بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کی دوڑ سے باہر ہیں: مزمل سہروردی

مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو آگاہ کیا تھا کہ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی جائے گی۔ ن لیگ کا موقف تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں سیٹ چاہیے تو سندھ کی ایک جیتی ہوئی سیٹ دینا ہو گی۔ اگر آپ سندھ سے کوئی سیٹ دینے کے لیے رضامند نہیں ہیں تو ہم بھی پنجاب سے کوئی سیٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب اتحاد تو ٹوٹ گیا اور ہر پارٹی نے اپنا اپنا الیکشن لڑنا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کی دوڑ سے باہر ہیں: مزمل سہروردی

سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی  کا کہنا ہےکہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہیں اور پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ سکتی ہے کیونکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان صوبوں میں ان کی جیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری  کو وزیراعظم بنانا چاہتی تھی۔ پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ بلوچستان میں بی اے پی پارٹی ٹوٹ رہی ہے تو اس کے اراکین پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے۔چھوٹی سیاسی جماعتیں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑنے والے ان میں شامل ہوں گےلیکن ایسا نہیں ہوا اور قومی سیاست میں نئی سیاسی جماعتیں ابھر آئیں۔ اگر تمام جماعتوں سے الگ ہونے والے لوگ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور ہر جگہ پیپلز پارٹی ہی نظر آ رہی ہوتی۔ ایسا لگتا کہ جیسے اگلی باری پیپلز پارٹی کی ہے۔

اس کے لیے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بہت محنت کی۔ بلوچ سرداروں سے ملاقات کی۔ پنجاب میں بڑی سیاسی شخصیات سے رابطے کئے لیکن سب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ انہوں نے استحکام پاکستان الگ سے بنا لی لیکن پیپلز پارٹی میں نہیں آئے۔پرویز خٹک وغیرہ بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ ن لیگ کے ساتھ چلنے کو تو راضی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے بلوچستان، کے پی اور پنجاب کی گیم نکل گئی ہے۔تین صوبوں میں پیپلز پارٹی پہلے بھی زیرو تھی۔ اب ان کو واضح ہو گیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی زیرو ہی ہو گی۔ اس کے جیتنے کا کوئی چانس نہیں ہے بلکہ پنجاب میں جو دو چار سیٹیں پہلے تھی اب وہ بھی نہیں ملیں گی۔

تجزیہ کار نے کہا کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو آگاہ کیا تھا کہ پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی جائے گی اور اسٹیبلشمنٹ نے کسی الیکٹیبلز کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ ن لیگ کا موقف تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کو پنجاب میں سیٹ چاہیے تو سندھ کی ایک جیتی ہوئی سیٹ دینا ہو گی۔ اگر آپ سندھ سے کوئی سیٹ دینے کے لیے رضامند نہیں ہیں تو ہم بھی پنجاب سے کوئی سیٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اب اتحاد تو ٹوٹ گیا اور ہر پارٹی نے اپنا اپنا الیکشن لڑنا ہے۔

پیپلز پارٹی کو نظر آرہا ہے کہ اب اتحاد نہیں ہے تو مرکز میں شاید اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنا پڑے گا۔ ان کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن اگلی حکومت  پیپلز پارٹی کے ساتھ بنانےکے لیے تیار نہیں ہے۔

مزمل سہروردی نے کہا کہ اس کے برعکس اگر دوسری صوبوں کی طرف دیکھیں تو مسلم لیگ ن کے پاس بلوچ قوم پرستوں کا اتحاد بھی موجود ہے اور جام کمال اور دیگر مسلم لیگ ن کے پاس آگئے ہیں۔ ن لیگ بلوچستان میں پیپلز پارٹی سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ن لیگ کے بڑے اتحادی مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کی بھی بلوچستان میں نمایاں موجودگی ہے۔ لہٰذا ن لیگ اور مولونا کی پارٹی کی بلوچستان میں 'گیم' بنی ہوئی ہے۔

اسی طرح کے پی اور ہزارہ میں مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن موجود ہیں۔ پرویز خٹک اور پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابل الیکشن میں اس اتحاد کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹ تو تقسیم ہو جائے گا۔ وہاں پیپلز پارٹی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ اور اسی طرح پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ ان کو لگتا تھا کہ جیتنے والے الیکٹیبلز کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرے گی اور پیپلز پارٹی کے جیتنے کا ماحول بن جائے گا، وہ نہیں بنا۔