اسلم فاروقی کی گرفتاری داعش کے وجود کے لئے خطرہ: افغانستان میں طالبان طاقتور ترین قوت ہوں گے؟

اسلم فاروقی کی گرفتاری داعش کے وجود کے لئے خطرہ: افغانستان میں طالبان طاقتور ترین قوت ہوں گے؟
پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ خراساں یا داعش کے سربراہ اسلم فاروقی کی گرفتاری جہاں عسکری تنظیم کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے، وہاں بعض تجزیہ نگار اسے کمزور ہوتی تنظیم کی وجود کو حقیقی خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

افغان حکومت کی طرف سے 5 اپریل کو اسلم فاروقی کی خصوصی آپریشن میں حراست میں لئے جانے کا باقاعدہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائر یکٹریٹ آف سکیورٹی یا این ڈی ایس کی جانب سے داعش کے سربراہ سمیت 19 افراد کی گرفتاری کا بیان جاری کیا گیا۔

تاہم، دوسری طرف افغان طالبان نے اس حکومتی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلم فاروقی کو این ڈی ایس نے گرفتار نہیں کیا بلکہ شدت پسند کمانڈر نے خود افغان حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال کر ان کے یہاں پناہ حاصل کی ہے۔ طالبان کے دعوے کے مطابق اسلم فاروقی سمیت داعش کے جنگجوؤں کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کنہڑ میں کچھ دنوں سے گھیرے میں لے لیا گیا تھا اور جب ان میں مقابلے کی سکت نہیں رہی تو افغان حکومت کو تسلیم ہوگئے اور اب اسے گرفتاری کا نام دیا جارہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسلم فاروقی کی گرفتاری افغانستان میں کمزور ہوتی دولت اسلامیہ خراسان کے لئے کتنا بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے۔ کیا اس سے واقعی تنظیم کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے؟

ویسے تو عالمی پرتشدد تنظیموں القاعدہ اور النصرا کی کوکھ سے جنم لینے والی دولت اسلامیہ کا باقاعدہ قیام 2014 میں عمل میں آیا جب عراق اور شام میں اسلامی خلافت کا اعلان کر کے ابوبکر البغدادی کو اس کے پہلے خلیفہ یا امیر المؤمنین مقرر کیے گئے۔ تاہم، افغانستان میں اس تنظیم کی ابتدا جنوری 2015 میں اس وقت ہوئی جب پاکستان کے اورکزئی قبائلی ضلع سے تعلق رکھنے والے تحریک طالبان پاکستان کے ایک سابق کمانڈر حافظ سعید خان کو داعش خراسان کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا۔



یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں عبد الرؤف خادم وہ سنئیر افغان طالبان کمانڈر تھے جس نے سب سے پہلے داعش میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں حافظ سعید خان کے ساتھ نائب امیر کے عہدے پر مقرر ہوئے۔

دولت اسلامیہ بنیادی طورپر ایک سنی شدت پسند تنظیم سمجھی جاتی ہے جس کا مقصد شعیہ مسلک کے افراد کو نشانہ بنانا ہے۔ نظریاتی طورپر یہ تنظیم اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں شروع ہونے والی سخت گیر سلفی اور وہابی تحریکوں سے متاثر نظر آتی ہے اور ان کے نظریے کا پر چار بھی کرتی رہی ہے۔

ابتدا میں یہ تنظیم صرف افغانستان کے دو مشرقی اور شمال مشرقی صوبوں ننگرہار اور کنہڑ تک محدود رہی جب کہ اس دوران تنظیم نے پاکستان میں بھی اس وقت موجود بعض افغان مہاجر کیمپوں میں اپنا پروپیگنڈا مواد اور لٹریچر تقسیم کیا جس سے سرحد کے اس پار بھی حکومتی حلقوں میں خوف کی کیفیت پیدا ہوئی۔

تاہم، جوں جوں تنظیم عراق اور شام میں کامیابی حاصل کرتی رہی، افغانستان میں بھی اس کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور یہاں تک کئی دیگر ممالک کے جنگجو بھی اس تحریک میں شامل ہوئے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس تنظیم کو ابتدائی سانس پاکستانی جنگجوؤں کی طرف سے فراہم کی گئی لیکن بعد میں اس میں دیگر ممالک بالخصوص یورپ اور افریقہ کے شدت پسند بھی شامل ہوئے جنہوں نے بڑے بڑے حملوں میں حصہ لیا۔ یہاں تک کہ اب انڈیا سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد بھی اس تنظیم کا حصہ بن چکے ہیں۔



افغانستان میں گذشتہ ماہ سکھوں کے گورودوارے پر ہونے والے خودکش حملے میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ کی طرف سے قبول کی گئی جب کہ حملہ آوروں کی تصویریں اور نام بھی جاری کیے گئے، جس میں ایک حملہ آور ابو خالد الہندی کا تعلق ہندوستان سے بتایا گیا جس کی تصدیق بعد میں انڈین میڈیا کی طرف سے بھی کی گئی۔

افغانستان میں دولت اسلامیہ اور امارات اسلامیہ کے درمیان خونریز جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب داعش نے ننگرہار اور کنہڑ کے صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور اس دوران کئی افغان طالبان کمانڈر اس بنا پر سفاکانہ طریقے سے قتل کیے گئے کیونکہ وہ دولت اسلامیہ کا حصہ بننے سے انکاری تھے۔ اس دوران دونوں جانب سے سینکڑوں افراد مارے گئے۔

تاہم تنظیم کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب جولائی 2016 میں افغانستان میں اس کے پہلے مقرر ہونے والے امیر اور خراساں کے گورنر حافظ سعید خان ایک امریکی ڈرون حملے میں اہم ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ اس واقعے کے بعد تنظیم کے مقرر ہونے والے دو دیگر سربراہان بھی مـختصر عرصے میں امریکی یا افغان فورسز کے حملوں میں نشانہ بنے جس سے تنظیم کمزور ہوتی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان، امریکہ اور افغان فورسز کی طرف سے بھی داعش جنگجوؤں کے خلاف حملوں کا سلسلہ تیز ہوتا گیا۔

گذشتہ چھ سالوں میں تنظیم کے لئے گزرے ہوئے دو سال نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ افغانستان میں بھی سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔ پہلے عراق اور شام سے ان کا قبضہ ختم ہوا جس سے ان کے مالی وسائل ختم ہو گئے۔ اس کے بعد بڑا نقصان اس وقت دیکھنے میں آیا جب 2019 میں ان کے امیر المؤمنین ابوبکر البغدادی ایک حملے میں ہلاک ہوئے۔



کالعدم تنظیموں میں کچھ عرصے سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جب بھی ان کے مرکزی امیر مارے جاتے ہیں تو تنظیموں میں توڑ پھوڑ کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی صورت میں بھی نظر آیا اور ابوبکر البغدادی کی شکل میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں بھی گذشتہ سال ان کے بیشتر جنگجو مارے گئے یا افغان حکومت اور طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر تسلیم ہوئے۔ راوں سال کے پہلے مہینے میں بھی پاکستان کی سرحد سے متصل افغان صوبہ ننگرہار میں دولت اسلامیہ کی پوری تنظیم نے ہتھیار ڈال کر خود کو حکومت کے حوالے کر دیا۔ افغان حکومت کے مطابق تقریباً 1300 داعشی جنگجوؤں نے ہتھیار ڈالے اور حکومت نے تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔

دولت اسلامیہ سے قربت رکھنی والی کالعدم تنظیم جماعت الحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں داعش کافی حد تک کمزور ہو چکی ہے اور جس سے ان کا خاتمہ قریب لگ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ننگرہار اور کنہڑ دو ایسے صوبے ہیں جہاں ان کا اثر و رسوخ زیادہ تھا لیکن اب بظاہر لگتا ہے کہ وہاں سے ان کا تیزی سے سقوط ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق اگر امریکہ اور افغان طالبان کے معاملات کامیابی سے آگے بڑھتے ہیں تو اس سے دولت اسلامیہ سمیت تمام کالعدم تنظیموں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔