بچوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات پر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس

بچوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات پر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس
بچوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کے تدراک کے حوالے سے ایوان بالا کی تشکیل دی گئی خصوصی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ڈی آئی جی ایبٹ آباد اور ایوب میڈیکل کمپلیکس کے ایم ایس سے مانسہرہ کے  علاقے میں ہونے والے بچے سے زیادتی کی تفصیلات اور میڈیکل میں ایسے کیسز کے حوالے سے درپیش مسائل کے علاوہ خصوصی کمیٹی کے آئندہ کے لائحہ عمل کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کنونیئر کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام، وجوہات اور معاملات کو بہتر کرنے کے لئے ہمیں مل کر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ ایسے واقعات نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ خاندانوں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ بدنامی سے بچنے کیلئے ایسے کیسز کو دبا بھی جاتے ہیں۔ اُن کی حوصلہ افزائی اور شعور اجاگر کر کے معاملات کو بہتر کیا جائے گا۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے نہ صرف موجودہ قوانین کا جائزہ لے کر خامیوں کو دور کیا جائے گا بلکہ سخت سزائیں تجویز کر کے مجرموں میں خوف پیدا کیا جائے گا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں میں شعور اجاگر کر کے بہتری لائی جائے تا کہ اسطرح کے واقعات کو کنٹرول کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ معاملات کی بہتری اور مؤثر قانون سازی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے بھی بات کی تھی اور بہتری کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر مؤثر قانون سازی کی جائے گی۔

ڈی آئی جی ایبٹ آباد نے مانسہرہ میں بچے سے ہونے والی زیادتی کیس پر خصوصی کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایبٹ آباد کے علاقے میں 23 دسمبر 2019 کو مدرسے کے ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ 26 دسمبر کو یہ کیس ایوب میڈیکل کمپلیکس سے رپورٹ ہوا اور 27 دسمبر کو ایف آئی آر درج ہوئی۔ جس کے بعد مدرسے کو بند کر دیا گیا اور 72 گھنٹوں کے اندر مجرم کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ ملزم سرکاری سکول میں اُستاد تھا اور وہ اپنے بھائی کے مدرسے میں بھی پڑھاتا تھا۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو ڈی این اے بھیجا گیا جس کی مثبت رپورٹ آئی۔

ڈی آئی جی نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ گذشتہ برس زیادتی کے 252 کیس ہوئے اور صرف ہزارہ میں 48 کیس رجسٹرڈ ہوئے۔

خصوصی کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2018 میں پاکستان میں 3832 زیادتی کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے جس میں سے پنجاب میں 2403، سندھ میں 1016، بلوچستان 98، وفاقی دارلحکومت 130، خیبر پختونخوا 143، آزاد جموں کشمیر میں 34 کیسز درج کئے گئے۔

پانچ سال تک کی عمر کے 259 کیسز تھے جبکہ 6 سے 10 سال کی بچیوں کے 298 اور لڑکوں کے 371 کیسز سامنے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کی کمی، روایات، غربت اور سکول نہ جانے والے بچوں کی زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے ایسے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مدرسوں میں اصلاحات، سی سی ٹی وی کیمرے لگانا، مختلف عمر کے بچوں کے لئے علیحدہ رہائش، غربت میں کمی، لوگوں کو تعلیم اور شعور اجاگر کرنے اور بے روزگاری میں کمی کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔

اراکین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی، عائشہ رضا فاروق، ثمینہ سعید نے کہا کہ جب تک مجرمان کو سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی، ایسے واقعات کم نہیں ہوں گے۔

سینیٹر ثمینہ کے سوال کے جواب میں ڈی آئی جی ایبٹ آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ غیر رجسٹرڈ مدرسوں کے ہاسٹلز کو بند کیا جائے اور تمام مدرسوں کو رجسٹرڈ کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔

ایم ایس ایوب میڈیکل کمپلیکس نے کمیٹی کو بتایا کہ معاشرتی دباؤ اور عزت کی خاطر بھی لوگ کھل کر آگاہ نہیں کرتے، ڈاکٹروں پر بھی پریشر ہوتا ہے اور سیکیورٹی کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ جب تک معاشرے کو شعور و آگاہی نہیں دی جائے گی، بہتری ممکن نہیں ہے۔ والدین اپنے بچوں کے بہتر کردار میں اپنا فرض ادا کریں۔

خصوصی کمیٹی نے پولیس کی کارکردگی کو سراہا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے خصوصی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ایسے واقعات کے حوالے سے گذشتہ کمیٹی نے بھی کچھ سفارشات تیار کی تھیں اُن پر کتنا عمل کیا گیا ہے اور اس حوالے سے جو قوانین موجود ہیں اُن کا جائزہ لیا جائے اور موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔

سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ ایسے کیسز کی تفصیلات صوبوں سے حاصل کی جائیں اور اس کے مطابق قوانین مرتب کیے جائیں۔

خصوصی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے کر مؤثر قوانین بنائے جائیں گے۔ کمیٹی نے شعور و آگاہی پر بھی زور دیا۔

سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ قانونی اور معاشرتی طور پر قوانین کو مزید مؤثر کرنے سے بھی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے کیسز کے ٹرائل جلد سے جلد مکمل ہونے چاہیے۔ تفتیش کا بھی ایک خاص وقت مقرر کیا جائے اور ایسے کیسز میں ڈاکٹروں اور پولیس سے بھی اگر کوتاہی ہو تو اُسے بھی دیکھنا چاہیے۔

خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز عائشہ رضا فاروق، ثمینہ سعید، محمد جاوید عباسی اور رانا مقبول احمد کے علاوہ ڈی آئی جی ایبٹ آباد، ایس ایس پی ایبٹ آباد اور ایم ایس ایوب میڈیکل کمپلیکس نے شرکت کی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔