اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ اعظم خان ایف آئی آر میں نامزد ملزم تھا اس لئے بھی اس کے بیان کی حیثیت نہیں.جب اعظم خان کا 164کا بیان ہوا تو جرح کا حق نہیں دیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی۔ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)عمران خان کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں پر دلائل چھوڑے تھے آج وہی سے آغاز کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ دو دفعات ہیں جس کے تحت سزا ہوئی۔ ایک غفلت کی بات کرتا ہے اور ایک نہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک جو چارج لگائے گئے وہ اس سے آؤٹ ہے۔ میں عمران خان کے اوپر چارج کے حوالے سے بات کروں گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اعظم خان نے کاپی آپ کو دی؟ آپ کی پوزیشن کیا ہے؟وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ میری پوزیشن یہ ہے کہ سائفر کاپی وزیراعظم آفس سے گم ہو گئی یہی بات اعظم خان نے کی،جب سائفر کاپی نہیں ملتی تو وزارت خارجہ کو آگاہ کیا جاتا ہے۔سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہاکہ 9مارچ کو سائفر کاپی وزیراعظم کو ڈلیور ہوئی۔سلمان صفدر نے کہاکہ سرکار کے اپنے 4گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو دی گئی۔سائفر کاپی وزیراعظم کے سپرد ہوئی ہی نہیں۔سائفر کاپی جس کے سپرد ہوئی اس کو آپ نے گواہ بنا دیاتو آپ بھگتیں۔سائفر گم ہو جائے تو وزارت خارجہ کو رپورٹ کرنا ضروری ہے جو 28مارچ کو ہوا۔محکمانہ انکوائری وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران نے کرنی ہے جو نہیں ہوئی۔وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی ریمائنڈر نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے وصول کیا تو حفاظت کی ذمہ داری بھی ان کی تھی۔ کہا بھی گیا کہ پرنسپل سیکریٹری نے سائفر کی کاپی واپس نہیں کی۔
عدالت نے دریافت کیا کہ لیکن پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے تو کہا ہے کہ میں نے عمران خان کو سائفر کاپی دی تھی، صدر یا وزیراعظم کو جو چیزیں دی جاتی ہے ان کی ذمہ داری ان کے سیکریٹری پر ہوگی؟ صدر یا وزیراعظم کے سیکریٹری سے اگر کوئی غفلت ہو جائے تو اس کی کیا سزا ہوگی؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اعظم خان کا بیان ٹھیک نہیں کیونکہ اسے ماحول نہیں دیا گیا؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیا کہ اعظم خان کا بیان موجود ہے کہ اس نے کاپی بانی پی ٹی آئی کو دی تھی۔میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ چیز سمجھائیں کہ آپ کو کاپی ملی ہی نہیں یا آپ نے وصول کرنے کے بعد واپس کی؟ وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ یہ دونوں چارج ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔سائفر اعظم خان کی کسٹڈی میں تھا۔ اعظم خان نے سائفر وصول کیا۔ کہا گیا پرنسپل سیکرٹری کو جاری کی گئی سائفر کاپی واپس نہیں آئی
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ اگر ان کا مرکزی الزام کہیں نہیں کھڑا تو لاپرواہی کا چارج تو کھڑا ہو ہی نہیں سکتا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ سائفر کاپی آپ کے حوالے کی گئی؟وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ جی بالکل !میرا یہی پوائنٹ ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلیل دی کہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ میں نے کاپی وصول کی تھی مگر دفتر سے وہ غائب ہوگئی ہے۔گزشتہ سماعت پر 5 ون سی اور ڈی کی بات کر رہے تھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں ایک چیز پر آپ سے متفق ہوں کہ ایک چارج لگنا تھا ملزمان پر۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ اعظم خان نے بیان میں کہا کہ انہوں نے کاپی وزیراعظم کو دی تھی جو واپس نہیں آئی۔سوال یہ ہے کہ اعظم خان نے کاپی دی نہیں یا آپ نے واپس نہیں کی؟ اعظم خان کو ایک سائڈ پر کرلیں۔ مگر سائفر آپ نے دیکھا اور پڑھا ہمیں وہ بتائیں۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اعظم خان نے کہا کہ سائفر گم ہوگیا تو سیکریٹری ملٹری، ڈی جی سی اور وزیراعظم آفس کے سکیورٹی کو ڈھونڈنے کی ہدایت دی۔ سائفر کی کاپی گمشدہ ہونے پر وزارت خارجہ کو آگاہ کرنا ہوتا ہے جو ہم کر چکے۔
ایف آئی اے کے وکیل حامد شاہ نے کہا کہ 8 مارچ کو سائفر کی کاپی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو موصول ہوئی۔ 9 مارچ کو اعظم خان نے کاپی اس وقت کے وزیراعظم کو دی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم سمیت اہم دفاتر میں اہم دستاویزات کی موومنٹ ریکارڈ ہوتی ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایس پی ایم کو جو کاپی ملی وہ وزیراعظم ہاؤس بھیجی گئی اس کی کوئی تاریخ لکھی ہوئی ہے؟
جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ پراسکیوشن کی جانب سے بتایا گیا ہے جس تاریخ کو کاپی وزیراعظم ہاؤس بھیجی گئی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ وزیراعظم ہاؤس کیسے کام کرتا ہے جب کوئی ڈاک وغیرہ آتی ہے؟
جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں، سائفر کاپی جب آجاتی ہے تو اس کے ہرموومنٹ کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سائفر گم یا چوری ہو جائے تو وزارت خارجہ کو کیا کرنا چاہیے اس پر ایک قانون موجود ہے۔ قانون میں لکھا ہوا ہے کہ وزرات خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی انکوائری کرے، اعظم خان نے کہاں بتایا ہوا کہ بانی پی ٹی آئی کے پاس کاپی موجود ہے؟ اگر بانی پی ٹی آئی نے دستخط کیے ہوتے تو ان کی ذمہ داری بھی ہوتی۔ سیکریٹریٹ رولز کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے پاس کسٹڈی نہیں ہوسکتی۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سائفر سے نہ کوئی نقصان ہوا اور نا کسی کو کوئی انجری ہوئی، بانی پی ٹی آئی کا تو فرض ہی نہیں ہے کہ کاپی کی حفاظت کریں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو جرم کرنا چاہتا ہے وہ کرتا ہے، اس کو آپ فرض سے تشبیہ نہ دیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ یہ غفلت کا لفظ استعمال نا کریں، ایک دستاویز جس کی حفاظت ریاست کے لیے اہم ہے وہ غائب ہوا ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سرکار کے اپنے 4 گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ سائفر کی کاپی اعظم خان کو دی گئی، جب سائفر کاپی وزیراعظم کے سپرد ہوئی ہی نہیں، تو جس کے سپرد ہوئی اس کو آپ نے گواہ بنا دیا تو خود بھگتیں۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اعظم خان پر چارج پر کیوں نہیں لگایا گیا؟
سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میں یہی بات کرنا چاہتا ہوں کہ ملزم پر چارج لگتا ہے۔انہوں نے اس کو گواہ بنا لیا۔ ملزم کو گواہ بنا کر پراسیکیوشن نے اپنا کیس خراب کردیا ہے۔ بطور وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی کا کام تھا کہ آگاہ کریں کہ کاپی گم ہوگئی۔ جو انہوں نے کردیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک دستاویز آپ کے پاس آیا، اسے رکھنے کی ڈیوٹی آپ کی نہیں ہے۔ تو اس کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟ وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق بھی گواہوں نے یہ نہیں کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے جرم کیا، گواہوں نے بیان دیا کہ ہم وزیر اعظم کو کاپی گم ہونے کا بتاتے رہے، ایک چھوٹی سی غفلت کو بنیاد بنا کر سابق وزیر اعظم کو سزا نہیں دے سکتے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی کیس بنایا گیا تو اس کی فائنڈنگ کیا ہیں؟
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ وزرات خارجہ نے کبھی انکوائری نہیں کی تو کیس کیسے بن سکتا ہے؟ سیکریٹری داخلہ نسیم کھوکھر نے شکایت تو کی مگر ایف آئی اے نے خود سے چیزیں ڈالی، درخواست گزار کی درخواست میں عمران خان کا کہیں بھی نام نہیں۔ ایف آئی اے نے کہا کہ ہم نے 5 اکتوبر سے اپنی انکوائری شروع کردی تھی۔ 5 سے 12 اکتوبر تک کس کے کہنے پر یہ انکوائری کی اور وہ کہاں پر ہے؟ سیکریٹری داخلہ کی درخواست نہیں ایف آئی اے کی خود سے درج کرائی گئی ایف آئی آر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ وزارت داخلہ فریق ہے۔ اس وقت رانا ثنا اللہ وزیر داخلہ تھے۔ سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ایک آڈیو ہم نے سنی جس میں سائفر کا ذکر تھا، پورے ٹرائل میں آڈیو کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ ایف آئی آر میں جو زبان استعمال کی گئی وہ سیکرٹ ایکٹ کی دفعات کی تھی۔
وکیل نے دلائل دیے کہ جو پارٹی چھوڑ دیتے ہیں وہ بری ہو جاتے ہیں، ایک کو کہا جارہا ہے پارٹی چھوڑ دو۔ پارٹی چھوڑنے پر ان کا نام نکال دیا جاتا ہے۔شاہ محمود قریشی نے پارٹی نہیں چھوڑی تو وہ ملزم ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ اسد عمر نے پارٹی چھوڑ دی ہے یہ کہیں لکھا ہوا ہے؟
وکیل نے بتایا کہ نہیں کہیں لکھا ہوا نہیں ہے، اعظم خان ایک نامزد ملزم اور کاپی کی حفاظت کے ذمہ تھے۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں کہیں بھی بانی پی ٹی آئی کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ اعظم خان ایف آئی آر میں نامزد تھے اور وہ لاپتہ ہو جاتے ہیں، پھر اچانک بیان آجاتا ہے۔ آپ میرے دلائل کو یہاں تک نوٹ کرلیں کہ 4 میں سے 2 ملزمان کو قصوروار قرار دے دیا گیا۔
وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اہم کردار دینے کے بعد دو ملزمان کو چھوڑنے سے ایف آئی اے کا کیس خراب ہوا۔جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں کہ اعظم خان جو سٹار گواہ ہے، اس کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ اعظم خان کا کوئی ایسا بیان جو غیر یقینی ہو؟ آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ اعظم خان کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیوں نہیں ہے؟ اس پر عدالت کو بتائیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ 164 کے بیان کے بعد ملزم کو جرح کا موقع نہیں دیا گیا۔ اعظم خان خود وعدہ معاف گواہ بن سکتا تھا۔ ایف آئی اے کے پاس نہ جاتا۔ اعظم خان معافی مانگ کر وعدہ معاف گواہ بن سکتے تھے۔انہوں نے ایسا بھی نہیں کیا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان اچانک غائب ہوتے ہیں۔ کیس میں نامزد ملزم بنتے ہیں اور پھر 164 کا بیان آجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معاملات کا نہیں معلوم کہ اعظم خان غائب ہوئے، ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی اور پھر واپس بھی لے لی گئی۔
وکیل عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی سائفر کا مواد نہیں رکھا گیا۔ سائفر کہاں ہے، جب ایک چیز ہی نہیں تو ہوا میں مقدمہ بناکر کانٹیٹ بنائے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ دو دفعہ کیس ریمانڈ بیک کر چکا ہے۔ ہم بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں ٹرائل کورٹ میں جرح کا موقع نہیں دیا، حق دفاع نہیں دیا۔ اگر کیس ریمانڈ بیک ہو جاتا ہے تو اس کے گراؤنڈز واضح ہونے چاہئیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو میرٹ پر سن لیا، آپ کیوں ایسا سوچ رہے کہ ریمانڈ بیک ہوگا؟
اسی کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہوگئے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل تیمور ملک نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ سلمان صفدر نے تمام چیزوں کو مکمل کرلیا۔ مگر میں کچھ چیزیں بتانا چاہتا ہوں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ جو بھی چیزیں آپ نے بتانی ہیں وہ آپ ہمیں تحریری طور پر دیں۔
بعد ازاں سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حامد علی شاہ سے مکالمہ کیا کہ ہم فیصلہ معطل کرتے ہیں پھر جتنا بھی آپ کو وقت چاہیے لے لیں۔ ہم آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کم وقت لیں۔ سلمان صفدر نے15 لے لیے تو آپ کم از کم دلائل تو شروع کریں۔
بعد ازاں عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔