کرونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل پر کیسے قابو پانا ہے؟ ماہر نفسیات رابعہ خان کے مفید مشورے

کرونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل پر کیسے قابو پانا ہے؟ ماہر نفسیات رابعہ خان کے مفید مشورے
ماہر نفسیات رابعہ خان نے نیا دور میڈیا سے خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ صرف نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام بھی متاثر ہو رہا ہے اور گھریلو تشدد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

گھریلو تشدد میں اضافہ کی وجہ کیا ہے؟

ماہر نفسیات رابعہ خان کا ماننا ہے کہ گھریلو تشدد کی بنیادی وجہ گھروں میں مسلسل محدود رہنے کی وجہ سے سامنے آ رہا ہے۔ نارمل روٹین میں بچے سکول چلے جاتے تھے اور والدین کام پر تو کم وقت کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ کرتے تھے، مگر اب بچے بھی گھر پر ہیں اور والدین بھی۔ جس کی وجہ سے وہ مسلسل ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں، جس سے چڑچڑاپن اور غصے میں اضافہ ہو رہا ہے اور لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں۔ ان لڑائی جھگڑوں سے خاندانی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور بہت سے غلط اثرات سامنے آ رہے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ماہر نفسیات رابعہ خان سمجھتی ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ ریاست کی جانب سے نفسیاتی مسائل کی طرف کم توجہ دینا ہے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ معاشرے میں نفسیاتی مسائل کے حوالے سے موجود کچھ فرسودہ روایات ہیں۔ جن کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے شعور کم ہے اور لوگ طرح طرح کی توہمات کا شکار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں ایک طرف تو ریاست کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا گیا تو دوسری طرف معاشرے میں سوشل میڈیا سے لے کر سماجی، مذہبی اور سیاسی محفلوں تک، ایسے بیانیوں کو فروغ دیا جاتا ہے جن کا تحقیق اور سائنس اور حتیٰ کے مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک وبا ہے جو چائنا سے پوری دنیا میں پھیلی اور پھر ہمارے ملک میں بھی آئی اور اس کی بیالوجیکل وجوہات ہیں مگر اس وائرس کو شروع میں سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اب لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ ہم اس وبا کے ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم گناہوں سے توبہ نہیں کرتے یا پھر یہ ایک عذاب ہے جو ہماری وجہ سے آیا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جو انسان کے اندر ڈر اور خوف پیدا کرتی ہیں اور اس ڈر کی کیفیت میں مسلسل رہنے سے مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

لاک ڈاؤن اور مایوسیوں میں اضافہ

رابعہ خان کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے مایوسیوں اور توہمات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کے اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ مایوس ہونے والوں میں وہ مریض بھی شامل ہیں جو پہلے سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار تھے اور اب یہ محدود اور پنجرہ نما ماحول سے ان کے مسائل مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں، جبکہ نئے لوگ بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔

ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ پوری دنیا اور ملک میں لاک ڈاؤن کے دورانیہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ لوگ اس ڈر میں مبتلا ہیں کہ ان کا کاروبار برباد ہوجائے گا، کچھ لوگ اپنے مطالعے اور تحقیق کی وجہ سے پریشان ہیں، کچھ لوگ اپنی فصلوں کی وجہ سے فکر مند ہیں کیونکہ ان کے زندگی کا دارومدار زراعت پر ہے مگر ان سب میں، سب سے بڑی مایوسی اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کے حوالے سے ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم یا ہمارے قریبی رشتہ دار مرجائیں گے اور پھر ہمیں دفنایا کیسے جائے گا اور یہی وہ سوچ ہے جن سے نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسی کو ہم اضطراب، تشویش یا پھر (Anxiety) کی بیماری کہتے ہیں۔ آپ اپنی سوچوں کے قیدی بن جاتے ہیں اور اسی وقت کے بارے میں سوچتے ہیں جو آبھی آیا نہیں۔

مقابلے کا رجحان

رابعہ خان کی نظر میں سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا اور سماجی حلقوں میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ہم نے یہ تیر مارا اور یہ کارنامہ سرانجام دیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ نامور لوگوں کی جانب سے یہ بھاشن بھی دیا جاتا ہے کہ آپ قرنطینہ کے اس ماحول میں یہ کرو وہ کرو، جس کی وجہ سے مایوسیاں اور مقابلے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ آپ کسی کی باتوں پر عمل نہ کریں، خود سے جھوٹی امیدیں مت رکھیں اور لوگوں کی تیس مار خان بننے کے دعوؤں پر کان نہ دھریں بلکہ وہ کام کریں جس میں آپ خوش اور پرسکون ہوں۔

جنسی تشدد میں اضافے کی وجہ؟

رابعہ خان کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے مختلف شہروں میں جنسی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بوریت اور اضطراب اور مسلسل ایک دوسرے کے قریب رہنا ہے۔

ان مسائل پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟

وبا کو قبول کریں

ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لئے سب سے بنیادی چیز اس وبا کو قبول کرنا ہے کہ ہاں یہ وبا ہمارے سروں پر ہے اور اب اس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی ہم نے ایک نارمل زندگی گزارنی ہے، اور ہم نے غصہ اور منفی سوچ قائم نہیں کرنی۔ اگر ہم اس ایک چیز کو اپنی زندگی میں شامل کریں تو 70 فیصد نفسیاتی مسائل، جو اس وجہ سے جنم لے رہے ہیں، کم ہوجائیں گے۔

اچھی غذا کھاؤ

ماہر نفسیات رابعہ خان کا کہنا ہے کہ چٹخارے والی چیزیں کھانے سے نظام انہظام پر بہت برا اثر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے انسان مختلف دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب انسان افسردہ یا اضطراب میں ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ چٹخارے دار کھانوں، چاکلیٹ اور آئس کریم کھانے کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ جس سے ہمارہ نظام انہظام مکمل خراب ہوجاتا ہے اور ہم مسائل اور بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، تو میری رائے یہ ہے کہ ان دنوں کھانوں کو کم کریں۔

ہلکی پھلکی ورزش کریں

ہم اب ایک بند ماحول میں ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ہلکی ہلکی ورزش اور یوگا یا مراقبہ کریں تاکہ ہم پرسکون رہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ ورزش کے لئے آپ ورزش کلب یا پھر گراؤنڈ میں جاؤ بلکہ گھر کے اندر بھی ورزش کی جا سکتی ہے۔ ورزش سے (Happy Hormones) ریلیز ہوتے ہیں جو دماغ کو پرسکون بنا دیتے ہیں۔

پرسکون اور مکمل نیند

ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اس وقت ماحول تنہائی کا ہے، تو اس لئے پوری نیند لیا کرو کیونکہ کم نیند کی وجہ سے غصہ اور چڑاچڑاپن میں اضافہ ہوتا ہے۔ وبا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کے اعداد و شمار کا مطالعہ کرو۔

رابعہ خان کا کہنا ہے کہ ہم خبروں اور صحت عامہ کے اعداد و شمار میں ہمیشہ کرونا وائرس سے مرنے والوں کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں اور پریشان ہوجاتے ہیں جبکہ اس وائرس سے صحت یاب ہونے والوں کے اعداد وشمار مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں مگر پھر بھی لوگ ان کو نہیں دیکھتے اور پریشان ہوجاتے ہیں۔ میری رائے یہی ہے کہ جو لوگ بھی پریشان ہیں وہ صحت یاب ہونے والوں کے اعداد و شمار بھی دیکھیں تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ ہاں صحت یاب ہونے والوں کے اعداد و شمار مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔