چترال میں خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ، اس سال 45 فیصد خود کشیاں نفسیاتی مسائل کی وجہ سے کی گئیں، دستاویزات 

چترال میں خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ، اس سال 45 فیصد خود کشیاں نفسیاتی مسائل کی وجہ سے کی گئیں، دستاویزات 
اسلام آباد: خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقے چترال میں خودکشیوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے  اور سال 2021 کے پہلے 7 مہینوں میں 20 لوگوں نے خودکشیاں کرکے زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

نیا دور میڈیا کی جانب سے وزارت انسانی حقوق سے اکھٹے کئے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ چترال میں گزشتہ پانچ سالوں میں 62 لوگوں نے خودکشیاں کرکے زندگی کا خاتمہ کیا اور اس سال ان واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت انسانی حقوق کی جانب سے یہ اعداد و شمار چترال کے مقامی پولیس سے حاصل کئے گئے ہیں۔

چترال پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں کل 20 لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں جن میں 10 مرد جبکہ 10 خواتین شامل ہیں۔ اعدا د و شمار کے مطابق لوئر چترال سے خودکشیوں کے 7 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 5 مرد جبکہ 2 خواتین شامل ہیں جبکہ اپر چترال سے خودکشیوں کے تیرہ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 5مرد جبکہ 8 خواتین شامل ہیں۔

سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز میں خودکشیوں کے 6 واقعات ایسے تھے جن میں خواتین نے گھریلو تشدد سے تنگ آکر زندگیوں کا خاتمہ کیا جبکہ خودکشیوں کے 9 واقعات نفسیاتی مسائل کی وجہ سے سامنے آئے۔اعداد و شمار کے مطابق خودکشی کا ایک واقعہ محبت میں ناکامی کی وجہ سے پیش آیا جبکہ چار خودکشیوں کی وجہ سامنے نہیں آسکی ۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2016سے سال 2020کے دوران63لوگوں نے خودکشیاں کرکے زندگیوں کا خاتمہ کیا ان  میں 29مرد جبکہ 34خواتین شامل ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016 میں خودکشیوں کے 3 واقعات رپورٹ ہوئے، سال 2017  میں 12، سال 2018 میں 21، سال 2019 میں 13 جبکہ سال 2020 میں بھی 13 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2021کے پہلے سات مہینوں میں 20 واقعات رپورٹ ہوئے۔ چترال پولیس کے مطابق گزشتہ 5 سالوں کے اعداد و شمار کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس سال خودکشیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ سال 2021 کے پہلے 6 مہینوں میں خودکشیوں کے 20 واقعات رپورٹ ہوئے۔

اگرسال 2016-2020کا جائزہ لیا جائے تو خودکشیوں کے63 واقعات میں سے 29 خودکشیاں نفسیاتی مسائل کی وجہ سے پیش آئے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں 14 خواتین نے گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا جبکہ 8 لوگوں نے امتحانات میں ناکامی یا نمبر کم آنے پر اپنے زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ اعداد و شمار کے مطابق12افراد نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر خودکشیاں کرکے اپنے زندگیوں کا خاتمہ کیا۔

سال 2016 سے سال 2020 تک کے اعداد و شمار کے جائزے کے مطابق چترال میں زیادہ تر خودکشیاں دریا میں چھلانگ لگا کر کی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 63 میں سے 18 افراد نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنے ز ندگیوں کا خاتمہ کیا جبکہ 14 افراد نے خود پر فائر کرکے زندگی کا خاتمہ کیا۔ دستاویزات کے مطابق 13افراد نے گلے میں پھندا ڈال کر، 9افراد نے زہر کھا کر، ایک فرد نے زیادہ مقدار میں ادویات لیکر جبکہ ایک فرد نے بجلی کی تاروں سے لٹک کر خودکشی کی جبکہ دیگر 6 افراد کی وجہ سامنے نہیں آئی۔

جبکہ دوسری جانب چترال میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس پروگرام کی سال 2018کی  رپورٹ کے مطابق گذشتہ 6 سالوں کے دوران ضلع بھر میں تقریباً 150 سے زیادہ خواتین نے خود اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2011 میں 18 خواتین نے خودکشی کی۔ 2012 میں یہ تعداد کم رہی لیکن 2013 میں پھر بڑھ کر 19 تک جا پہنچی۔ گذشتہ سال اور رواں سال میں خودکشیوں کے واقعات ایک مرتبہ پھر بڑھتے جارہے ہیں۔ تین دن پہلے بھی دو شادی شدہ خواتین نے دریائے چترال میں کود کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا۔

نیا دور میڈیا کی تحقیقات اور ان اعداد و شمار کے مطابق چترال میں خودکشیوں میں مرنے والی زیادہ ترخواتین ہیں جن کی بنیادی وجہ نفسیاتی مسائل اور گھریلو تشدد ہے۔ واضح رہے کہ چترال میں خواتین کی خودکشیوں پر بننے والی فلم  (دریا کے اس پار)کو اس سال نیویارک میں 3  بین القوامی ایوارڈز سے بھی نوازہ گیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بھی چترال میں بڑھنے والے خودکشیوں کے واقعات میں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ قائمہ کمیٹی چترال کے دورے پر جائے گی اور وہاں پر مقامی لوگوں سمیت نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے ملاقاتیں کریگی۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کمیٹی چترال میں خودکشیوں کے سدباب پر سیمینارز کا اہتمام کیا جائے گا  اور چترال میں خودکشیوں کے سدباب کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں گے۔

چترال میں رہائش پذیر صحافی شجاعت جو علاقے میں رونما ہونے والے خودکشیوں کے واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور چترال میں نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے خودکشیوں کے واقعات پر بننے والے فلم کا بھی حصہ ہیں وہ ان واقعات کو حکومتی ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ شجاعت علی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ چترال کو اس وقت دو ضلعوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر دونوں اضلاع کے سرکاری اسپتالوں میں تاحال کوئی ماہر نفسیات تعینات نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت چترال میں 3 ہسپتال کام کررہے ہیں جن میں ایک ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال جبکہ 2 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہیں لیکن تینوں ہسپتالوں میں کوئی ماہر نفسیات موجود نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ چترال میں نوجوانوں میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ سال 2010 کے بعد دیکھنے میں آیا اور درجنوں لوگوں نے خودکشی کرکے زندگیوں کا خاتمہ کیا مگر حکومتی سطح پر تاحال اس مسئلے کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ صحافی شجاعت کے مطابق اس حوالے سے کوئی تحقیق بھی نہیں ہوئی اور نہ گہرائی سے کسی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم نے اس پر تحقیق کی ہے مگر پولیس کے پاس جو رپورٹ درج ہوتی ہیں ان میں گھریلو تشدد، نفسیاتی مسائل، امتحانات میں ناکامی یا اچھے گریڈ لانے کے لئے گھر والوں کا دباؤ ہی خود کشیوں کی وجوہات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ چترال کے نوجوانوں نے اس مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک فلم بنائی ہے جو حال ہی میں ایک بین الاقوامی ایوارڈ کے لئے منتخب ہوئی ہے۔ شجاعت کے مطابق اس فلم کے علاوہ کوئی خاص اقدام سامنے نہیں آیا۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔