دے کر، وہ کہتے ہیں، ان کی پاکیزگی کا شکستہ سلسلہ پھر جوڑا۔
سالوں پہلے پرتگیزی بائبل دان گناہ اور پرانی زندگی سے لوگوں کو اپنی جیسی رستگاری دلانا چاہتے تھے اور گناہ گاروں کا ٹوٹا رشتہ خدا سے جوڑنے کیلئے اپنا سچ دنیا بھر کے لوگوں کو باور کرانے کے خواہاں تھے لیکن اب وہ مذہب کی اس ذمہ داری سے سبک دوش ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کا واسطہ زمینی سچ، بڑی طاقتوں اور لسانی غلبے سے پڑا ہے۔ اپنی زبان کو مغلوب مت ہونے دو، اپنی پہچان قائم رکھو۔ جو پرتگیزی بولتا ہے، اسے قبول کر لو، وہ تمہارا ہو چکا ہے۔
لزبن سے باہر دیہاتوں میں رہنے والے زراعت پیشہ لوگ شان دار ماضی کو یاد کرنے سے خود کو روک نہیں پاتے۔ وہ یہ قصے اپنے بچوں کو سناتے رہتے ہیں۔ 'بندرعباس میں ہمارا قلعہ اب بھی موجود ہے؟' ایک عمر رسیدہ خاتون نے اپنے کھیتوں میں کام کرنے والے ایرانی مزدور سے پوچھا تھا۔ یورپ کے ماضی کا یہ رئیس اب میوزیم بن چکا ہے۔ یورپی سیاح یہاں تاریخ کی صدیاں گزارنے والے مقامات اور لمبی عمر پانے والی عمارات دیکھنے آتے ہیں۔ غریب ایشیائی اور افریقی، جو یہاں بستے ہیں وہ، پرتگالی عجائبات کے تماش بین نہیں۔ یورپ کے وسطی اور شمالی ملکوں میں طویل سردیاں بیزار کن ہوتی ہیں۔ سنہری بالوں والے سرما زدگان کو پرتگال گرماتا ہے لیکن تاریخ اور پرانی عمارتیں، جو زبان دراز ہوتی ہیں، ہیبت ناک ہوتی ہیں، مہمانوں پر بھرم جمانا چاہتی ہیں، سرد مہری دکھاتی ہیں۔ تنہائی کی کیفیت طاری کر دیتی ہیں۔ سیاح جب ان سے خستہ ہو جاتے ہیں تو مارتم مونیز میں بھیڑ کا حصہ بنتے دکھائی دیتے ہیں جو شہر کے عجائبات کا غیر رسمی حصہ بن چکا ہے۔ جہاں مصالحوں کی تیز مہک گلی میں گرمی اور قربت کا اعلان کر رہی ہوتی ہے۔
ہم لزبن رات کو دیر سے پہنچتے ہیں۔ بنگالی پاڑہ کے ہاسٹل کے مکین سو چکے تھے۔ کمرہ تنگ و تاریک تھا جس کی چھت پرانی یورپی رہائشی عمارتوں کی طرز پر ترچھی بنائی گئی تھی۔ روشن دان کا دریچہ آسمان کی طرف کھلا ہوا تھا۔ باہر سے آنے والی روشنی نے کمرے میں پھیلے اندھیرے کی شدت کچھ کم کر دی تھی۔ بستروں کی قطار نئی ہاؤسنگ سکیم کے کسی نقشے جیسی تھی۔ الگ الگ افراد کے درمیان زمین کے قطعات کی تقسیم بندی۔ مجھے ایک کونے میں جگہ ملی۔ میرے سرہانے ناقابل فہم بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ کوئی موزے اتارے بغیر گہری نیند سو رہا تھا۔ اس کے سر پر کسی اور کے پیر آرام فرما تھے۔ ایک دوسرے سے مل کر 5 بستروں نے دیوار کی تین اطراف گھیر لی تھیں۔ درمیان میں کسی پارک کی طرح کچھ گنجائش آمدورفت کیلئے چھوڑی گئی تھی تا کہ اندھیرے میں حاجت رفع کرنے کیلئے آنے جانے والے کسی سے ٹکرا نہ جائیں۔ رات کے 2 بج رہے تھے۔ کمرہ خواب میں باتیں کر رہا تھا۔ میں نے کوشش کی، نیند نہیں آئی۔
سرہانے سوئے صاحب کو دیکھا۔ بغل میں اس کا امریٹس ایئرلائن کا سٹیکر لگا صندوق رکھا ہوا تھا۔ طویل سفر کر کے پرتگال پہنچا تھا۔ تھکا ہوا ہو گا، موزے اتار کر سونے کی درخواست کرنا ٹھیک نہیں لگا۔ لزبن کی سڑکیں راتوں کو جاگتی ہیں۔ میں صبح کا انتظار کرنے باہر نکلا۔ سلہٹ ہاسٹل کی تینوں منزلوں پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ برآمدے اور ٹوائلٹ کے ساتھ کھلی جگہ پر مراعات یافتہ مہمان بھی بے سدھ پڑے تھے۔ مارتم مونیز کا بنگالی پاڑہ لزبن کا مردم خیز پنجرہ ہے۔ جنوبی ایشیائی ملکوں سے پرتگال آنے والے جلد یا بدیر اس پتلی گلی کے خواب فروشوں کی جادونگری کے قیدی بن جاتے ہیں۔
دائیں اور بائیں جانب تنگ اور چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں جن کے منہ میں ضرورت کا ہر مال ٹھونس دیا گیا ہے۔ جن کے پاس دکان لگانے کے پیسے نہیں، وہ دکانوں کے سامنے خواب، دلاسے اور تسلیاں بیچتے ہیں۔ مایوسیوں، محرومیوں اور غیر قانونی مہاجرت کی سختیوں سے شکستہ لوگ یہ آرام بخش خوراک لینے یہاں کا چکر لگاتے ہیں۔
ڈھاکہ، کراچی، گوا، امرتسر، بیونس آئرس اور دیگر شہروں سے سینکڑوں افراد ہر دن لزبن پہنچتے ہیں۔ ان کی گرم جیکٹوں میں مستقبل بنانے کے خواب محفوظ ہوتے ہیں۔ بھاری صندوقوں میں گھر بند ہوتا ہے۔ یہ بار لادے وہ مارتم مونیز کی بنگالی جادو نگری سے افسردگی کا دوسرا سفر شروع کرتے ہیں۔ گلی میں دکانوں کے اوپر پرتگالی طرز تعمیر کے پرانے اپارٹمنٹس بنے ہوئے ہیں جن میں شاید پرتگیزی رہتے ہوں۔ بیش تر اپارٹمنٹس ٹھیکے پر اٹھ کر رہائشی ہاسٹل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ چھوٹے کمروں میں زمین پر 4 سے 5 بستر لگ جاتے ہیں۔ فی بستر شب بسری کا کرایہ 15 یورو مقرر ہے۔ آپ اگر تگڑے سفارشی مہمان ہیں تو آپ کو برآمدے میں چارپائی پر یا ٹوائلٹ کے سامنے جگہ مل سکتی ہے۔ یہ گلی مستقبل کے خواب دیدگان کا ہاتھ پکڑتی ہے۔ ان کی جیب پتلی کرتی ہے۔ کنگلا، بھوکا پیٹ ہونے پر ماہانہ بل باندھ کر تین وقت روٹی بھی کھلاتی ہے۔
ہندی موسیقی کی چاہ بلاشبہ ہمہ گیر ہے۔ جو اس کی لہروں اور برقی رو سے روح کو تسکین پہنچاتے ہیں وہ میوزک پروڈکشن کمپنی 'ٹی سیریز' کے نام سے ضرور واقف ہوں گے۔ اس کمپنی کی بنیاد ضلع جھنگ سے ہندوستان جانے والے ایک مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والے لڑکے گلشن کمار نے رکھی تھی جو لشکر جھنگوی کے مقتل سے نکلا تھا۔ 1997 میں اس کا قتل بھتہ نہ دینے پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس کا خون کرنے میں کئی افراد ملوث ہوتے ہیں۔ ان میں داؤد ابراہیم کی ڈی کمپنی کے سرکردہ رکن ابو سالم کا نام بھی شامل ہے۔
یہ نام گمنام نہیں، ممبئی میں 1993 میں ہونے والے دھماکوں میں بھی اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ مفرور ہے۔ اس کے خلاف مجرمانہ فائلوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کا گھومنے پھرنے، چہل پہل اور معاشرت کا دائرہ تنگ ہوتا ہے۔ وہ عام زندگی کی سماجی راہداریوں سے کٹ جاتے ہیں۔ معاملات کا توازن جب بگڑتا ہے، یہ دائرہ مزید تنگ ہوتا جاتا ہے۔ ریاستی عتاب اور سراغ رسانوں کا تعاقب ان کیلئے عام لوگوں کی طرح ٹھہر کر سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت باقی رہنے نہیں دیتا۔ وہ چھپتے ہیں، بھاگتے ہیں، اجنبی سرزمینوں پر گلاؤز کھول دیتے ہیں۔ ابو سالم اپنی محدود پناہ گاہ سے تھک چکا ہوگا۔ وہ مارتم مونیز پہنچتا ہے۔ اس کے ہاتھ بغیر گلاؤز کے ہیں۔ اسے علم نہیں وہ ایک تجربہ کار باکسر کے رنگ میں داخل ہوا ہے جو چت کرنا جانتا ہے۔ یوں وہ انتہائی مطلوب کردار آسانی سے لزبن کی جادونگری سے پکڑا جاتا ہے۔
جرائم کے اس تجربہ کار کھلاڑی کو گمان نہیں ہوا ہو گا کہ مارتم مونیز اس کی آخری پناہ گاہ ثابت ہو گا۔ یہ کوچہ ان لوگوں کو شاید پسند نہیں کرتا جو اپنے ملکوں سے مختلف النوع ناراضگیوں پر روٹھ کر یہاں پناہ مانگنے آ جاتے ہیں۔ یہ گلی جنوبی ایشیا کی طرح کثیر المذہب ہے۔ اپنے وطن سے لاتعلق نہیں۔ گھر کی خبریں رکھتی ہے۔
یہاں مخبر شکار کو سونگھتے نہیں۔ یہ ایک فریب کار شکارگاہ ہے۔ یہاں جو آتا ہے، ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنی رجسٹریشن کرانے کیلئے کسی ایڈریس کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ کوئی سستے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہو کر اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنا چاہے نہ کرے، وہ کسی اچھے ہوٹل میں رہتا ہے۔ کچھ دن چھپ سکتا ہے۔ مستقل رہنے، پرتگیزی کاغذات کیلئے پکے پتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر کار ایک دن ایسا پہنچتا ہے جب وہ مارتم مونیز کا رخ کرتا ہے۔ 'یہاں جو لوگ کوئی گھر، 9 سو، ہزار یورو میں کرائے پر لے کر رہائش پذیر ہیں، وہ اپنے گھر کا پتہ کسی بھی اجنبی کے کوائف لے کر معمولی رقم کے عوض دے دیتے ہیں۔ لزبن میں گھر کرائے پر ملنا پرتگیزی ویزہ لینے سے زیادہ مشکل ہے۔ جو 7 سو تنخواہ پاتے ہیں، وہ آمدنی سے زیادہ کرایہ کیسے چکا سکتے ہیں؟' لزبن میں رہنے والے ایک دوست نے ابو سالم کی گرفتاری کی کہانی کا مضحکہ اڑایا۔
تین جنوبی ایشیائی کردار
پاکستانی شہری صادق علی
ترکی سے یورپ جانے والے غیر قانونی دروازوں پر چند سال قبل تک اردوگان نے مالی امداد کے بدلے پہرے نہیں بٹھائے تھے۔ لوگ ملک در ملک سفر کرتے۔ ترکی پہنچتے۔ یونان نکل لیتے۔ گوگل نے پا پیادہ یورپ کی سرحدیں پار کرنے والوں کی رہنمائی کی۔ اٹک کا 22 سالہ صادق علی مہاجرین کے اس ہجوم کا حصہ تھا جو 2015 میں یورپ میں داخل ہوا۔ وہ جرمنی میں ٹھہرتا ہے۔ یہ وہ دن تھے جب بشارالاسد کا نام ٹی وی سکرینوں پر چلتا ہوا یورپ کے گھر گھر پہنچا۔ وہ اس کو ڈکٹیٹر کہتے، اپنی نفرت ظاہر کرتے۔ شام کے جنگ زدہ پناہ گزینوں کو یورپ میں خوش آمدید کہا جا رہا تھا۔ ان کو امیر ملک سریع پناہ دے دیتے۔ صادق علی پاکستانی ہے۔ اس کی پناہ کی درخواست رد کر دی جاتی ہے۔
وہ گھر واپس لوٹنا نہیں چاہتا۔ فرانس میں پناہ لینے پہنچتا ہے۔
کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ یورپ کی ثقافت کے مرکز فرانس میں پناہ گزینوں سے ہمدردی کی فضا پر مایوس کُن بادل چھائے ہوئے ہیں۔ 'میں نے جرمنی میں چوری چھپے کام کر کے کچھ پیسے جمع کر لئے تھے'۔ صادق علی کہتا ہے۔ امیگریشن کے دفاتر بند ہیں۔ فون پر مہاجرین کی رجسٹریشن کی جا رہی تھی اور پیرس میں مہاجرین کے ایک خیمے میں ٹھہرایا جاتا ہے جو کسی فٹبال سٹیڈیم میں لگایا گیا ہے۔ 6 مہینے کھانے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ کورونا رفتہ رفتہ اپنا خوف کم کرنا شروع کرتا ہے اور پابندیاں بھی آہستگی سے نرم پڑتی ہیں۔ خیمہ نشین پناہ گزینوں کو مختلف مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔ ان میں اٹک کا صادق علی بھی شامل ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہے کہ اسے پیرس کے مضافات میں جگہ ملتی ہے۔ وہ کھانا پکانا جانتا ہے۔ کسی دیسی ریستوران میں سستا مزدور بن جاتا ہے۔
فرانس صادق علی کی جان بچانے کا ٹھیکہ نہیں لیتا۔ اس کی پناہ کی درخواست پیرس بھی رد کر دیتا ہے۔ وہ عراق و شام میں جمہوریت کیلئے لڑنے والے کردوں کی حمایت کرنا پسند کرتا ہے۔ فرانس کے مہاجر کیمپوں تک پہنچنے والے کرد اور شام کے عرب صادق علی کی طرح مضطرب نہیں، وہ مطمئن ہیں اور جانتے ہیں پیرس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کسی آمر سے بھاگ کر پناہ لینے والوں کا مہربان کہلائے۔ 'پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی، تم ایک جمہوری اور محفوظ ملک کے شہری ہو، واپس جاؤ اپنے ملک'۔ صادق علی کو فرانسیسی زبان میں ایک رسمی خط ملتا ہے۔
جرمنی اور فرانس میں چوری چھپے اس نے مزدوری کی تھی اس سے تھوڑی جمع پونجی اس کے گرم کوٹ کی جیبوں میں پڑی ہوئی تھی۔ وہ گرفتاری کے خوف سے پناہ گزینوں کا کیمپ چھوڑ دیتا ہے۔ ہوٹل میں کام کرنے والی اپنی کروشیائی گرل فرینڈ کے گھر پناہ لیتا ہے جو ایک بچی کی ماں ہے۔ باپ لاپتہ ہو چکا ہے۔ صادق علی نظرانداز کردہ کمسن کو ابو کا پیار دینا شروع کر دیتا ہے۔ 'میرے شوہر بن جاؤ، تمہیں یورپ میں ٹھہرنے کی اجازت مل جائے گی'۔ لڑکی مشورہ دیتی ہے۔ وہ پرتگال کی راہ لیتے ہیں، جہاں پناہ ملنا آسان ہے، بڑی شاہراہوں پر سفر کرنے سے گریز کر کے تا کہ کسی مشکل میں نہ پڑیں۔ کئی دن بعد لزبن پہنچتے ہیں۔ یہاں غیر قانونی پناہ گزینوں کیلئے اپنے آپ کو رجسٹریشن کرانے کی شرائط مہاجر دوستانہ ہیں۔
صادق علی اپنی جمع پونجی بیوی کے حوالے کرتا ہے۔ نئے ملک میں بیوی کو کام سے فراغت اور آرام سے رہنے کا موقع ملتا ہے۔ خود وہ مارتِم مونیز کی جادو نگری میں روزگار تلاش کرتا ہے۔ سپین کے امیر لوگوں نے پرتگال میں زراعت کے بڑے قطعات خرید رکھے ہیں۔ جہاں فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ ان کھیتوں پر کام کرنا آسان نہیں۔ ہفتوں، مہینوں تک وہیں رہنا پڑتا ہے۔ پرتگالی مزدور ان شرائط کی قابل قدر تنخواہ مانگتے ہیں، جس سے منافع کا وزن گھٹتا ہے۔ ان اسپانوی کاشتکاروں کو محنت مزدوری کیلئے تارکین وطن سستے پڑتے ہیں۔ جن کی اپنی کوئی شرائط نہیں بلکہ ہر شرط پر مزدوری کرتے ہیں۔ یہ مہینوں زمینوں پر کام کرتے ہیں۔ وہیں سوتے اور آشیانہ بناتے ہیں۔ صادق علی زرعی زون 'بوجہ' میں کھیت مزدور بن جاتا ہے۔
بنگلہ دیشی شہری معین
معین بنگلہ دیش کا شہری ہے، عمر 25 سال۔ سعودی عرب میں سخت مزدوری کرتا تھا۔ وہ سوچتا ہے، تاوقتیکہ اس کا جسم جوان ہے۔ وہ توانا ہے، دولت مند عرب اس کو قلیل تنخواہ پر کام کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ وہ بیزار ہے، اپنے روزگار سے مطمئن نہیں۔ سالوں کام کیا، کچھ پیسے جمع ہو گئے۔ سعودی عرب میں اپنے ویزے کی مدت دو بار بڑھا چکا لیکن وہ تھک گیا ہے، مزید سکت نہیں۔ ایک دوست ہمت بڑھاتا ہے۔ کچھ دن کیلئے چھٹی لے کر ڈھاکہ جاؤ، گھر والوں، بیوی سے مشورہ کر لو، دوست اس سے کہتا ہے۔ بیوی بھی شوہر کے بغیر تنہا رہنے سے تنگ آ چکی ہے۔ یورپ نکلنے کا موقع مل جائے، ضائع نہ کرو، بیوی سمجھاتی ہے۔ وہ واپس ریاض آتا ہے اور پرتگال کے ٹورسٹ ویزے کیلئے درخواست جمع کراتا ہے۔ اس کی درخواست قبول ہوتی ہے۔ ایک ہاسٹل میں رہتا ہے۔ سعودی عرب کی جمع پونجی کو کتر کتر کر کھا رہا ہے۔ روزگار کی تلاش میں روز سرگرداں رہتا ہے۔ کہیں قانونی طور پر ملازمت نہیں ملتی۔ دیسی ریستوران، ملازمین کی بیمہ پالیسیوں کی ذمہ داری نہیں لیتے۔ وہ اپنے منافع کا نظام ہاضمہ بگاڑنا نہیں چاہتے۔ سستے ہم وطن موجود ہیں، وہ کیوں بد منافعگی کا خطرہ مول لیں۔ ان کو غیر قانونی مزدوری کے نشہ کی لت پڑی ہے۔ معین پریشان ہے۔ اس کے کھاتے میں ٹیکسز بروقت جمع نہیں ہو رہے۔ بیروزگار رہنے کا نا ختم ہونے والا دورانیہ اس کے پرتگال میں مستقل قیام کو ناکام بنا سکتا ہے۔
بھارتی شہری دیپک
دیپک بھارتی شہری ہے، عمر 30 سال۔ مسقط کی کسی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ اپنا اور گھر کا خرچ چلانا مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ کئی سال گھر سے دور رہا، دن رات محنت مزدوری کی لیکن حالات نہیں بدلے۔ اس کی بہن جرمنی میں رہتی ہے۔ بھائی کے ویزہ کیلئے کوشش کی جو سود مند ثابت ہوئی۔ دیپک جرمنی کے شہر بریمن پہنچتا ہے۔ وہ تعلیم یافتہ ہے۔ کمپیوٹر پر بیٹھ کر روزگار کی امیدوں پر درخواستیں بھیجتا رہتا ہے، یہ کوششیں شاید ناکافی تھیں۔ کامیابی نہیں ملتی۔ ایک دوست کے کہنے پر لزبن پہنچتا ہے۔ مارتم مونیز کی جادونگری کے گھن چکر کے گرد گھومتا رہا۔ ایک دن اپنے کسی مددگار ہم وطن سے ملاقات ہوتی ہے جو گھروں میں رنگ و روغن کا کام کرتا ہے۔ اس کی کمپنی کو سستے مزدور کی ضرورت تھی۔ دیپک کو کام مل جاتا ہے۔ اس نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے۔ کوچہ بنگالیاں میں 15 یورو کا ایک بستر لے کر سوتا ہے۔ جب کبھی تنہائی کی شدت بڑھ جاتی ہے، بیلیم ٹاور کے نزدیک سمندر کی گہرائی دیکھتا ہے۔ چرس کی سگریٹ اس کی تیز رفتار سوچوں کو دلاسے دیتی ہے۔ سمندر دیکھ کر، چرس سے مغلوب، وہ پرتگیزیوں کیلئے بھی افسردہ ہوتا ہے جو صدیوں پہلے کشتیوں میں سوار ہو کر گوا گئے تھے۔