قدیم کہاوت ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرد معصوم ہے۔ یہ دلیل آپ کو ہر دوسرے گھر میں کہیں نہ کہیں دی جاتی نظر آئے گی۔ یہ دلیل کب سوچ میں بدلی، کب اس نے آکاس بیل کی طرح ہمارے سماج کے دماغ پر قبضہ کر لیا اس کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ پدر شاہی میں عورت کی محکومیت اور مرد کی حاکمیت نے یہ زہرہ قطرہ قطرہ ہماری رگوں میں منتقل کیا۔
مذہب اور روایتوں کے ٹھیکیداروں اور سیاسی بیوپاریوں نے بھی اس کو خوب استمعال کیا۔ اور یہ سوچ کا زہر ایک فرد سے گھرانہ اور گھرانے سے اداروں اور سماج کا زہر بن گیا۔ عورت کا وجود اس کا مصرف مرد سے منسلک رشتوں کی بنیادوں کو پنپنے سے لے کر اس کی بنیادوں کو خون دینے تک لکھ دیا گیا جہاں وہ مردوں کی بیغیرتی کو اپنی غیرت کا کفن دیتی ہے۔
مگر یہ سب اس کی تعظیم کا باعث نہیں بلکہ پدر شاہی معاشرہ اپنی تمام علتوں پر پردہ عورت کی بلی چڑھا کر کرتا ہے۔ اس کی ذہنی اور جسمانی پامالی اور تشدد کو مختلف حیلے بہانوں سے جسٹیفائی کرتا ہے۔ اور یہ چاہے ملک کے وزیراعظم یہ کہہ کر کریں کہ فحاشی معاشرے میں ریپ کا باعث ہے۔ بالی ووڈ خاندانی اقدار کمزور کر رہا ہے۔ یا پرائیڈ آف پرفارمنس مولانا طارق جمیل ملکی آفات کا ذمہ دار عورتوں کے ملبوس اور چال چلن کو بنا دیں۔
آئیے معاشرے کی چند کھڑکیاں کھولیں اور دیکھیں عورت کیا کر رہی ہے۔
یہ کھڑکی ٹبی گلی میں کھلتی ہے۔ یہاں عورت کا راج سمجھا جاتا ہے۔ ہاں بات تو ہے یہاں لڑکی کی پیدائش پر لعنت نہیں مبارک دی جاتی ہے۔ عورت گھر کے لئے کماتی ہے۔
مگر یہاں وہ پچھل پیریں رہتی ہیں جو مرد کی عقل مار کے اس کو غلام کر لیتی ہیں۔ اور معاشرے میں فحاشی کا باعث ہیں۔ مگر کوئی مرد سے یہ نہیں پوچھتا کہ اے عقل کے قطب مینار تم وہاں لینے کیا جاتے ہو؟ اور رنڈی صرف عورت کیوں جب تم بھی شریک جرم ہو؟
یہاں بھی عورت مرد کی باندی ہے۔ گھر کا مرد، باپ/ بھائی اس کا پیشہ ورانہ منیجر/پروموٹر/دلال جو اس کا پیشہ چلاتا ہے۔ کمائی اینٹھتا ہے۔ مار پیٹ کرتا ہے۔ لوکل اور دبئی مارکیٹ میں پیشہ بھی سیٹ کرتا ہے۔ خود بھرے ہوئے سگریٹ اور سرنج کے سرور میں رہتا ہے۔ مگر اپنی عورت پوڈر کرے تو غیرت میں آ کے اس کو مارتا بھی ہے۔ مگریہ تعفن فقط عورت کے باعث ہے۔
چلیں ایک اور کھڑکی کھولیں یہ ریت رواج کے خاندان کے اندر کھلتی ہے۔
یہاں عورت کی آواز اور سوچ پر چپ کے تالے ڈالے جاتے ہیں۔ اس کا ننگا سر غدر کھڑا کر دیتا ہے مگر گھر کے مرد کی آنکھ کا ننگ جو اس چادر کو پامال کرتا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔
عورت پر مذہب کا پٹا بھی ڈالا جاتا ہے جو اس کی مرضی، آواز اور حقوق سلب کرتا ہے۔ خواہ وہ تعلیم کا ہو۔ شادی/طلاق کا وراثت میں حصے کا روزگار کمانے سے لے کر زندگی گزارنے تک کا۔ تمام مذہبی حقوق بیک جنبش سمجھ مرد اپنے قابو میں کر کے زمینی خدا بنتا ہے۔ مگر اسلامی احکامات خواہ وہ نظر نیچے کے ہوں یا بدکاری سے بچنے کے، وہ اس پر لاگو نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ ایک کمزور جنس ہے جس کو اپنے نفس اور زبان پر کنٹرول نہیں۔ اس لئے وجود زن باعث فسق و فجور ہے۔
اس کھڑکی میں ذرا آگے جا کر دیکھیے تو آپ کو کمسن/نابالغ بچیاں نظر آئیں گی جن کا بچپن کم عمری کی شادی کی رِیت کھا جاتی ہے۔ یہ بچیاں خاندانی دشمنی نمٹانے سے لے کر جائیداد بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ باپ یا بھائی کی کسی اور کمسن سے شادی کا ٹوکن ہیں۔ کئی بار تو اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی یہ ٹوکن جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس کا ان سب میں کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ سب فیصلے گھر کا باپ بھائی دادا کرتا ہے۔ مگر ان مردوں پر معاشرہ انسانی زندگی کی ناجائز فروخت کاری کا لیبل نہیں لگاتا۔
ایک کھڑکی معاشرے کی سوچ میں بھی کھول کر دیکھتے ہیں جو عورت کو گھر/خاندان کی عزت گردانتا ہے۔ اس کو اپنے عمل اور سوچ میں اسی عزت کا بیڑا اٹھانا ہے۔ اور مرد جو حاکم بنا بیٹھا ہے تمام فیصلوں کا اس پر اس عزت کا کوئی بار نہیں۔ یہ عزت اتنی نازک ہے کہ عورت پر راہ چلتے کسے گئے فقروں سے چٹخ سکتی ہے مگر اس آوازیں کستے مرد کو کچھ نہیں کہتی۔ مرد کی بیغیرتی ایک عورت پر غیرت بم گراتی ہے اور مرد کا دامن صاف رہتا ہے۔
معاشرے میں رائج زباں زدعام گالیاں ایک عورت کے ساتھ قبیح جسمانی فعل سے جڑی ہیں جو ایک مرد بہت شان سے دیتا ہے۔ اور اس پر کوئی معاشرتی مذہبی سماجی انگلی نہیں اٹھتی کہ قابل تعظیم عورت کی تکذیب کیوں؟ اور پھر یہ پرتشدد سوچ کسی بھی مرد کے گھناؤنے افعال کی شکل لے لیتی ہے۔ جو یہ سمجھتا ہے کے جب لفظی تعزیر نہیں تو عمل پر بھی نہیں ہوگی۔ اور ہوتا بھی ایسا ہے کہ عورت، اس کے کپڑے، میک اپ، بات، گھر سے باہر نکلنا، اس جگہ پر ہونا، سب اس کے ساتھ بدفعلی اور تشدد کے ذمہ دار ہوتے ہیں ماسوائے اس مرد کے۔ آپ کو یہ سننے کو ملے گا ایک عورت ریپ ہو گئی۔ یہ نہیں کہیں گے کہ مرد نے بدفعلی کا ارتکاب کیا۔ وہ بچی، بچہ عورت کا قصہ بن جاتا ہے بجائے مرد کی تعزیر کی داستان بننے کے۔
ایک کھڑکی ریاست کے گھر بھی کھولتے ہیں جہاں عورت ابھی تک برابر کے شہری ہونے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ جہاں اس کی حفاظت کے لئے بنائے گئے قوانین اس کو اپنے ساتھ ہراسانی، زیادتی اور تشدد پر چار گواہ لانے کو کہتے ہیں۔ جہاں اس پر ظلم ہونے پر خطاکار بھی وہی ہے۔
ریاست تو لڑکے اور لڑکی کی بلوغت پر بھی ایک جیسا معیار نہیں رکھتی۔ لڑکی سولہ سال میں بیاہی جا سکتی ہے مگر لڑکا اٹھارہ کا ہو۔ ریاست کمسنی کی شادی پر والدین کو سزا تو دے سکتی ہی مگر اس بچی کو اس شادی سے آزادی نہیں کرتی۔ وہ اس نکاح میں رہتی ہے۔ مرے پر سو دُرے یہ کہ بجائے ریاست اس بچی کو تحفظ دے اس کے قوانین اس سے چاہتے ہیں کہ وہ مظلوم بچی خلع کے لئے خواتین کورٹ میں درخواست ڈالے۔
اب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جنسی متشدد مرد کو نامرد بنا دیں۔ کیا انسانی حقوق کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا مرد کوئی اور ہتھیار یا ہتھکنڈا استمعال نہیں کرے گا خاتون کو پامال کرنے کے لئے؟ اگر رسی سے گلا دبا دیا تو کیا رسیوں کو جلانے کا حکم صادر ہو جائے گا؟
جس کھڑکی کو بھی کھولیں، وہ مرد کو ہاتھ میں سماجی طاقت کا قبضہ دیے ہے۔ سماج کی گلی سڑی سوچ بدبو چھوڑ رہی ہے۔ عورت کی خاموش چیخیں بھی اب کان پھاڑ رہی ہیں کہ بس اب اور نہیں۔
اس کا حل صرف اور صرف عورت کے لئے برابری کے حقوق ہیں جو ہمارے آئین میں درج ہیں۔ اس کا حل سماجی سوچ کی تبدیلی کا عمل ہے جس میں سب کو مثبت حصہ ڈالنا ہے۔ اس کا حل قانون کی حکمرانی اور عورتوں کو تحفظ کی ضمانت ہے۔
فوزیہ یزدانی سابق بیوروکریٹ اور پالیسی ایکسپرٹ ہیں۔ فوزیہ سیاسی و سماجی موضوعات پر قلم کشائی کرتی ہیں۔ نیا دور پر ان کی ویڈیوز بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔