پاک فوج نے بالآخر آرمی چیف کے دشمنوں کو ختم کرنے، ان کا راستہ روکنے اور فوج کا مرکزی کنٹرول بحال کرنے کے لیے اپنے سیاسی جوہری ہتھیار کو چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک غیر معمولی اقدام کے طور پر انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
چونکہ جنرل فیض پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور الزامات ثابت ہونے پر ان کا کورٹ مارشل کیا جائے گا، لہٰذا انہیں بطور فوجی افسر ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان سے فوجی اعزازات، مراعات اور سہولتیں چھین لی جائیں گی، اور انہیں ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔
یہ گرفتاری مبینہ طور پر رواں سال اپریل میں فوج کی جانب سے ہاؤسنگ سکیم ٹاپ سٹی کے حوالے سے گذشتہ سال نومبر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شروع کی گئی تحقیقات کے بعد کی گئی۔ شکایت کنندہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ اور ان کے بھائی پر الزام لگایا کہ انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسی کو استعمال کرتے ہوئے ان پر مہنگی نجی زمین فیض حمید کے بڑے بھائی نجف حمید جو ایک جونیئر ریونیو اہلکار تھے، کے نام منتقل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ٹاپ سٹی کے مالک کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں ہراساں کیا گیا۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ فیض حمید، بطور آئی ایس آئی سربراہ، مبینہ طور پر ذاتی اور ادارہ جاتی فائدے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے لوگوں سے پیسے لینے اور سازباز کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، میں نے کراچی میں جن لوگوں سے بات کی تھی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے آئی پی پیز کے مالکان پر دباؤ ڈالا کہ ریاست کو فائدہ پہنچانے کے لیے معاہدوں پر نظرثانی کریں اور دوبارہ مذاکرات کریں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے آبائی اضلاع تلہ گنگ اور چکوال میں سینکڑوں ایکڑ اراضی حاصل کرنے میں اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ یہ زمین خاندان کے مختلف افراد کے نام منتقل کی گئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فوج نے بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کے لیے تمام مطلوبہ ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ کرپشن فوج کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اعلیٰ افسران کرپشن میں ملوث ہوں یا ذاتی فائدے حاصل کریں تو کرپشن قابل معافی ہو سکتی ہے۔ فیض حمید اور ان کے بھائی نجف حمید جو نیب کی تحویل میں ہیں، ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات انہیں سزا دینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ سینیئر صحافی ماریانا بابر نے ایکس پر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے سے اس طرح کی فوری کارروائی کے پیچھے منطق کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سوال کیا کہ دیگر معاملات میں عدالتی احکامات عام طور پر اتنی تیزی سے نافذ نہیں ہوتے ہیں۔
اندرونی انتشار
اس اقدام کے پیچھے ممکنہ محرک یہ نظر آتا ہے کہ فیض حمید آرمی چیف کے خلاف فوج کے اندر نافرمانی اور بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیسا کہ سینیئر صحافی عارفہ نور نے اپنی ٹویٹ میں لکھا؛ 'لوگوں کو (فیض حمید کے خلاف) مقدمے کی فکر کم اور فوج کے اندر کی کمزوری اور نظم و ضبط کے بارے میں زیادہ فکر کرنی چاہیے'۔ ایسا لگتا ہے کہ کرپشن کا مقدمہ عوام کے سامنے یہ ظاہر کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کے پسندیدہ آئی ایس آئی چیف ایسے کام کرتے رہے ہیں جن سے متعلق وہ کہا کرتے تھے کہ وہ ان کاموں کے خلاف ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ جو فوج کی قیادت کو درپیش ہے وہ اندرونی بے ضابطگی کا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کچھ حاضر سروس افسران سمیت مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں گی۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے باضابطہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف الزامات میں ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ اس طرح کے الزامات اشارہ کرتے ہیں کہ وہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے لیے سیاسی نظام اور فوج کے اندر حمایت بڑھانے میں مصروف تھے۔
کچھ دوسرے ذرائع نے دعویٰ کیا کہ فیض حمید بہت ساز باز کرنے والے تھے اور انہوں نے سیاسی نظام میں گہرائی تک سرایت حاصل کر لی تھی۔ مبینہ طور پر وہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے اندر تک گھس چکے تھے۔ اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کابینہ میں بھی ان کے بعض ہمدرد موجود تھے۔ لیکن زیادہ سنگین مسئلہ وہ 'نیٹ ورک' تھا جو انہوں نے مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ قائم کیا تھا جسے اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہمیں کابل کے سرینا ہوٹل میں فیض حمید کی تصویر یاد آتی ہے، جب چائے کا گھونٹ پیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 'فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا'۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اگر ٹی ٹی پی سے ان کے روابط قائم کرنے کے ثبوت دستیاب ہیں تو یہ ناصرف فوجی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہو گی بلکہ یہ بھی ظاہر ہو گا کہ وہ ان دہشت گردوں کے ساتھ بھی ملوث رہے ہیں جو مسلسل پاک فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
فوجی عدالت میں چلنے والا مقدمہ کسی دھماکے سے کم نہیں ہو گا جو مسلح افواج کے اندر پیدا ہونے والی نظم و ضبط کی خرابی کو ختم کر سکتا ہے۔ یہ گرفتاری عسکری برادری کے لیے ایک اشارہ ہے، خاص طور پر ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کے لیے، جنہوں نے پی ٹی آئی کی حمایت کی اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے موجودہ فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کے خلاف کھڑے ہو گئے۔
فیض حمید کی گرفتاری کے فیصلے کا سب سے اہم حصہ، جیسا کہ اسلام آباد کے ذرائع نے اشارہ کیا، اپنے ہی کسی فرد کو سزا دینے کے لیے اعلیٰ شخصیات میں پیدا ہونے والا اتفاق رائے ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ فوج عام لوگوں میں عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہے لیکن اس سے بڑی پریشانی ان کے اپنے ادارے میں تقسیم ہے۔ فیض حمید کی گرفتاری کا فیصلہ اس پریشانی کی تصدیق کرتا ہے۔
ٹرائل شروع ہونے کے بعد میڈیا کو کتنی معلومات دی جائیں گی، اس سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ یقینی ہے کہ ایسی معلومات ضرور لیک کی جائیں گی جن کے ذریعے عمران خان اور ان کے آئی ایس آئی سربراہ کو مزید متنازعہ بنایا جا سکے۔ اتنا البتہ طے ہے کہ فوج کے موجودہ سربراہ اپنے سابقہ ساتھی سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر نے فیض حمید کو کھلی چھوٹ دے کر تقریباً دو سال لگا دیے جب تک کہ ان کے خلاف مقدمہ بنانے کے لیے کافی مواد اکٹھا نہ کر لیا جائے۔ اسلام آباد میں جاری چہ مگوئیوں کے مطابق اس دوران پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں اور فیض حمید کے درمیان رابطوں کے حوالے سے شواہد اکٹھے کیے گئے۔ غور طلب بات ہے کہ گذشتہ سال اگست میں پولیس نے پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کے گھر پر توڑ پھوڑ کی تھی اور ناصرف ان کی بیٹی کو گرفتار کیا تھا بلکہ سکیورٹی کیمرے، موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی ضبط کر لیے تھے۔
بے ضابطگی کو روکنا
اہم سوال جو بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر فوج کے پاس فیض حمید کے حوالے سے معلومات تھیں تو پھر اتنا انتظار کیوں کیا گیا؟ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، اس کی صرف ایک وضاحت ہے کہ گرفتاری کا مقصد مسلح افواج کے اندر بڑھتی ہوئی بے ضابطگی اور عمران خان کی مسلسل حمایت کو روکنا ہے۔ بہت سے لوگوں کو عمران خان کو میڈیا میں ملنے والی کوریج، جیل میں رہتے ہوئے معلومات تک رسائی اور لوگوں کو مسلسل اکسانے کی صلاحیت پر حیرانگی تھی۔ سینیئر صحافی نصرت جاوید کے مطابق جیل میں بند عمران خان کو دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں معلومات تک زیادہ رسائی حاصل تھی۔ واضح طور پر فیض حمید کا طرز عمل اور اب یہ گرفتاری ادارے کے اندر موجود مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔
اس کے علاوہ اپنے اندر کے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا مطلب میڈیا اور عدلیہ سمیت دوسرے اداروں کو پیغام بھیجنا ہے۔ اگر فیض حمید واقعی کوئی ریکٹ چلا رہے تھے اور دوسروں کو یہ امید دلا رہے تھے کہ جنرل عاصم منیر کو ہٹایا جا سکتا ہے، تو یہ لمحہ ایسی ہر حرکت کا پردہ فاش کر دینے والا ہے۔
یقیناً فیض حمید کی گرفتاری کے ساتھ کہانی ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ فیض حمید کس حد تک اپنی تذلیل برداشت کر پاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسی باتیں بھی کر رہے ہیں کہ فیض حمید عمران خان کے خلاف گواہ بھی بن سکتے ہیں۔ وہ ایسے شواہد فراہم کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی رہنما کے آرمی چیف کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر اکسانے میں ملوث ہونے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ حاضر سروس آرمی چیف پی ٹی آئی کی طرف سے 9 مئی کے حملوں کو بغاوت سمجھتے ہیں جس کی انہیں سزا ملنی چاہیے۔
میری ایک صحافی دوست اور سیاسی کارکن کے مطابق، 'خوف اس بات کا ہے کہ فوجی قیادت اب عمران خان کو جسمانی طور پر نہیں تو سیاسی طور پر ختم کرنے کی طرف ضرور بڑھ رہی ہے'۔ فوج پہلے ہی پی ٹی آئی کی سویلین سپورٹ بیس میں سیاسی مزاحمت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ بلاشبہ، عام لوگ عمران خان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور فیض حمید کی گرفتاری سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو گا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ فوج کے خلاف ملین مارچ ہو سکتا ہے۔ لوگوں میں خوف بہت زیادہ ہے۔ فوج اب جو کچھ کرنا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے فیصلہ کن اقدام کیا جائے۔ اگر عمران خان باز نہ آئے تو فوج انہیں سزا دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر عمران خان ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو پھر انہیں جیل میں رکھا جائے گا اور انہیں ایک اور نواز شریف بنا دیا جائے گا، جو فوجی احکامات کی تعمیل کرنے اور خاموش رہنے پر راضی ہو گا۔
یہ یقیناً آمرانہ حکمرانی کی جانب سے پنجے مزید گاڑنے کا معاملہ ہے۔ اس سے حالات کو عارضی طور پر کنٹرول میں لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن اس سے پاکستان میں امن نہیں آئے گا۔ اس معاملے میں اعلیٰ عدالتوں کے بھی گھسیٹے جانے کا امکان ہے کیونکہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپیلیں دائر کی جا سکتی ہیں۔ جو عدالتیں اب تک اپنی آزادی قائم کرنے کے موڈ میں نظر آ رہی ہیں، کیا وہ فوج کو پیچھے دھکیل پائیں گی، یہ دیکھنے لائق ہو گا۔ فوج نے سیاسی بساط پر یقیناً ایک بڑی چال چلی ہے۔