Get Alerts

دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات،کیا تحریک طالبان پاکستان ملک میں دوبارہ پنجے گاڑ رہی ہے؟

دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات،کیا تحریک طالبان پاکستان ملک میں دوبارہ پنجے گاڑ رہی ہے؟
اسلام آباد: پڑوسی ملک افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے کابل پر قبضے کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا  ہےاور بلوچستان سمیت خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں عسکریت پسندوں کے حملے جاری ہیں۔

قبائلی اضلاع میں اگر امن و امان کی مخدوش صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو آپریشن ضرب عضب کے بعد عسکریت پسندوں کی مزاحمت کافی حد تک کم ہوئی تھی اور وہ خودساختہ بموں اور ٹارگٹ کلنگز سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے تھے مگر گزشتہ روز جنوبی وزیرستان کے علاقے  لدھا میں ہونے والے  خودکش حملے پر سیکیورٹی ماہرین تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اضلاع میں عسکریت پسند بھرپور انداز میں واپسی کررہے ہیں۔

بدھ کے روز سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے پر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ بدھ کی شام سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں سیکیورٹی فورسز کے 7 جوان جاں بحق جبکہ جوابی فائرنگ میں 5 عسکریت پسند بھی مارے گئے۔

دو روز پہلے جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا  میں سیکیورٹی فورسز  کی ایک ٹیم کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ گشت پر مامور تھے جن میں سیکیورٹی فورسز کا ایک جوان جان بحق ہوگیا تھا۔ وزیرستان پولیس کے سربراہ  شوکت علی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کو ایک خودکش حملے کے زریعے نشانہ بنایا گیا جس کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہیں ۔ پولیس سربراہ نے مزید کہا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا اور حملہ آور نے خودکو سیکیورٹی فورسز کے ایک گشت پارٹی کے ساتھ ٹھکرا دیا اور حملہ آور کے بدن کے باقیات بھی ملے ہیں۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے ۔

بین القوامی میڈیا سے وابستہ صحافی عدنان بیٹنی جو شمالی اور جنوبی وزیرستان کی رپورٹنگ کرتا ہے انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ  سیکیورٹی فورسز نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کئی فوجی اپرییشنز کئے مگر اس وقت مسلح عسکریت پسندوں نےیہ پالیسی اپنائی کہ جس علاقے میں اپریشنز شروع ہوجاتا تھا تو وہ دوسرے علاقے کا رُخ کرلیتے تھے اور پھر وہاں سے دیگر علاقوں کا رُخ کرتے تھے تاکہ نقصان سے بچا جاسکے۔

عدنان بیٹنی کے مطابق سال 2019 تک حالات نارمل تھے لیکن اس کے بعد دوبارہ سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور مسلح تنظیموں نے علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس مختلف حملوں سے دکھایا۔ عدنان کے مطابق جب افغانستان میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو تحریک طالبان پاکستان کے قیدیوں کورہا کیا گیا اوران قیدیوں میں زیادہ تعداد شمالی اور جنوبی وزیرستان کی رہائشیوں کی تھی اور انھوں نے وزیرستان کا رُخ کرکے دوبارہ کاروائیاں شروع کیں جن کی وجہ سے حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔

پاکستان میں سیکیورٹی پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے اگست کے حوالے سے  جاری کردہ اعدادوشمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ   افغان طالبان کے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں تحریک طالبان  اور بلوچ عسکریت پسندوں  کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں سو گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 5 سال  بعد ملک میں گزشتہ ماہ یعنی اگست 2021 میں سب سے زیادہ جنگجوؤں کے حملے ریکارڈ کئے گئے۔ مئی 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ہی مہینے میں 44 سے زائد جنگجو حملے ریکارڈ کیے گئے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اگست کےمہینے میں 45 مسلح عسکریت پسندوں  کے حملے ریکارڈ کیے گئے۔

عدنان بیٹنی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی جانب سے گزشتہ روز ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اس بات کا عزم کیا تھا کہ وہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں دوبارہ سے کاروائیوں کا اغاز کرکے وہاں شریعت کا نظام نافذ کریگا اور یہی وہ وجہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ان کاروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ نہ صرف افغانستان سے عسکریت پسندوں کی واپسی ہوئی ہے بلکہ علاقے میں موجود حامیوں نے بھی دوبارہ سے تحریک کے ساتھ کمر کس لی ہے اور یہی وہ وجوہات  ہیں کہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔

بیٹنی کے مطابق تحریک کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے گزشتہ روز نامعلوم مقام پر افغانستان سے رہا ہونے والے جنگی کمانڈروں اور قیدیوں کے ساتھ ایک ملاقات کی تھی جس میں دوبارہ سے اپنی کاروئیوں میں تیزی لانے کے لئے عندیہ دیا گیا تھا۔  عدنان کے مطابق گزشتہ تین سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو فوجی اپریشن ختم ہونے کے بعد یہ سب سے بڑی کاروائیاں تھی جو سامنے آئی جس میں عسکریت پسندوں نے خودکش حملہ آور کا استعمال کیا۔

پاکستان میں انسداد دہشتگردی کے ادارے نیکٹا کے اعلیٰ عھدیدار نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں مخدوش صورتحال اور افغانستان میں شورش کے بعد پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے جو شہری علاقوں میں سلیپر سیلز ہیں  ان کو استعمال کرکے وہ شہری علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اس حوالے سے وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہماری مشاورت جاری ہے۔ انھوں نے مزید کہا ملک میں آپریشنز کے بعد خطرہ کم ہوا تھا ختم نہیں ہوا تھا اور اب جو صورتحال بن رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ عسکریت پسند شہری علاقوں میں تنصیبات اور شخصیات کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسعید نے حال ہی میں ایک بین القوامی جریدے کو انٹریو دیتے ہوئے کہا تھا کہ القاعدہ اور لشکرِ جھنگوی کے دو گروہ پاکستانی طالبان میں شامل ہوگئے جن میں  ایک گروہ حال ہی میں ہلاک ہونے والے القاعدہ برِصغیر کے نائب امیر استاد احمد فاروق کے قریبی ساتھی کمانڈر منیب کا ہے جبکہ دوسرا گروہ القاعدہ سے وابستہ امجد فاروقی گروہ ہے جو ماضی میں جنرل پرویز مشرف اور سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔

عبدالسعید کا کہنا تھا کہ لشکرِ جھنگوی کے عثمان سیف اللہ کرد کا گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہوا جس کی سربراہی اب مولوی خوش محمد سندھی کر رہے ہیں۔ جو ماضی میں حرکت الجہاد اسلامی نامی شدت پسند گروہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

اُن کے بقول نومبر میں بھی شمالی وزیرستان سے دو جنگجو دھڑے ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں ایک گروہ مولوی علیم خان کا ہے جو شمالی وزیرستان کے اہم طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر کے ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں جب کہ موسیٰ شہید کاروان گروپ کے نام سے شمالی وزیرستان میں فعال طالبان گروہ بھی ٹی ٹی پی میں شامل ہو چکا ہے۔

نیکٹا کے اعلی عھدیدار نے محقق عبدالسعید کے دعویٰ کی تصدیق کی اور کہا کہ تحریک طالبان پاکستان پہلے کئی دھڑوں میں تقسیم تھی مگر بعد میں وہ تمام دھڑے یکجا ہوگئے  بلکہ اس کے ساتھ القاعدہ کے پاکستانی گروہ اور لشکر جھنگوی کے جنگجو بھی ان میں شامل ہوئے جن کی وجہ سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا اور اب وہ نہ صرف دیہی علاقوں کو ٹارگٹ کررہے ہیں بلکہ شہری علاقوں پر بھی نظر ہے اور وہ واپسی کررہے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے سے زیادہ چوکس ہے اور وہ امن و امان کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔

جیو نیوز سے وابستہ صحافی اور مصنف اعزاز سعید نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کی جو موجودہ پالیسی ہے اس کے مطابق وہ صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں پر توجہ مرکوز کررہے ہیں اور ان کا شہری علاقوں میں کاروائی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ اعزاز کے مطابق افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیگا لیکن افغان طالبان کی نظر میں قبائلی اضلاع پاکستان کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ طالبان اور اشرف غنی کی سوچ ڈیورنڈ لائن پر ایک جیسی ہے۔ ان کے مطابق اگر ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع سے باہر دیگر علاقوں میں کاروائی کریگا تو افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت سامنے آئے گی اس لئے انھوں نے اپنی کاروائیوں کو قبائلی اضلاع تک محدود کیا ہے کیونکہ اس پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت نہیں آئے گی۔

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔