کیا ہم مدینہ کی ریاست کے باسیوں کے قریب تر بھی ہیں؟

کیا ہم مدینہ کی ریاست کے باسیوں کے قریب تر بھی ہیں؟
ہم بحیثت معاشرہ ظلم ، جبر اور حیوانیت کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر اپنی  سفلی خواہشات کو پورا کرنے کے لٸے ہر حد کراس کرجاتے ہیں۔ لاہور موٹروے پر ایک اکیلی اور نہتی خاتون کے ساتھ جو اندہوناک واقع پیش آیا ہے۔ وہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کم سن بچوں اور خواتین کےساتھ ریپ کے لامحدود واقعات ماضی میں بھی پیش أتے رہےہیں اور اب بھی ان کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاست پر عوام کے جان اور مال کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہوتی ھے  لیکن وہ ایسا کرنے سے بوجوہ قاصر ہے۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے کو ہی لے لیں جہاں یہ دلخراش واقع پیش آیا تھا گزشتہ 6 ماہ سے اس سڑک پر نہ کوئی پولیس چوکی بنائی گئی اور نہ ہی سیکورٹی اداروں کی پٹرولنگ کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ حکومت نے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے کے لٸے ٹول پلازے تو بنادٸے لیکن عوام کی حفاظت کے لٸے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گٸ۔ جس سے وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے مجرمانہ غفلت  ظاہر ہوتی  ہے۔ مواصلات کے وزیر مراد سعید اسمبلی کے باہر اور اندر ہروقت اپوزیشن کو لتاڑنے میں مصروف رہتے ہیں کی بنیادی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس سڑک پر موٹروے پولیس کی تعیناتی کے لٸے ممکنہ اقدامات اٹھاتے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مارچ 2020 کو جب یہ سڑک ٹریفک کے لٸے کھولی گٸ تھی اس وقت سے اب تک کوئی انتظامات نہیں اٹھاٸے گئے جس سے وفاقی اور پنجاب حکومت کی غفلت ظاہر ہوتی ہے  ۔‏ جیو نیوز کے مطابق اس موٹروے پر خود پولیس کی اس سال جون کی رپورٹ کے مطابق جرائم کے واقعات بڑھ رہےتھے  اور اسے خطرناک قرار دیا گیا تھا۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ متعلقہ حکام خواب خرگوش  میں پڑے رہے جس کا خمیازہ اس خاتون اور اسکے بچوں کو بھگتنا پڑا۔ اب عثمان بزدار اور پولیس حکام بڑی پھرتیاں دکھارہے ہیں کیونکہ اس واقعے کی وجہ سے پورا ملک سراپا احتجاج ہے ۔ اگر بہت پہلے  اس ویران سڑک پر پولیس پٹرولنگ کا انتظام کردیا جاتا تو اس خاتون کے ساتھ یہ سانحہ پیش نہ آتا۔

خبروں کے مطابق یہ مظلوم خاتون پٹرول ختم ہونے کے بعد دو گھنٹے تک اس ویران سڑک پر کھڑی رہی اسی اثناء میں اس نے موٹروے پولیس کوفون کیا تو متعلقہ اہلکار نے خاتون کو کہا کہ یہ لنک روڈ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی لہذا أپ ایف ڈبلیو او کو کال کریں۔ وہاں سے بھی اسے کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔  ایک رپورٹ کے مطابق جس جگہ خاتون کی  گاڑی کا پٹرول ختم ہوا تھا وہاں سے ٹول ٹیکس تک کا فاصلہ دس سے پندرہ منٹ کا تھا۔ اگر ایف ڈبلیو او یا موٹروے پولیس کے حکام بجاٸے حدود کے تعین کے  انسانیت کے ناطے آٶٹ آف وے جاکر اس کی مدد کردیتے تو خاتون کی عزت تارتار نہ ہوتی۔ وزیراعظم  مدینہ کی ریاست بنانے کے بلندوبانگ دعوے کرتے رہتے ہیں اور ماضی میں کئی دفعہ حضرت عمرفاروق کاقول کہ ”اگر دریاٸے فرات کےکنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرجاٸے تو خلیفہ وقت اسکا ذمہ دار ہوتا ہے۔“

 

بڑے زور شور سے دھراتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ایک اکیلی  اور نہتی خاتون لاہور کی ایک سڑک پر اپنی عزت لٹا بیٹھی ہے کی ذمہ داری کس پر ڈالیں گے۔ عمران خان بطور وزیراعظم, مراد سعید بطور وزیرمواصلات, عثمان بزدار بطور چیف منسٹر پنجاب, آئی جی پنجاب , آئی جی موٹروے اور ایف ڈبلیو او کے حکام اس سانحے کےذمہ دار بنتے ہیں۔ اب مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے دارکس کو اس ظلم کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے یا کون استعفیٰ دیگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتاٸے گا۔ اور یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ وزیراعظم کے پاس ”کسی“ سے استعفیٰ لینے کی طاقت ہے بھی یا نہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح نے بڑی، محنت، ہمت اور لازوال جدوجہد کے بعد یہ ملک حاصل کیا تھا اور اسکے لٸے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا  نوجوان خواتین اور کمرعمر لڑکیوں کی عصمتیں لٹیں۔ ہماری نوجوان نسل ان کی دی گئی قربانیوں کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ ہمارا معاشرہ انسانیت کی تمام اقدار کو فراموش کربیٹھا ہے۔ ہمارے آئین کے پہلے صفحے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ درج ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بحثیت مسلمان اسلامی احکامات کوسمجھتے ہیں؟ یا ان پر اس کی روح کے مطابق من وعن عمل کرتے ہیں؟ ہم مدینہ کی ریاست کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں لیکن اسلامی مساوات کے فلسفے کو بھلابیٹھے ہیں۔ سڑک کنارےکھڑی ایک بےبس اور مجبور عورت کی انسانیت کے ناتے  مدد کرنے کے بجاٸے اس کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ بھیڑیے ہیں جنہوں نے تمام حدیں کراس کرتے ہوٸے اس اکیلی عورت کوروند ڈالا اور اس کے معصوم بچوں کا لحاظ بھی نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کےدوسالہ دور کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف ایلیٹ کلاس یا مافیاز فرینڈلی حکومت ہے اور نچلے طبقے کے مسائل سے اسے کوئی سروکار نہیں ہے اور ان کو ظالم سماج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔ یہاں مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگانے والوں سے یہ سوال کرنا بنتا ہے۔

کیا انہوں نے خلفاءراشدین کی سوانخ عمری پڑھی ہے؟ یا ان عظیم المرتبت ہستیوں کی زندگی گزارنے کےاصولوں سےواقفیت رکھتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق کو ہی لے لیں جو سادگی پسند بھی تھے اورعادل حکمران سمجھے جاتے تھے۔ وہ راتوں کو بھیس بدل کر لوگوں کی تکالیف اور مساہل کا خود جاہزہ لیتے تھے اور ان کو موقع پر حل فرماتے۔وہ تین سو کنال کے بنگلے کی بجاٸے ایک جھونپڑی میں رہائش رکھتے تھے یعنی ان کا رہن و سہن سادہ تھا۔ خلفاء راشدین نے اپنے ادوار میں ہرعام و خاص کے لٸے برابری کی سطح پر انصاف کی فراہمی ممکن بنائی کسی کالے کو گورے پر یا کسی گورے کوکالے پر فوقیت نہیں دی گئی۔ کیا موجودہ حکمران اور ہماری عدلیہ ان کی پیروی کرتے ہوٸے ہر عام و خاص کو برابری کی سطح پر انصاف مہیاء کرتی ہے؟ یہ ایک بہت تلخ سوال ہے۔ چلیں سب باتوں کو ایک طرف رکھیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا  اس خاتون کی جگہ کسی اہم شخصیت کی بہن,بیٹی یا بیوی ہوتی اور اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوتا اور وہ موٹروے پولیس یا ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کو فون کرتی تو کیا وہ حدود کا رونا روتے یا پلک جھکپتے ہی اس کی مدد کو آ نہ جاتے۔ اس صورت میں تمام حدودو قیود کو بھلا دیا جاتا۔ کسی اہم شخصیت کی خاتون کی مدد کرنا اور عام خاتون کو قانون اور ضابطوں کا درس دینا ناانصافی اور عدم مساوات کے زمرے میں آتا ہے۔

لہذا موجودہ حکومت خودفریبی سے نکل أٸے اور مدینہ کی ریاست کی رٹ لگانے کی بجاٸے اپنےگریبان میں جھانکے اور باز رہے کیونکہ موجودہ حکومت نے اب تک جتنے بھی اقدامات اٹھاٸے ہیں وہ کسی بھی صورت مدینہ کی ریاست سے مطابقت نہیں رکھتے ۔